یہ نظام کیسے چلے گا؟…(2)

عصرِحاضر میں کوئی بھی سیاسی بندوبست اس وقت تک مستحکم‘ دیرپا‘عوام دوست اور سماجی انصاف اور مساوات کے عمل کو آگے بڑھانے والا نہیں ہو سکتا جب تک وہ جمہوریت کے معیار پر پورا نہ اُترے۔ یہ ایک عالمگیر سچائی ہے۔ اس سے انکارنہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آمرانِ مطلق بھی جعلی انتخابات اور استصواب ِرائے کا سہارالینے پر مجبورہو جاتے ہیں۔ اس بیانیے سے پھوٹنے والا دوسرا سوال یہ ہے کہ جمہوری نظام کی کامیابی کی کون سی شرائط ہیں؟ اس کے تقاضے کیا ہیں؟یہ اِن معروضی حالات کا محتاج اور طلبگار ہے جو اسے اُس منزل پر پہنچنے سے بچالیں جہاں دانشوروں کے ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ یہ نظام چلے گا تو کیسے؟اختصار سے کام لیا جائے تو وثوق سے لکھا جا سکتا ہے کہ جمہوری نظام کو کامیابی سے چلنے اور آگے بڑھنے اور نشوونما پانے اور پودے کی طرح زمین میں اپنی گہری جڑیں لگانے کیلئے مندرجہ ذیل شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے:
آبادی کے بڑے حصہ کا تعلیم یافتہ ہونا۔ ایسا انتخابی نظام جس میں موروثیت نہ ہو اور جس میں اُمیدواروں کے کردار کی خوبیوں اور منشور پر ان کی دولت ‘ تھانہ کچہری کی سطح پر ووٹروں کے ناجائز کام کرانے کی صلاحیت اور ایک بڑی برادری کی ممبرشپ غالب نہ آ جائے۔ باقاعدگی سے شفاف اور منصفانہ انتخابات۔ آزاد میڈیا۔ متوسط طبقے کی اکثریت۔ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے منشور کی کلیدی اہمیت۔ قانون کی حکمرانی۔اخبارات پڑھنے والوں کو مقامی حکومتوں کی کلیدی اہمیت بہت اچھے طریقے سے معلوم ہے۔ وبا ہو یا سیلاب یا ٹڈی دَل یا کوئی اور آفت ان کے خلاف مضبوط ترین اور سب سے مؤثر دفاعی بند صرف مقامی حکومتیں باندھ سکتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر ہو یا گورنر وہ کسی شہر کو صاف نہیں رکھ سکتا‘ وہ پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کر سکتا اور نہ سیلابی پانی کو شہر سے نکال سکتا ہے۔ وہ ڈینگی مچھروں کو نہیں مار سکتا۔ وہ ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی مرمت نہیں کروا سکتا‘ وہ نہ سکول چلا سکتا ہے اور نہ ہسپتال‘ وہ نہ امن و امان قائم رہ سکتا ہے اور نہ پولیس اور سرکاری افسروں کو عوام کا خادم بنا سکتا ہے۔وہ ہزاروں چھوٹے مقدمات کے فریقین کے درمیان مصالحت یا ثالثی کے ذریعے فیصلے نہیں کر سکتا۔ وہ کسی چھوٹے بڑے سانحے کا سدّ باب نہیں کر سکتا۔ وہ نہ مجرموں کو سزا دے سکتا ہے اور نہ دلوا سکتا ہے۔ وہ ہمارے شہروں کو سر سبز نہیں بنا سکتا۔ وہ عوام کیلئے تفریحی اداروں کو معرض وجود میں نہیں لا سکتا۔ عوام اس کیلئے رعایا ہیں جنہیں وہ بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک سکتا ہے۔ اُن پر نادر شاہی حکم چلا سکتا ہے۔ اُن کا سرکاری لال فیتے سے گلا گھونٹ سکتا ہے۔ وہ لکیر کا فقیر ہے۔ وہ مکھی پر مکھی مارنے کا ماہر ہے لیکن اُس کی ذہانت اور تخلیقی قوتیں اُس وقت جاگ پڑتی ہیں جب اُسے مال بنانے کاموقع نظر آئے۔ اگر وہ با بو ہے تو آپ اُسے اربوں روپے کمانے والی سٹیل مل چلانے کا اختیار دے دیں وہ اُسے دیوالیہ کر دے گا اور پھر ہماری حالت ِزار پر رحم کھاتے ہوئے ہمیں یہ ''دانش مندانہ‘‘ مشورہ دے گا کہ آپ اس ''سفید ہاتھی‘‘ کو نجی ملکیت میں دے دیں۔ ہمارے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ یہ ملک جس میں 22‘23 کروڑ لوگ رہتے ہیں یہ صرف کروڑوں لوگوں نے بنایا۔ قائداعظم کی زیر قیادت چلنے والی زبردست عوامی تحریک نے‘ پختونخوامیں پیر صاحب مانکی شریف نے‘ سندھ میں جی ایم سیّد نے اور بلوچستان میں بلوچوں کے جمالی اور جوگیز ئی قبیلوں کے سرداروں اور قاضی عیسٰی کے گھرانے نے۔ مسلم لیگ سیاسی جماعت سے زیادہ سیاسی تحریک کا نام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اُس کا سیاسی وجودبہت جلد مٹ گیا۔ ایوب خان کے وقت مسلم لیگ (کونسل ) اور مسلم لیگ (کنونشن) سے ہوتے ہوئے اب معاملہ مسلم لیگ (ن) مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (عوامی) تک آپہنچا ہے۔ ایک شاعر کے مطابق‘ ہماری جان (یعنی محبوب) ہمارے اُوپرایک اور ستم ڈھا سکتی ہے چونکہ ہم ابھی تک زندہ ہیں اور ابھی ہمارے نڈھال اورزخموں سے چورجسم میں جان باقی ہے۔
ہمارے غیر جمہوری نظام اور ہمارے معاشی نظام کی بنیاد لوٹ مار‘ کسان اور مزدور کے استحصال، اربوں روپوں کے ٹیکس کی چوری‘ دبئی اور دور دراز جزیروں میں چوری کا مال چھپانے اور ہر قسم کی ہیرا پھیری کر کے ملکی خزانہ کو نقصان پہنچانے پر ہے۔ یہ سیاست دان (خصوصاً صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں کے اراکین) اور ارب پتی ''کاروباری‘‘ اور ارب پتی لوگ آپس میں اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ یک جان دو قالب والا معاملہ ہے۔ ایک دوسرے کے جزوِلاینفک ہیں۔آپ بتایئے کہ اس طرح کے عوام دشمن‘ فلاحی مملکت کے دشمن معاشی نظام کے Sub Structure پر جس سیاسی نظام کا (بقول کارل مارکس) Super Structure تعمیر ہوگا‘ وہ جمہوری ہوگا یا فسطائی؟
ہماری آنکھوں کے سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جس سے ہم آنکھیں نہیں چرا سکتے اور وہ یہ ہے کہ ہم اس سیاسی اورمعاشی جہنم سے نکلیں تو کیونکر؟ جواب سیدھا سادہ ہے ہم اسی طرح کی عوامی تحریک چلا کر بچے کھچے پاکستان کو بچا سکتے ہیں جس طرح پاکستان بنایا گیا تھا۔ خوش قسمتی سے ہماری راکھ میں اب بھی بہت سی چنگاریاں ہیں جو چار سو پھیلے ہوئے اندھیرے کو روشنی میں بدل سکتی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت میں روشن دماغ‘ محب الوطن‘ انصاف پسند اور عوام دوستوں کی بڑی تعداد اساتذہ‘ صحافی‘ ڈاکٹر‘ طلبا و طالبات‘ ریٹائرڈ جج صاحبان اور جرنیل ‘ پنشن یافتہ افراد‘ گھریلو خواتین‘ پادری اور امام صاحبان‘ کسان‘ مزدور‘ ان سب کا اتحاد ایک قوسِ قزح کی طرح ہمارے سیاسی اُفق پر اُبھرے گا تو ہم اندھیرے سے روشنی کی طرف سفر شروع کریں گے۔
اس کالم کی پہلی قسط 23 مارچ کو شائع ہوئی تھی۔ برائے مہربانی آپ ان دونوں کو 16 مارچ کو سعد رسول صاحب کے (سسٹم کے عنوان تلے) کمال کے لکھے ہوئے کالم کے سیاق و سباق میں پڑھیں۔ میں نے اُن کے لکھے ہوئے کالم کو بار بار پڑھا اور ہر بار میرے بوڑھے دل میں اُمید کے نئے نئے شگوفے پھوٹے۔ اقبال جیسے عظیم مفکر اور دانشوروں کے سردار کو بھی انجمن میں اپنا اکیلا پن ہر گز اچھا نہ لگتا تھا۔ اُنہیں گنتی کے چند راز داں مل گئے (نہ معلوم وہ کون تھے) تو اُن کا دل خوشی سے جھوم اُٹھا (یہ ہوتا ہے شاعر ہونے کا نقصان ) اور اُن کے دماغ کو یہ خوشخبری سنانے لگا کہ وہ دن گئے جب وہ اکیلے ہی ہمارے نشاۃ ثانیہ کے خواب دیکھتے تھے۔ کالم نگار تو ایک عام شخص ہے (اشتراکی ذہن رکھنے کی وجہ سے غیر مراعات یافتہ‘ مظلوم‘ ستم زدہ اور صدیوں سے کچلے ہوئے ہم وطنوں کا دل و جان سے ہمدرد) وہ جو بات نصف صدی سے کہتا چلا آیا ہے کہ چہروں کی بجائے نظام‘ فرسودہ اور عوام دشمن نظام‘ کو بدلیں اور وہ آواز محاورے کے مطابق صدابصحرا رہی‘ نقار خانہ میں طوطی کی آواز۔ خدا بھلا کرے ایئر مارشل اصغر خان اور ڈاکٹر مبشر حسن صاحبان کا جنہوں نے کالم نگار کو وہ بات سمجھائی جو نسخہ کیمیا کا درجہ رکھتی ہے۔ سعد رسول صاحب کے علاوہ بھی کئی صاحبان نے اپنے اپنے پیرائے میں بار بار لکھا ہے کہ انگریزوں کے بنائے ہوئے صنم کدوں کے بت پُرانے ہو گئے ہیں۔ آیئے ہم سب مل کر (بقول اقبال) اک نیا شوالہ تعمیر کریں جو عوام دوست ہو۔ جہاں سرکاری زبان اُردو ہو‘ جہاں عوام کو سرکاری دفتروں (خصوصاً تھانہ اور پٹوار) اور عدالتوں کی بے انصافی سے نجات مل جائے۔ جہاں ہر سطح پر مقامی حکومتوں کا جاندار نظام ہو۔ جہاں انصاف اور مساوات ہو۔ جہاں سعد رسول کا ''اللہ دتہ‘‘ خوش اور خوشحال ہو۔ پاکستان نام ہے ایک وعدہ کا اور ایک خواب کا۔ آپ اگر وہ وعدہ پورا نہیں کرتے اور اُس خواب کی عملی تعبیر کی صورت نہیں بناتے تو آپ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے پیارے ‘سب سے پیارے وطن کے وجود کا جواز ختم کرتے ہیں۔ خدا کے لیے ایسا نہ ہونے دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں