نوشتۂ دیوار

چھ ہزار میل دُور سے خبر آئی ہے کہ وہاں تین سالوں کے اندر چار وزیروں کو خزانہ کی کنجی تھمائی گئی۔ کالم نگار کو ماسوائے برطانوی قانون کی الف ب کے کچھ نہیں آتا‘ نہ علم ِمعاشیات اور نہ علم ِنجوم۔ اس لاعلمی کے باوجود یہ یقین سے کہہ سکتا ہے کہ چوتھا وزیر خزانہ بھی اُسی طرح ناکام ہوگا جیسے اس کے تین پیشرو۔ اس یقین کے باوجود میرے دل سے دعا نکلتی ہے کہ شوکت ترین صاحب ہمارے معاشی نظام کی کایاپلٹ دینے میں کامیاب رہیں۔یہ تو تھی دل کی بات اور دل تو ہوتا ہی پاگل ہے۔ دماغ کہتا ہے کہ جب گاڑی ہی پرانی ہو‘ نہ صرف فرسودہ بلکہ نہ انجن ہو اور نہ ٹائروں میں ہوا تو وہ چلے گی کیونکر؟ اب ہماری معاشی بہتری کسی بابو کے بس کا روگ نہیں۔ وہ گھسے پٹے اور ناکام نسخے اپنی صدیوں پرانی پٹاری سے نکالیں گے‘ ہمیں اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں اُلجھائے رکھیں گے۔ مریض کو یقین دلائیں گے کہ سرکاری عنوان کے مطابق صحت یاب ہو چکا ہے۔ کم از کم اُن کے حساب کے مطابق مریض کو صحت یاب ہوجانا چاہئے‘ اگر وہ ابھی تک مریض ہے تو اس میں یقینا وزیر خزانہ کے ماہرانہ نسخوں کا قصور نہیں بلکہ وہ خود ذمہ دار ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُس کی قسمت ہی خراب ہو ۔ آپ بتایئے کہ جس معاشی نظام کی بنیاد ہی ہر سال اربوں ڈالروں کا قرض لینے پر ہو‘ وہ چلے گا کیسے؟
معاشی نظام کے تین حصے ہیں:زراعت‘ صنعت اور تجارت۔ نہ ہم زرعی اصلاحات کی ہمت رکھتے ہیں اور نہ لاکھوں ایکڑ بے کار (مگر زرخیز اور کارآمد) زمین بے زمین کاشتکاروں میں تقسیم کرنے کی جرأت۔ جب کارخانوں میں مزدوروں کو کم از کم اُجرت دی جائے اور اُنہیں غلام سمجھا جائے یا بیگار پر کام کرنے والے تو نہ زراعت بہتر ہوگی اور نہ ہی صنعت جس کا انحصار اچھی زراعت پر ہے۔ کلاسیکی معاشی علم میں فی کس آمدنی کا حساب اس طرح لگایا جاتا ہے کہ کل آمدنی کو کل آبادی پر تقسیم کیا جاتا ہے اور جو جواب نکلے اُسے Per Capitaآمدنی کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے۔کسی ملک میں سو لوگ ہوں‘ ان میں سے 90 فیصد کی آمدنی ہزار روپے اور دس کی ایک ایک کروڑ ہو تو یہ کل دس کروڑ نوے ہزار بنتی ہے اور اوسطاً دس لاکھ نو سو روپے فی کس‘ جو بالکل گمراہ کن ہے اور 90 فیصدکی اصل آمدنی سے مصنوعی طور پر گیارہ سو گنا زیادہ۔
معاشی مرض بڑھتے بڑھتے سرطان بن چکا ہے اور ہمارے سرکاری معاشی ماہرین کی جیب میں اسپرین کی پڑیاں ہیں۔ کراچی میں ڈاکٹر قیصر بنگالی اور ڈاکٹر شاہد حسین صدیقی بار بار فریاد کرتے ہیں مگر حکومت نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے۔ کپاس کی گرتی ہوئی پیداوار کا بھی یہی حال رہا تو پھر کانوں میں ٹھونسنے کیلئے بھی نہیں ملے گی۔ سٹیٹ بینک کے بارے جو نیا قانون بذریعہ صدارتی آرڈیننس نافذ کیا جا رہا ہے اُس کی چوٹی کے ماہرینِ معیشت او ربڑے برے کاروباری لوگوں نے سخت مخالفت کی ہے ان میں ڈاکٹر حفیظ پاشا بھی شامل ہیں۔ اگر وہ مصلحتاً خاموش رہتے تو حفیظ شیخ کی جگہ لے سکتے تھے (وہ پہلے بھی وزیر خزانہ رہے ہیں)۔ اب رہی بات معاشی بحران کی تو بقول اقبالؔ سبب کچھ اور ہے جسے تو خود سمجھتا ہے۔
جناب شوکت ترین ایک سنجیدہ شخص ہیں‘ بدقسمتی سے ترین صاحب کے پاس نہ افراطِ زر کا علاج ہے اور نہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور نہ مہنگائی کا۔ وہ ریت کی دیوار کو کتنی دیر سنبھالا دیں گے؟ہماری درآمدات کا بل برآمدات سے زیادہ ہے‘ ہم اربوں ڈالروں کی زرعی اشیا بشمول خوراک درآمد کرتے ہیں۔ ہمارا ہر بجٹ خسارے کا بجٹ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے اخراجات ہماری آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں۔سوچئے کہ کیوں ہیں؟ ہم اپنی چادر دیکھ کر پائوں کیوں نہیں پھیلاتے؟ آپ کو یاد ہوگا کہ وزیراعظم نے شبر زیدی صاحب کو FBR کا چیئرمین لگایا تھا۔ وہ کچھ ہی عرصہ بعد یہ عہدہ جلیلہ چھوڑ گئے۔ خرابی صحت کی وجہ سے نہیں اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ صحت خراب ہے تو وہ زیدی صاحب کی نہیں بلکہ معاشی نظام کی ہے۔ زیدی صاحب بتاتے ہیں کہ اُن کی سفارشات کو ہرگزقبول نہ کیا گیا۔ وہ کہتے تھے کہ کروڑوں دکاندار کوئی ٹیکس نہیں دیتے۔ حکومت کہتی تھی کہ آپ نے دبائو ڈالا تو وہ سب ہڑتال کر دیں گے اور حزب اختلاف کو بیٹھے بٹھائے اتنے زیادہ حکومت مخالف مظاہرین مل جائیں گے۔ دوائی بہت کڑوی ہے مگر جب تک مریض اُس کو پینے پر رضا مند نہیں ہوتا وہ صحت کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکتا۔ لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے اور اپنے ملک کی حکومت کے ساتھ صریحاً دھوکا کرنے اور امانت میں خیانت کرنے میں اپنے آپ کو اخلاقاً حق بجانب سمجھتے ہیں۔
کالم نگار یہ سطور لکھتے ہوئے رُکا تاکہ کھڑکی سے باہر دیکھ سکے۔ شروع اپریل میں (خلافِ معمول) برفباری کا منظر۔ اتنی دیر میں صبح کا اخبار آگیا۔ میں Times کے صفحات جلدی جلدی اُٹھاتاہوا اخبار کے وسط تک جا پہنچا جہاں عالمی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ میری نظریں صفحہ نمبر45 پر جم گئیں‘ سُرخی یہ تھی ''ہمیں دو بلین ڈالر نہ دیں‘‘ درست حساب جوڑا جائے تو 2.34 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) نے کینیا کے مالی بحران پر وقتی طور پر قابو پانے کیلئے مذکورہ بالا رقم بطور قرض دینے کی پیشکش کی تھی جو کینیا کے لوگوں نے مسترد کر کے اک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ جو نئی ویب سائٹ بنائی گئی ہے اُس کا نام ہے: Stop Giving Kenya a Loan ۔ چند دنوں کے اندر کینیا کے 25 لاکھ شہریوںنے دستخط کر کے قرض کے اس نئے معاہدے کو منسوخ کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ کینیا پہلے لئے ہوئے قرضوں کی واپسی کیلئے سخت مصیبت میں گرفتار ہے۔ اگلے سال کینیا کی کل قومی آمدنی(GDP) کا 73 فیصد حصہ پچھلے قرضوں کی قسط ادا کرنے میں صرف ہو جائے گا۔ حکومت نے دستخط کروانے والی مہم کے سربراہ کو جیل میں ڈال دیا۔احتجاجی عوام نے IMF کے سرکاری فیس بک پیج پر اپنی یہ فریاد شائع کی ہے کہ جب تک کینیا میں اگلے سال ہونے والے انتخابات میں دیانت دار قیادت برسر اقتدار نہیں آتی کینیا کو مزید قرض نہ دیا جائے ورنہ وہ بھی پہلے قرضوں کی طرح خورد برد ہو جائے گا۔ کینیا کے صدر (جو کینیا کی جنگ آزادی کے ہیروJomo Kenyattaکے فرزند ہیں) نے کھلم کھلا تسلیم کیا ہے کہ ہر روز کرپشن کی وجہ سے قومی خزانے کو ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے۔
آپ بتائیں کہ ہمارے قومی مفادات کا نگہبان کون ہے؟ آوازِ خلق کی ترجمانی کس کا فرض ہے؟ 20 کروڑلوگوں کا والی وارث کون ہے؟ ہمیں قرضوں اور کرپشن کی دلدل میں ڈوب جانے سے کون بچائے گا؟ کیا سچ نہیں کہ پہلے لئے گئے قرض لوٹ مار کا شکار ہوئے؟ جنہوں نے مال کھایا اب قرض کی قسطیں بھی وہی ادا کریں۔ہماری معیشت کی کشتی میں چھلنی جتنے سوراخ ہیں۔ وہ ڈوب رہی ہے مگر ہم ہیں کہ ساری توجہ نئے وزیر خزانہ کے انتخاب پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ اربابِ اقتدار میری یہ بات پہلے سمجھے ہیں اور نہ اب سمجھیں گے‘بقول غالبؔ کاش خداوند تعالیٰ مجھے کوئی ایسی زبان عطا فرمادے جس میں تاثیر ہو یا کشتی کے موجودہ (نیک نیت مگر نااہل) ملاحوں کے دل بدل دے۔ سعد رسول کے ''اللہ دتہ‘‘ کی سیدھی سادی دیانتدار اور اَن پڑھ مگر سیانی اور سُگھڑبی بی بھی جانتی ہے کہ چھوٹی سی دکان یا کوئی بھی کاروبار جو مستقل خسارے میں ہو‘ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ ایک انگریزی محاورے کے مطابق Titanic آمدنی سے زیادہ اخراجات کے گلیشیر سے ٹکڑا کر ڈوب رہا ہے مگر وزیراعظم مذکورہ جہاز پر کرسیوں کی ترتیب بدل رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے جہاز کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ انگریزی کے ایک اور محاورے کے مطابق جہنم کو جانے والا راستہ نیک نیتی سے بنائی ہوئی اینٹیں بچھا کر تیار کیا جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں