یہ نظام کیسے چلے گا؟… (3)

اجازت دیجئے کہ یہ بات پھر دہرائوں کہ سارامعاملہ نظام کا ہے۔ نظام کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ نظام (معاشی‘ سیاسی اور معاشرتی) اُس ہوا کی طرح ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔ یہ اُس دھرتی کی طرح ہے جس سے پھولدار پودے یا خار دار جھاڑیاں اُگتی ہیں۔ یورپی ممالک نے گزری ہوئی صدی میں بتدریج اصلاحات کر کے اپنا نظام عوام دوست کر لیا جبکہ روس‘ چین‘ ویتنام‘ کیوبا اور ایران نے یہی منزل انقلاب لا کر حاصل کر لی۔ صرف وہ نظام چلتا ہے جو عوام دوست ہو‘ جہاں عوامی فلاح و بہبود‘ قانون کی حکمرانی‘ انصاف اور مساوات کا دور دورہ ہو۔
بے گھر شخص کو سر پر چھت چاہئے‘ بے روزگار کو ذریعۂ آمدنی‘ روٹی چاہئے‘ بچوں کی تعلیم کیلئے سکول اور علاج کیلئے طبی سہولتیں۔ صرف یہی نہیں جسم پر کپڑے اور پائوں میں جوتے بھی۔ جان و مال اور عزت کی حفاظت۔ یہ سارے کام صرف ایک فلاحی و جمہوری‘ عوام دوست مملکت میں ہوتے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ آپ یہ نہ کریں گے توکیا ہوگا؟ یا تو آپ کے ملک کے تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد ترک وطن کر کے ملک سے باہر بھاگ جائیں گے۔ دوسری صورت زیادہ تکلیف دہ ہے اور وہ ملک میں طوائف الملوکی۔ہماری آنکھوں کے سامنے ایک عالمی طاقت (سوویت یونین) کی حصے بخرے ہوئے۔ یہی حال وسطی یورپ میں یوگو سلاویہ کا ہوا۔ ایک اور بھی امکان ہے اور وہ یہ ہے کہ رشوت ستانی‘ کرپشن‘ ہر قسم کی بدعنوانی‘ ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزی‘سمگلنگ‘ بدامنی‘ لوٹ مار‘ چوری اور ڈاکے‘ قانون شکنی‘میرٹ کی پامالی‘بے صبری‘ بے اُصولی بڑھتے بڑھتے عروج تک جا پہنچیں ۔ فلاحی مملکت نہ بنانے کی جو سزائیں ملتی ہیں وہ تینوں ہمیں باری باری ملیں۔ دو (پہلی اور تیسری) بدستور مل رہی ہیں۔ دوسری سزا اتنی ہولناک ہے کہ کالم نگار کے دل میں جو وسوسے اُبھرتے ہیں وہ اُس کو لکھنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ لکھنا چاہے بھی تو قلم ساتھ نہ دے گا۔ یقینا ہر محب الوطن شخص میری اُس بات کو بخوبی سمجھ لے گا چاہے وہ نہ زبان سے بولی جا سکتی ہے اور نہ لکھی جا سکتی ہے۔ فاصلہ ہزاروں میل کا یا لاکھوں میل کا دل کو دل سے راہ ضرور ہوتی ہے۔ کالم نگار کا بیانیہ دوسرے کالم سے پھیل کر تیسرے تک آپہنچا ہے۔ مناسب ہوگا کہ اپنے مؤقف کو لگی لپٹی لگائے بغیر مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے۔
ہمارے ہاں جمہوری اور فلاحی مملکت کے قیام (اُس کے بغیر موجودہ فرسودہ نظام ہر گز نہیں چل سکتا) کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں۔ یہ حرفِ اوّل ہیں‘ حرفِ آخر نہیں۔ ان کی وہی اہمیت ہے جو حادثے میں زخمی شخص کے زخموں سے خون کا بہائو روکنے اور اُکھڑتی ہوئی سانسوں کے نظم و ضبط کو درست کرنے کیلئے آکسیجن دینے کی ہوتی ہے۔ آپ اُنہیں ابتدائی اور فوری طبی امداد کے زمرہ میں شمار کریں۔ سیاسی نظام تو صرف دو بنیادی اور Radicalاصلاحات اور اقدامات سے درست ہوگا۔ پارلیمانی نظام کی عبرت ناک ناکامی کے بعد ہمارے پاس ملک بھر میں متناسب نمائندگی کا قابل فہم اور قابل عمل نظام کو متعارف کرانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ زراعت اور صنعت کی بہتری (خصوصاً بد سے بدتر ہونے والے زرعی نظام کی ہنگامی بنیادوں پر اصلاح اور آنے والی تباہی کا سدباب) کیلئے دو اتنے طاقتور کمیشن بنائے جائیں جن کی سفارشات حکومت قبول کرنے کی پابند ہو۔ لاکھوں ایکڑ غیر آباد زمین اُن کاشتکاروں میں مفت تقسیم کی جائے جو کھیت مزدور ایک مربع انچ زمین کے مالک نہیں۔ اسی طرح ایک مربع انچ زرعی زمین کو مکانات کی تعمیر کیلئے استعمال کرنے۔ زیر کاشت رقبہ گھٹانے اور ایک زرعی ملک کو اربوں ڈالروں کی خوراک اور اجناس درآمد کر نے کی اجازت نہ دی جائے۔ کیا جنوبی پنجاب میں رسول بخش رئیس‘ خالد مسعود خان اور رئوف کلاسرا صاحبان کے علاوہ کوئی چوتھا شخص نہیں جسے ایک لاکھ ایکڑ پر لگے ہوئے آموں کے باغات کا صفایا نظر نہ آیا ہو۔ متناسب نمائندگی کی بنیادی اہمیت اپنی جگہ مگر جب تک سرکاری اختیارات کی عدم مرکزیت (Decentralisation)نہ ہوگی۔ گائوں‘ تحصیل اور ضلع کی سطح پر بااختیار اور وسائل سے مالا مال مقامی حکومتیں نہ ہوں گی۔ حکومت (چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو) ہوا میں معلق رہے گی۔ وہ کٹی پتنگ کی طرح ڈولتی رہے گی یہاں تک کہ ایک دن وہ اسی طرح اُچک لی جائے گی جس طرح گزرے زمانوں میں منائی جانے والی جمہوری بسنت کی کٹی پتنگوں کو پکڑ (یا لوٹ) لیا جاتا رہا اور نئی ڈور کے ساتھ پھر اُڑایا جاتارہا۔ آمروں کو اتنا تجربہ حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ بہ آسانی دس دس سال فن حکمرانی کے کمالات دکھانے‘ آئین کی دھجیاں اڑانے‘ قانون کی حکمرانی کو پامال کرنے‘بھارت کے ہاتھ اپنے تین دریا فروخت کر کے جذبۂ خیر سگالی کو فروغ دیتے رہے۔وہ افغانستان پر امریکی جارحیت کے سہولت کار بن جانے، انگریزی کو سرکاری زبان بنائے رکھنے، ہر قسم کی مافیا (مجرموں کے منظم ٹولے) کو اپنا ساتھی بنا لینے، داخلی خود مختاری مانگنے والوں کو غدار قرار دے کر سزائے موت سنانے اور دوسرے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے میں ید طولیٰ حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ لکھتے وقت کالم نگار کے ذہن میں برما کے فوجی حکمران تھے جو جمہوری حکومت کو برطرف کر کے مظاہرین کو بے دریغ قتل کرنے میں مصروف ہیں۔ اپنی لکھی ہوئی (یقینا بے ساختہ) سطور کو دوبارہ پڑھتا ہوں تو ذہن میں خطرے کی ایک سُرخ بتی روشن ہوتی ہے۔نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے وطن عزیز کے دکھوں کا دکھڑا رویا اور بار بار رویا۔
وائرس کی وجہ سے لندن میں تمام دکانیں (جن میں گل فروش بھی شامل ہیں) بند نہ ہوتیں تو میں ڈھیروں پھول خرید لیتا اور کسی ہوائی کمپنی کی خدمت میں گزارش کرتا کہ وہ اسلام آباد کی طرف پرواز کرے اور ہماری اعلیٰ عدالتوں پر کئی من پھولوں کی بارش کر دے جنہوں نے موجودہ حکومت کے ایک نادر شاہی حکم کو خلافِ قانون قرار دیا ہے۔ جس کی زد سے اُس نے بنی بنائی بلدیاتی حکومتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔حکومت نے جو کیا تھا کیا یہ ہوتی ہے عوام دوستی؟کیا اسے کہتے ہیں اپنے منشور کا احترام؟ اُدھرکراچی میں کیا ہوا؟ جس شخص نے یقینی سزا سے بچنے کیلئے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا جناب عمران خان نے اُسے انگریزی محاورہ کے مطابق By Hook or Crook ‘ایوان بالا (Senate)کا رکن بنا دیا۔ مبارک ہو!اللہ تعالیٰ آپ کو اس ثواب کا اجر دے گا مگر اہل کراچی شاید آخر اپریل میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں اس پر اپنا فیصلہ دیں گے۔کتنا بڑا المیہ ہے کہ سرکاری بابوئوں اور افسروں نے اربوں روپے کمانے والی سٹیل مل کا خون پی لیا۔ اس کی ہڈیاں بھی نہ بخشی گئیں۔ اب وہ بے چاری اربوں روپوں کا خسارہ دینے والی بن گئی تو اُسے اونے پونے داموں فروخت کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ کالم نگار فریاد کرتا ہے کہ یہ سٹیل مل وہاں کام کرنے والے ہزاروں مزدوروں کو دے دیں۔ اُنہیں اس کا مالک بنا دیں۔ وہ یقینا اسے منافع بخش بنا لیں گے اور کروڑوں روپوں کا ٹیکس بھی ادا کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں