اپریل کا موسم

برطانیہ میں رمضان کے مقدس مہینے کا چاند آسمان پر طلوع ہوا تو حسن ِاتفاق سے ہر رات مطلع اتنا صاف رہا کہ ہم چاند کی رُوپہلی چمک کو بآسانی دیکھ سکتے تھے۔ آپ نے شاید غور نہ کیا ہوگا مگر نئے چاند کا جو حصہ تاریک ہوتا ہے اُس پر بھی بڑی مدھم روشنی کا دھندلا عکس نظر آتا ہے۔ کم از کم برطانیہ میں نظر آنے والے نئے چاند کی یہ خصوصیت اتنی توجہ طلب ہے کہ سکاٹ لینڈ میں صدیوں قبل یہ ایک لوگ گیت کا موضوع تھا اور وہ لوک گیت آج بھی وہاں ذوق و شوق سے گایا جاتا ہے۔ سائنسی علوم کی ترقی سکاٹ لینڈ کے لوگوں کویہ گیت گانے سے روک نہیں سکی۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ 613 برس پہلے اٹلی کے نابغۂ روزگار فنکار اور کمال کے ذہین شخصLeonardo da Vinci نے اس بارے میں جو رائے دی تھی وہ جدید علم نے بالکل درست ثابت کر دی ہے۔ لیونارڈو نے لکھا تھا کہ سورج کی روشنی زمین سے ٹکرا کر پھر چاند کا رُخ کرتی ہے جہاں یہ ہمیں ایک دھندلے عکس کی صورت نظر آتی ہے۔ زمین پر پھیلے ہوئے سمندروں کی سطح پر پہاڑوں پر خصوصاً قطب شمالی اور قطب جنوبی میں جمعی ہوئی برف اس روشنی کو منعطف کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
یہ سطور 17 اپریل کو لکھی گئی ہیں اور یہ دن برطانوی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ 275 سال پہلے اس تاریخ کو Culloden کی جنگ لڑی گئی تھی جس نے برطانوی تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ Jacobites (جلا وطن کر دیئے جانے والے بادشاہوں کے طرفدار اور اُن کی بحالی کیلئے جنگ وجدل کرنے والے) کی آخری کوشش بھی ناکام ہوگئی اور اس ناکامی میں موسم کی خرابی کا بڑا ہاتھ تھا۔ برطانیہ میں اپریل کے مہینے کی ویسے بھی شہرت زیادہ اچھی نہیں۔ شروع ہوتا ہے اتنے معتدل درجہ حرارت سے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بہار آگئی۔ درختوں پر سبز پتے نمودار ہونے لگتے ہیں‘ کلیاں پھول بن جانے کیلئے اپنی بند آنکھیں کھولتی ہیں مگر اگلے ہفتے لوگ صبح جاگتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ چاروں طرف تازہ گری ہوئی برف کے ڈھیر لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ چند دنوں کے بعد بارش برف کو بہا کر لے جاتی ہے۔ نیلا آسمان‘ چمکتا ہوا سورج اور خوشگوار ہوا۔ بمشکل ایک ہفتہ یوں گزرتا ہے تو پھر برفانی ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہم نے پھر سویٹر‘کوٹ اور مفلر پہن لئے۔ نہ جانتے ہوئے کہ یہ اگلے ہفتہ پھر اُتارنا پڑیں گے۔ اس اچھے اور خراب موسم میں اس آنکھ مچولی میں سارا ماہ اپریل گزر جاتا ہے۔ اہل برطانیہ اس صورتحال سے کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ اس کا ذکر نہیں کرتے۔ شکایت تو دور کی بات ہے۔ 275 سال پہلے Jacobite کو وسط اپریل میں موسم کی متلون مزاجی بہت مہنگی پڑی۔ باغی فوج کی قیادت کرنے والے کا نام Charces Edward Stualt تھا‘ وہ 1745ء میں بحری جہاز میں سفر کر کے سکاٹ لینڈ لنگر انداز ہوا جہاں سے وہ انگلستان پر حملہ کر کے جنوبی Derby تک لڑتا لڑتا جا پہنچا۔ یہاں پہنچ کر اُسے پتا چل گیا کہ اُسے عوامی حمایت حاصل نہیں۔ اُسے پسپائی میں اپنی عافیت نظر آئی اور وہ خاموشی سے واپس سکاٹ لینڈ چلا گیا۔ اُس نے جنگی تیاری کی اور 1746ء میں پھر میدانِ جنگ میں اُترا۔ سرکاری فوجوں کا سپہ سالارDuke of Cumber Landتھا۔ اُس نے اپنی فوج کا پڑائوNairnنامی بستی کے مضافات میں ڈالا۔ پندرہ اپریل کی شام کو Jacobiteفوج حرکت میں آئی۔ اُس نے پلان یہ بنایا تھا کہ وہ ساری رات مارچ کرے گی اور صبح سویرے سرکاری فوج کو اُس کی بے خبری کے عالم میں نشانہ بنائے گی۔ بدقسمتی سے گہرے بادل چاندنی پر غالب آگئے اور حملہ آور فوج راستہ بھی بھول گئی۔ سردی اور کیچڑ سے اس کا آگے بڑھنا اتنا مشکل ہو گیا کہ وہ پسپا ہو جانے پر مجبور ہو گئی۔ اگلی صبح سردی پہلے سے بھی زیادہ تھی۔ زمستانی ہوا چل رہی تھی جس میں برفانی ذرات بھی شامل تھے۔ باغی فوج نے نیند اور تھکاوٹ سے بوجھل آنکھیں کھولیں تو اُس نے ایک خوفناک منظر دیکھا۔ سرکاری فوج اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ باغی فوج نے حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کیلئے صفیں درست کیں۔ دلدلی زمین۔ تیز برفانی بارش اور طوفانی ہوا کے تھپیڑے اس کیلئے اپنے پائوں پر کھڑا ہونا بھی مشکل بنا رہے تھے۔ سرکاری فوج نے آگے بڑھنے کی بجائے اپنی توپوں کے منہ کھول دیے اور بھاری گولہ باری شروع کر دی۔ باغی فوج نہ کھڑی رہ سکتی تھی اور نہ آگے بڑھ سکتی تھی۔ بہ امرِ مجبوری یہ گولوں کی بارش میں آگے بڑھتے بڑھتے سرکاری فوج کے اتنے قریب پہنچ گئی کہ وہاں hand to hand جنگ ہوئی جس میں ایک گھنٹے کے اندر باغی فوج نے بُری طرح شکست کھائی اور اس طرح نصف صدی پر پھیلی ہوئی Jacobite بغاوت دم توڑ گئی۔
وسط اپریل میں کالم نگار سیر کیلئے گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ سرد ہوا چمکیلی دھوپ پر غالب آچکی ہے۔ مصلحت اس میں تھی کہ پسپائی اختیار کی جائے‘ اپنے مطالعہ کے کمرہ میں پناہ لی اور ریکارڈ کی طرف رجوع کیا ‘ 19 اپریل 1908ء کو موسم نے جس طرح اچانک تیور بدلے وہ وسط اپریل 2021ء سے بھی زیادہ ڈرامائی اور نتائج کے اعتبار سے زیادہ غیر خوشگوار تھے۔ اُس دن برطانوی کرکٹ کی تاریخ میں سب سے بڑے کھلاڑی کا نام W.G. Graceجنوبی لندن کی مشہور عالم کرکٹ گرائونڈ Ovalمیں زندگی کا آخری میچ کھیل رہے تھے۔ اس وقت اُن کی عمر 60 برس تھی۔ وہ جس ٹیم کے کھلاڑی تھے اُس کا نام Gentlemen of Englandتھا۔ مخالف ٹیم Surreyکی کائونٹی کی تھی۔ صبح کے وقت جب دونوں ٹیمیں گرائونڈ میں اُتریں تو وہ برف سے ڈھکی ہوئی تھی پھر بھی میچ وقت پر شروع ہوا۔ سخت سردی کے باوجود میچ تین دن کھیلا گیا جس میں لازوال شہرت کے مالک Grace نے پہلی اننگ میں 15 اور دوسری اننگ میں 25 رن سکور کیے۔ انگلستان پر اصل عذاب کرکٹ میچ کے بعد نازل ہوا ۔ کئی کئی فٹ برف گری۔ تند و تیز طوفان چلے۔ بجلی کے تار ٹوٹ گئے۔ آمد و رفت مکمل معطل ہو گئی۔ ٹرینیں رُک گئیں۔ جڑ سے اُکھڑے ہوئے درختوں نے سڑکیں بند کر دیں۔ جونہی ماہ اپریل ختم ہوا۔ موسم بدل گیا۔ مئی کا مطلب تھا موسم بہار۔ صرف دو ہفتے قبل موسم کی بدترین خرابی قصۂ پارینہ بن گئی اور زندگی پھر رواں دواں ہوئی۔
جنگوں کی تاریخ میں جغرافیہ کا کردار کلیدی رہا ہے۔ کالم ختم ہونے کو ہے اور جگہ کم۔ صرف اپنی تاریخ کے دو واقعات بتانے پر اکتفا کیا جائے گا۔ 65ء کی پاک بھارت جنگ میں لاہور کے دفاع میں ایک نہر (BRB) نے بھارتی جارحانہ حملے کو ناکام بنا دیا تھا جبکہ 71ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان کے دفاع کے ذمہ دار جرنیل کو یقین تھا کہ دریائوں اور ندیوں کی بہتات بھارتی فوج کو ٹینک استعمال کرنے کی اجازت نہ دے گا۔ یہ سراسر غلط مفروضہ تھا۔ جب ڈھاکہ میں قلعہ بند جرنیل کو اطلاع دی گئی کہ بھارتی فوج پیش قدمی کر رہی ہے تو جواباً یہ آواز آئی کہ آپ جانتے ہیں کہ دلدلی زمین پر ٹینک ایک انچ بھی نہیں چل سکتے‘ آپ نے جو دیکھا وہ ٹینک ہو ہی نہیں سکتے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں