یہ زمین کس کی ہے؟

صرف زمین نہیں۔ ہوا کس کی ہے؟ پانی کس کا ہے؟ روشنی کس کی ہے؟ عقل کس نے دی؟ بصیرت کہاں سے ملی؟ بات شروع ہوئی تھی زمین کی ملکیت سے۔ اس کا جواب ڈھونڈ لیں تو پھر آگے بڑھیں۔ اگر مسلمان ہیں تو قرآن پاک اُٹھا کر دیکھ لیں۔ صاف لکھا ہے کہ زمین خدا کی ہے۔ مطلب سمجھنا ہو تو کلام اقبال کی طرف رجوع کریں۔ بالِ جبریل میں ایک نظم مطلب سمجھانے کیلئے کافی ہیں۔ ؎
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون
کون دریائوں کی موجوں سے اُٹھاتا ہے سحاب؟
کون لایا کھینچ کر پچھم سے بادِ سازگار
خاک یہ کس کی ہے‘ کس کاہے نورِ آفتاب؟
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ ٔگندم کی جیب
موسموں کو کس نے سکھا دی ہے خوئے انقلاب؟
دِہ خدایا! یہ زمین تیری نہیں‘ میری نہیں
تیرے آباء کی نہیں‘ تیری نہیں میری نہیں
جب یہ طے پا گیا کہ اس زمین کا ایک چپہ بھی نہ آپ کا ہے اور نہ میرا‘ اس کا صرف ایک ہی مالک ہے اور وہ ہے خالقِ کائنات۔ منطقی اعتبار سے ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں بھی حق بجانب ہوں گے کہ اقتدار اعلیٰ کی طرح ہر وہ شے جو قادرِ مطلق کی ہے وہ اُس کے بندوں کی ہے۔ آیئے ہم ایک قدم اور آگے بڑھیں۔ مان لیا کہ زمین خدا کے بندوں کی ہے تو پھر سوال اُٹھتا ہے کہ کون سے بندے؟ ظاہر ہے کہ وہ بندے اساتذہ‘ وکلا یا ڈاکٹر تو نہیں ہو سکتے۔ وہ بندے صرف کسان‘ کاشتکار اور اس پر ہل چلانے والے‘ بیج بونے والے اور فصل کاشت کرنے والے ہو سکتے ہیں۔ اس موقف کی تصدیق کیلئے آپ میرے فاضل دوست پروفیسرClive Ponting کی لکھی ہوئی کمال کی کتاب World History کے صفحہ نمبر306 کی آخری تین سطور پڑھ لیں۔ اسلامی فوج نے ایران فتح کر لیا تو ہمارے دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ نے حکم جاری کیا کہ ساری زیر کاشت زمین کی مالک حکومت ہوگی یا عوام۔ یہ تو سن640 ء کی بات تھی‘ اب آپ 1360 سال آگے جا کر ''ریاست مدینہ‘‘ کے دعوے کو ایک نظر دیکھیں۔ہمارے ملک کی زیر کاشت زمین کے ہر انچ کے مالک افراد ہیں۔ بطور جاگیر دار یا بطور زمیندار یا بطور کاشتکار یا بطور مزارع۔ ہم سے تو بھارت ہی اسلامی نظام معیشت کے زیادہ قریب ہے کہ وہاں 70 برس پہلے جاگیر داری ختم کر دی گئی تھی۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک طرف رکھ دیں کہ وہ عوام دشمنی میں اور ہر شعبہ پر چھائی ہوئی مافیا کی سرپرستی میں ایک سے ایک بڑھ کر ہیں۔ مذہبی جماعتوں نے بھی جاگیر داری کی بھر پور مخالفت اور مذمت نہیں کی۔ ایک طرف صدیوں سے پسے ہوئے طبقات اور اُفتادگانِ خاک اور غیر مراعات یافتہ لوگوں (خصوصاً خواتین اور بچے)اور دوسری طرف مزارعین‘ اساتذہ‘ لیڈی ہیلتھ ورکرز‘ چھوٹے سرکاری ملازمین اور بھٹہ مزدوروں کے حق میں ایک لفظ نہیں کہا۔ برطانیہ میں نصف صدی سے زیادہ رہ کر مجھے سخت لفظ استعمال کرنے کی عادت نہیں اس لئے اس گستاخی پر معافی پہلے مانگتا ہوں اور پھر لکھتا ہوں کہ مذکورہ بالا جماعتوں اور رہنمائوں کی خاموشی کیلئے مجرمانہ کا اسم صفت استعمال کیا جائے تو شاید نامناسب نہ ہو۔
حکومت سٹاک ایکسچینج کے سٹہ بازوں‘ بڑے زمینداروں‘ جاگیر داروں اور دیگر اربوں روپوں کی آمدنی والے شعبوں پر ٹیکس لگانے کی ہمت کر لے (جوئے شیرلا نے سے بھی بڑی ہمت) تو سالانہ آمدنی میں ڈھائی ہزار ارب روپے کی رقم کااضافہ ہو سکتا ہے۔ کالم نگار تو اپنے قارئین کی بڑی اکثریت کی طرح ایک عام (بلکہ ادنیٰ) شہری ہے اور صحیح معنوں میں Laymanہے۔ آپ میری بات اس لئے مان لیں کہ یہی اعداد و شمار ڈاکٹر شاہد حسین صدیقی اور ڈاکٹر حفیظ پاشا جیسے بڑے ماہرین معیشت نے بار بار دہرائے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں اقتدار کے گھوڑوں پر سوار لوگوں کو جب تاریخی عمل زمین پر اُتارتا ہے تو اُنہیں گدھوں پر بٹھاتا ہے اور دُم میں ٹین کا ڈرم باندھ دیتا ہے۔اپنے وطن کے کئی گزشتہ مطلق العنان حکمرانوں کو ایک نظر مڑ کر دیکھیں۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد برطانوی راج کا دوسرے درجے کا افسر (جو محض ماہر مالیات تھا) ملک غلام محمد ایک جست لگا کر گورنر جنرل اور پھر آمر مطلق بن گیا اور ہمارے نوزائیدہ جمہوری نظام کو اتنے کاری زخم لگائے کہ ہم 68 سال گزر جانے کے بعد پوری طرح سنبھل نہیں سکے۔ وہ مفلوج ہو کر قوت گویائی کھو بیٹھا مگر پھر بھی (ایک امریکی خاتون کے توسط سے) اقتدار پر قابض رہا۔ وہ کراچی میں دفن کیا گیا مگر کوئی شخص نہیں جانتا کہ کہاں؟ نہ جنازہ اُٹھا اور نہ مزار بنا مگر تاریخ کے کوڑے دان میں گر جانے والا وہ ہمارا واحد حکمران نہیں۔ دوسرے گورنر جنرل اور پہلے صدر جنرل اسکندر مرزا کو بھی اس فہرست میں شامل کرلیں۔ لندن میں وفات پائی‘ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں تدفین کی اجازت نہ دی اور ایرانی حکومت کی مہربانی سے (محض اُن کی ایرانی نژاد بیوی کی وجہ سے) اُس سرزمین پر آخری آرام گاہ کیلئے جگہ ملی۔ ایوب خان‘ یحییٰ خان اورضیا الحق۔ اب انہیں کن الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے؟ یاد بھی کیا جاتا ہے یا نہیں؟ کیا یہ حقائق موجودہ حکمرانوں کیلئے مقام عبرت نہیں؟ ایک وفاقی اور چار صوبائی حکومتیں دیکھیں‘ صاف نظر آرہا ہے کہ سیاسی طبقات موجودہ فرسودہ عوام دشمن‘ گلے سڑے نظام میں کوئی معنی خیز‘ مثبت اور عوام دوست تبدیلی نہیں لانا چاہتے۔ وہ ہر شعبۂ حیات پر قابض مافیا سے لڑنے اور اُسے شکست دینے کے بجائے اس سے سمجھوتہ کر کے اقتدار کا باقی ماندہ حصہ اُفتاں خیزاں گزارنا چاہتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر شاہد حسین صدیقی‘ ڈاکٹر قیصر بنگالی‘ ڈاکٹر حفیظ پاشا‘ڈاکٹر فرخ سلیم‘ ڈاکٹر اکمل حسین میں سے ایک معاشی ماہر کے ایک مشورے پر بھی عمل نہیں کرنا چاہتے۔ وہ پولیس اور پٹوار کے موجودہ ظالمانہ اور پرلے درجے کے کرپٹ اور رشوت خور نظام کو برقرار رکھنے پرمُصر ہیں۔ اُنہیں ناصر درانی اور اختر حسین گورچانی (دونوں سابق انسپکٹر جنرل پولیس ہیں) کا پولیس اصلاحات کیلئے ایک بھی بہترین مشورہ قابلِ قبول نہیں۔ اربوں روپوں کے غیر پیداواری اخراجات کے بعد وہ کم آمدنی والے سرکاری ملازموں اور ہزاروں لیڈی ہیلتھ ورکروں کا ایک بھی جائز مطالبہ تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔ اُنہیں نہ ملک میں لاکھوں بے زمین کاشتکار نظر آتے ہیں اور نہ قابلِ کاشت بے کار زمین کے لاکھوں ایکڑ جو کاشتکاروں میں مفت تقسیم کر کے ہم اپنی زرعی پیداوار کئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے چوٹی کے صحافی اپنے کالموں میں یہ لکھتے ہیں اور بار بار لکھ کر کالم نگار کا دل بڑی باقاعدگی سے دکھاتے ہیں کہ تمام سفید ہاتھیوں کو نجی ملکیت میں دے دیا جائے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ قومی ملکیت کی ناکام پالیسی اور نجی ملکیت کی عوام دشمن پالیسی اپنانے کے علاوہ ایک تیسرا راستہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان اداروں میں کام کرنے والے محنت کشوں کو ہی اُن کا مالک بنا دیا جائے تو وہ اُنہیں ایک سال کے اندر منافع بخش بنا لیں گے اور حکومت کو بھی کروڑوں ‘اربوں روپے بطور ٹیکس ادا کریں گے۔
میرا روم‘ آپ کا روم‘ ہم سب کا روم جل رہا ہے اور صرف رسوائے عالم رومن بادشاہ نیرو نہیں ہم سب بانسری بجا رہے ہیں۔ اجازت دیجئے کہ آج کا کالم ان چھ الفاظ پر ختم کروں جو میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ ''آپ جاگیں گے تو سویرا ہوگا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں