ہمارے ظہور صاحب

پورا نام تھا ظہور الدین بٹ۔ سب لوگ اُنہیں بٹ صاحب کہہ کر پکارتے تھے مگر کالم نگار نے اُنہیں ہمیشہ بھائی ظہور صاحب کہا۔وہ کئی بار ٹوکتے کہ لفظ صاحب کا اضافہ کر کے باہمی تعلق کو رسمی شکل کیوں دی گئی۔ جواب ملتا کہ کیا یہی کافی نہیں کہ میں (عمرکے اور مرتبہ کے فرق کے باوجود) آپ کے نام کا پہلا لفظ استعمال کرنے کی جسارت کر لیتا ہوں۔ میں 1980 ء میں بارسکول میں عمر کے جس حصے میں داخل ہوااُس کیلئے اُردو لغات میں ادھیڑ کا موزوں لفظ صحیح مل گیا۔ آپ اس لفظ پر زبر کی بجائے پیش لگا دیں تو مطلب واضح ہو جاتا ہے یعنی عمر کا وہ حصہ جب اُدھیڑنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے بقول غالب یہ تو کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ رو میں بھاگتا ہوا رخش ِ عمرکہاں‘ کب اور کن حالات میں جا کر تھمے گا مگر عمر کے اس گھوڑے پر سوار کو یہ تو پتہ چل جاتا ہے (یا چل جانا چاہئے )کہ ہاتھوں سے باگ اور رَکاب سے پائوں پھسلنے کا آغاز ہوگیا ہے۔ کالم نگار جب قانون کی تعلیم حاصل کرنے میں زندگی کے سات بہترین سال صرف کر کے برطانیہ میں پہلے وکیل اور پھر بیرسٹر بنا اُس وقت تک بھائی ظہور صاحب شعبہ وکالت میں (بطور بیرسٹر) اتنے قدم جما چکے تھے کہ اُن کو اپنا گورو ماننے والوں کی تعداد درجنوں سے بڑھ کر سینکڑوں میں پہنچ چکی تھی۔
ایک عرصہ ہوا کہ بٹ صاحب وکالت سے (خرابی سخت کی وجہ سے) ریٹائر ہو کر گوشہ نشین ہو چکے تھے۔ پچھلی صدی کے آخری 25سالوں میں لندن میں شاید ہی کوئی ایسی سیاسی یا سماجی تقریب منعقد ہوئی ہو جس میں ظہور بٹ صاحب شریک نہ ہوئے ہوں۔ شرکت بھی وہ جو صفِ اول میں بیٹھ کر کی جاتی تھی۔ وہ نظریاتی طور پر ایک روشن دماغ‘ سیکولر‘ عوام دوست‘ سماجی انصاف‘ شہری آزادیوں اور قانون کی حکمرانی کے علمبردار تھے۔ نہ دائیں بازو کے رجعت پسند اور نہ بائیں بازو کے سوشلسٹ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پہلے حسین شہید سہروردی اور پھر ایئرمارشل اصغر خان کے بہت قریب رہے۔ سہروردی صاحب کے مغربی پاکستان میں جو بہترین ساتھی تھے اُن میں ملک حامد سرفراز کے بعد ظہور بٹ صاحب کا نمبر آتا تھا۔ وہ نہ صرف اچھا لکھتے تھے بلکہ تقریر بھی عمدہ کرتے تھے۔ پاکستان کے اخباروں میں سالہا سال کالم لکھے جو 2014ء میں کتابی شکل میں شائع ہو کر ہمیشہ کیلئے محفوظ کر لئے گئے۔ ایک کتاب کا عنوان تھا ''پاکستان کی کہانی۔ میری زبانی‘‘۔
بلوچ رہنمائوں سے اُن کے دوستانہ مراسم تھے۔ خان آف قلات سے لے کر اکبر بگتی صاحب تک۔ یہ اُن کی مہربانی تھی کہ اُنہوں نے مجھے ان سب سے ملوایا ۔بٹ صاحب کو جو لوگ بھی قریب سے جانتے تھے اُن کا رشتہ عزت پر مبنی تھا یا محبت پر یا دونوں پر۔ ابھی چند دن پرانی بات ہے جب سال نو شروع ہوا۔ نئے سال کے دو ہی دن گزرے کہ میں شام کو آتش دان کے پاس بیٹھا تقسیم ہند پر اپنی دوست Alex von Tunzelmannکی لکھی ہوئی دلچسپ اور علم افروز کتاب پڑھ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ولایت خان کے ستار پر بجائے گئے راگ بھیرویں کو سن رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ علی جعفر زیدی (ادارۂ مطالعہ تاریخ چلانے والے اور زاہد چوہدری کے ناشر حسن جعفر زیدی کے بھائی) کی برسوں بعد آواز سنائی دی۔ اُنہوں نے یہ المناک خبر سنائی کہ آج بعد دوپہر ہمارے مشترکہ اور پیارے دوست ظہور بٹ صاحب وفات پا گئے۔ وہ ایک ہفتے سے شمالی لندن (جہاں وہ ساری عمر مقیم رہے) کے ہسپتال میں زیر علاج تھے مگر بہترین طبی سہولیات بھی کورونا وائرس کے مہلک حملے کے سامنے بے بس ہو گئیں ۔ وفات سے تین دن بعد بٹ صاحب شمالی لندن (جہاں وہ ساری عمر رہے) کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیئے گئے۔ 25 سوگواروں نے خدا کی امانت خدا کو لوٹا دی۔ بدقسمتی سے بٹ صاحب کی جرمن بیوی خرابیٔ صحت کی وجہ سے تدفین کی آخری رسومات میں شامل نہ ہو سکیں۔ اُن کی نمائندگی بٹ صاحب کی اولاد (ایک بیٹے اور ایک بیٹی) نے کی۔ 
بھائی ظہور صاحب سے میرا ایک اور تعلق بھی تھا جو برطانیہ میں اُن کا کسی اور ہم پیشہ سے نہ تھا اور وہ یہ تھا کہ ہم دونوں نے ابتدائی تعلیم کاحصہ گورنمنٹ کالج لائل پور (نزد دھوبی گھاٹ بالمقابل ڈگلس پورہ) میں مکمل کیا تھا۔ ظہور بٹ صاحب کی وفات کے بعد لائل پور کے حوالے سے میرے صرف تین ہم عصربرطانیہ میں رہ گئے ہیں‘گلاسگو میں احمد ریاض‘ مانچسٹر میں محمد طفیل اور لندن میں مختار ندیم۔ ظہور بٹ صاحب کا برسوں پرانا قریبی تعلق (سہروردی صاحب کے توسط سے) شیخ مجیب الرحمن سے تھا۔ سہروردی صاحب کی وفات کے بعد مجیب الرحمن نے نامعلوم وجہ سے بٹ صاحب سے مکمل قطع تعلق کر لیا جس کا بٹ صاحب کو بہت رنج پہنچا۔جب شیخ مجیب الرحمن لائل پور جیل سے (جس کے پڑوس میں جیل روڈ پر کالم نگار پچاس کی دہائی کے وسط میں مقیم تھا) رہا ہو کر براستہ لندن ڈھاکہ جانے لگا تو لندن میں مختصر قیام کے دوران مجیب الرحمن نے بٹ صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی مگر بٹ صاحب اُسے کس منہ سے ملنے جاتے؟ ظہور بٹ صاحب بڑے آدمی تھے۔ اُنہوں نے بہادروں کی طرح اپنی غلطی مان لی اور بقیہ عمر کفِ افسوس ملتے رہے کہ انہوں نے سہروردی صاحب کا اچھا ساتھی ہونے کا حق ادا نہ کیا اور اپنا اخلاقی فرض ادا کرنے کا تاریخی موقع گنوا دیا۔
ظہور بٹ صاحب اتنی ہر دل عزیز شخصیت تھے کہ فروری 2009 ء میں برطانیہ میں پاکستانی چیمبر آف کامرس کے صدر متفقہ طور پر چن لئے گئے حالانکہ ان کا کاروبار کی دنیا سے دور کا تعلق بھی نہ تھا۔ برطانیہ میں اولین پاکستانی بیرسٹروں (اب تو ماشاء اللہ ہماری تعداد سو سے بھی تجاوز کر چکی ہے) میں ایک بیرسٹر بن جانے کے بعد اُنہوں نے بڑی محنت سے وکالت کی اور دولت سے زیادہ نام کمایا۔ میری معلومات کے مطابق بٹ صاحب دو کتابوں کے مصنف تھے۔ غالباً دونوں اُن کے مطبوعہ کالموں کا مجموعہ تھے۔ افسوس کہ مجھے دوسری کتاب کا نام نہیں آتا۔ نہ میں نے دیکھی ہے اور نہ پڑھی ہے۔ کوشش کروں گاکہ اب پڑھ لوں تاکہ مرحوم کے ذہنی حدود اربعہ کے بارے میں میرے فہم میں اضافہ ہو سکے۔ بٹ صاحب صرف خوش خوراک اور خوش لباس ہی نہیں خوش مزاج بھی تھے۔ میں جب بھی اُن کو یاد کرتا ہوں تو میرے ذہن میں ایک مسکراتا ہوا چہرا اُبھرتا ہے اور یہ مسکراہٹ اُن کے چہرے پر موت کے بعد بھی اُسی آب و تاب سے نظر آئی جو اُن کی زندگی میں آتی تھی۔ بقول اقبال یہی نشانی ہے اُن لوگوں کی جو خالق حقیقی کے پسندیدہ ہوتے ہیں۔ بیرسٹر (اور وہ بھی تجربہ کار) ہونے کے باوجود اُن میں بچوں جیسی معصومیت اور سادگی تھی۔ میں صرف ایک مثال دینے پر اکتفا کروں گا‘ بارہ تیرہ برس پہلے لندن میں ایک معروف پاکستان وکیل نے برطانوی حکومت سے صریحاً جھوٹ بھول کر سیاسی پناہ مانگی اور اپنا قد کاٹھ بڑھانے کیلئے ایک انوکھا حربہ سوچا۔ اُس نے بھارت اورپاکستان کی چوٹی کی سیاسی اور کاروباری شخصیات کو اس جال میں پھنسایا کہ کیوں نہ بھارت اور پاکستان کی آزادی کی تقریب اکٹھی منائی جائے۔ بٹ صاحب بھی میزبان تنظیم (جو 2007 ء کے بعد صفحہ ہستی سے مٹ گئی) کے عہدہ دار بن گئے۔ مذکورہ بالا وکیل کو پھر بھی سیاسی پناہ نہ ملی تو وہ دبئی چلا گیا او ربٹ صاحب اپنے غیر محتاط کردار پر سالہا سال کڑھتے رہے۔ ہم اُنہیں تسلی دیتے تھے کہ یہ تقریب بالکل بے ضرر تھی اس لئے آپ اسے بھول جائیں۔ ہمارے ظہور بٹ صاحب ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں مگر وہ اپنے دوستوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں