Serfs…(2)

صدیاں گزر گئیں مگر روس میں بیگاری کاشتکاروں کے شب و روز نہ بدلے۔ غالباًدنیا بھر میں کسی اور جگہ (ماسوائے ہندوستان کے) اتنے زیادہ انسان اتنے عرصے سے اتنی ذلت اورمشقت سے زندگی کا بوجھ اٹھائے اس انتظار میں ساری زندگی بسر کر دیتے تھے کہ کب موت اُنہیں اس عذاب سے نجات دلائے گی۔ کتنی شرم اور حد درجہ افسوس کی بات ہے کہ روس کے ہزاروں پادری (مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہوئے) خاموش رہے۔ صرف گونگے نہیں بلکہ بہرے اور اندھے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب روس میں انقلاب آیا تو ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ایک بلند آواز گونجی۔
پیرانِ کلیسا کو کلیسا کو اُٹھا دو
یہ محض آوازِ خلق نہ تھی بلکہ بقولِ اقبالؔ‘ فرمانِ خدا بھی تھا۔ تاریخ کی کتابوں کے صفحات اُلٹتا جب میں 1790 ء تک پہنچا تو اندھیرے میں ایک چراغ جلتا ہوا نظر آیا۔ صرف ایک چراغ‘ Alexander Raditchefe۔نہ معلوم یہ فرشتہ کون تھا؟ 232 سال گزر گئے مگر وہ ابھی تک گوشۂ گمنامی میں چھپا ہوا ہے۔ موصوف نے کلمۂ حق کہا اور وہ یہ تھا کہ بیگاری کاشتکاروں (Serfs) کے ہاتھوں کی ہتھکڑیاں اور پائوں کی بیڑیاں توڑ کر اُنہیں آزاد کیا جائے۔ وہ آزاد ہوں گے تو اُن کی معاشی اور سماجی حالت بھی سنورے گی۔ ان کی بہتری سے سارے روس کو فائدہ پہنچے گا۔ ہر مصلح کی آواز کی طرح یہ بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ عوام دشمن استحصالی نظام وعظ و تلقین سے ختم ہو جاتے تو نہ روس میں انقلاب آتا نہ چین میں نہ ویت نام میں نہ ایران اور نہ کیوبا میں۔ یہاں اقبالؔ کا حوالہ دینا پھر ضروری ہو گیا۔
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
برطانوی اخبار The Timesاچھی اور معیاری کتابیں بھی شائع کرتا ہے جن میں عالمی تاریخ بھی شامل ہے۔اسی ادارے سے چھپی ہوئی ایک کتاب کے مطابق روس کے بادشاہ (جو زار کہلاتا تھا) Peter the Greatکو ماسکو شہر سے اتنی سخت نفرت تھی کہ اُس نے ایک نیا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ شہر کا نام ST. Petersburgرکھا گیا۔ شہر تو واقعی کمال کا بنا۔ شان و شوکت اور حسن و جمال دونوں کا شاہکار۔ روس کے آمر مطلق نے اپنے خواب کی عملی تعبیر تو دنیا کو دکھا دی مگر اُس نے لاکھوں مزدوروں کو بیگار میں پکڑ کر اُن سے اتنے برُے حالات میں اتنی مشقت کرائی (ہر ہفتہ میں سات دن اور ہر روز 14 گھنٹے) کہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بیگاری مزدور ہلاک ہو گئے۔
ولندیزی حکومت کا بھلا ہو کہ وہ مارچ2007 ء اور پھر یکم اپریل 2010 ء کو دو ایسے منصوبوں کی مالی سرپرستی کر کے اُنہیں معرض وجود میں لا کر متحرک اور فعال بنانے میں کامیاب رہی جن کا مقصد پاکستان میں بیگار کی مشقت کی قید سے لاکھوں افراد کو رہا کرانا تھا۔توقیر شاہ صاحب کو ان کی انتظامی سربراہی کی ذمہ داری سونپی گئی جو اُنہوں نے خوش اُسلوبی سے سنبھالی۔ 30برس پہلے تک حکومت پاکستان نے کوئی ایسی قانون سازی نہ کی تھی جس کا مقصداقوام متحدہ کے ذیلی دارہ ILO کی سفارشات کو عملی طور پر نافذ کرنا ہوتا۔ جبری مشقت کا قانوناً خاتمہ (اور جبری مشقت کے نظام کو غیر قانونی قرار دینے) کا پہلا قانون 1992ء میں اور کم عمر بچوں سے جبراً محنت مشقت کرانے پر قانونی پابندی عائد کرنے کا قانون 1993 ء میں منظور اور نافذ کیا گیا۔ 1950 ء میں دستور ساز اسمبلی نے قرار داد پاکستان متفقہ طور پر منظور کی اور اسے ہمارے عبوری آئین (جو 1935 ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا چربہ تھا) کا حصہ بنا دیا مگر آئین بنانے والوں کو نہ پاکستان میں جبری مشقت کرنے والے یا غلامانہ زندگی بسر کرنی والے یا اپنے آپ کو گروی رکھ کر کھیت مزدور بن جانے والے لاکھوںافراد نظر آئے اور نہ سندھ میں ہاری اور نہ بھٹہ مزدور اور نہ خرکاروں کے اَن گنت کیمپ اور ان خرکاروں کو جبری مشقت کیلئے مطلوبہ افرادی قوت مہیا کرنے کیلئے ہر سال اغوا ہونے والے سینکڑوں بچے۔ سیاسی جماعتوں کا تو کیا ذکر کریں کہ اُن کی آنکھوں پر حصولِ اقتدار یا تحفظ ِاقتدار کے مفاد کی اتنی دبیز تہوں والی پٹی بندھی ہوتی ہے کہ اُنہیں کوئی سماجی برائی نظر نہیں آتی یا نہیں آسکتی مگر مذہبی جماعتوں کا فریضہ کیا ہے؟ یہ ہے ہماری اصل بدقسمتی اور بنیادی المیہ‘ آپ ہمارے معاشرے کے جسم کو دیکھیں تو کیا نظر آتا ہے؟ جہالت‘ توہم پرستی‘ عقل دشمنی‘ عدم مساوات‘ انصاف کا فقدان۔ آئینِ نو سے خوف‘طرزِ کہن پر یقین‘ محنت کش سے نفرت اپنی مادری زبان اور ہزاروں سال پرانی ثقافت سے بیگانگی‘ ہر کمزورسے زیادتی‘ہر طاقتور کا احترام‘ عورتوں اور بچوں اور اقلیتوں سے امتیازی سلوک‘ ذات پات کے بے حد فرسودہ نظام پر کامل تیقن‘ مالِ مفت کیلئے دلِ بے رحم کا مظاہرہ‘ قاضی بن جائیں تو مفت کی شراب بھی حلال۔ جبری مشقت اور بیگار جتنی بڑی لعنتوں سے پہلے انکار اور اگر انکار ممکن نہ رہے تو پھر چشم پوشی۔ انسانی احترام کے تقاضوں کو پامال کرنے والے تمام رسم و رواج سے بھرپور وابستگی‘ عورتوں اور محنت کشوں کے جائز حقوق کو پائوں تلے روندنے کیلئے مذہب کی ناقابلِ قبول رجعت پسند انہ تشریح۔ماضی کے مزاروں اور ان کے مجاوروں سے بے پناہ عقیدت کے جواز کی فراہمی‘ یہ ہے وہ بڑی تقدیر جسے ہم دکھ بھری آنکھوں سے دیکھیں تو ہمیں اُس المناک تصویر کا ایک حصہ یعنی جبری مشقت کی چکی میں پسنے والے لاکھوں افراد نظر آتے ہیں۔
تین برس قبل تحقیق کے ایک عالمی ادارہ نے Global Slavery Indexشائع کیا تو ہمیں پتا چلا کہ پاکستان میں غلاموں کی تعداد 31 لاکھ 86ہزار ہے، یعنی 32لاکھ کے قریب۔ مجال ہے کہ اس انکشاف کے بعد بھی اس پر اضطراب اور تشویش کے کوئی آثار پیدا ہوئے ہوں۔ کچھ عجب نہیں کہ ہمارے ملک میں ایسی کج فہم لوگ بھی ہوں جو یہ سمجھتے ہوں کہ اگر خدا کے حکم کے بغیر پتہ نہیں ہل سکتا تو پھر جبری مشقت کو بھی مشیت ایزدی کی تائید حاصل ہوگی۔ ایک اور جائزے کے مطابق غلامانہ نظام ِمعیشت میں گرفتار افراد کو تعداد کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے پہلے تین ملکوں میں شامل ہے۔ کالم نگار کا فرض بنتا ہے کہ وہ Lums میں پڑھانے والے ماہرین بشریات ایاز قریشی اور علی خان اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کا شکریہ ادا کرے کہ انہوں نے ماضی قریب میں پاکستان میں جبری مشقت کے موضوع پر کمال کی کتاب لکھی اور شائع کی جو دنیا بھر میں تقسیم ہوئی اور قابل صد تعریف تسلیم کی گئی۔
آیئے! ہم اپنے گریبان میں جھانکیں اور اپنی پاکیٔ داماں کی حکایت اتنی نہ بڑھائیں کہ جھوٹ سچ پر غالب آجائے۔ہم نے افسانوی شہرت کے مالک اعلیٰ سرکاری افسر صرف دو دیکھے۔ دونوں سابق ICS (انڈین سول سروس کے رکن) اور دونوں مرحوم۔ ایک تھے اختر حمید خان اور دوسرے جناب ایم مسعود (جو کھدر پوش کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں) موخر الذکر نے سندھ کے لاکھوں ہاریوں کی حالتِ زار کی بہتری کیلئے جو ہاری رپورٹ لکھی وہ ہماری تاریخ کا درخشندہ باب ہے۔ آج بھی سندھ کے ہاری اُسی معنی میں غلام ہیں جس طرح یورپ کے Serf بھٹہ مزدور آج بھی ہزاروں کی تعداد میں بھٹہ مالکان کے غلام ہیں۔ نہ سیاسی جماعتوں کو اسلامی جمہوریہ میں لاکھوں غلام اور بیگاری بھٹہ مزدور اور ہاری کاشتکار نظر آتے ہیں اور نہ مذہبی جماعتوں کو۔ان دنوں لاکھوں بچے تو شاید بھوک کے مارے رات کو نہ سو سکتے ہوں مگر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وطن ِعزیز میں ہمارے رہنمائوں کا ضمیر بھی گہری نیند سویا پڑا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں