بسم اللہ کرتے ہیں حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مبارک ذکر سے جن کو مدینہ منورہ میں رسول پاکﷺ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ جب تک مسجد نبوی اور اُس سے ملحقہ رہائش گاہ تعمیر نہ ہوئی آنحضرتﷺ اُن کے گھر مقیم رہے۔ تاریخ کی کسی کتاب میں نہ بھی لکھا ہو‘ ہمارے لئے یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ حضرت ابو ایوب ؓ اُس اونٹی کی کتنی خاطر مدارت کرتے ہوں گے جو اپنی پیٹھ پر اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کو سوار کر کے اور سینکڑوں میلوں کا سفر کر کے مدینہ منورہ میں داخل ہوئی تو اُن کے گھر کے سامنے بیٹھ گئی۔ مدینہ کے تمام لوگ جنہوں نے اسلام قبول کر لیا اور مہاجرین کیلئے اپنی آنکھیں بچھا دیں انصار (یعنی مددگار) کہلائے مگر ان سب میں ممتاز ترین مقام حضرت ابو ایوب ؓ کا ہے۔ انصاری ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ پیدائشی نام خالد بن زید بن کلب رکھا گیا۔ ان کے قبیلہ کا نام بنو فجار تھا۔ بڑے ہوئے تو ابو ایوب کہلائے۔ اناطولیہ کے شہر قسطنطنیہ پر حملے کے دوران 674 ء میں شہید ہوئے۔ ان کے قبر اُس شہر کی فصیل کے باہر بنائی گئی۔ صدیوں بعد سلطنت عثمانیہ اُس شہر پر قابض ہوئی تو یہ قبر ڈھونڈ لی گئی۔ مبارک قبر پر اُن کا مبارک نام عبرانی زبان میں لکھا ہوا ہے۔ استنبول میں اُن کی قبر کے اردگرد بنائی گئی ساری آبادی کا نام ایوب سلطان ہے۔ مزار شریف کے تعمیراتی حسن کا تعلق دیکھنے سے ہے۔ کالم نگار اتنی بار استنبول گیا مگر بدقسمتی سے اس مزار پر فاتحہ خوانی کرنے اور ملحقہ مسجد میں نوافل پڑھنے کی سعادت حاصل نہ کر سکا۔ ارادہ ہے کہ اگلے سال استنبول صرف اس مقصد کیلئے جائوں کہ بوڑھے دل پر گہرے افسوس کی پڑی ہوئی بھاری سِل اُتار سکوں۔
ساتویں صدی کے بعد اگلے دو انصاریوں کا تاریخ میں ذکر آتے آتے تیرہ صدیاں گزر گئیں۔ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں ہندوستان میں سب سے زیادہ تلاطم خیز تحریک‘ تحریکِ خلافت تھی۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے زبردست جلسے کئے اور جلوس نکالے اور سلطنت ِعثمانیہ کے آخری خلیفہ کی حمایت میں اتنے بلند نعرے لگائے جنہیں ہمارے اخبارات فلک شگاف کہتے ہیں۔ اس تحریک کی قیادت علی برادران (محمد علی اور شوکت علی نے کی) اور گاندھی جی (ابھی وہ مہاتما نہ کہلاتے تھے) نے کی۔ گاندھی جی کو ہندوستان میں متعارف کرانے اور بڑا رہنما بنانے میں تحریک خلافت کا کلیدی کردار تھا۔ جلسے جلوس اپنی جگہ کتنے دلچسپ کیوں نہ ہوں‘ ٹھوس کام ہندوستانی مسلمان ڈاکٹروں کے وفد نے کیا جس کے قائد ڈاکٹر ایم اے (مختار احمد) انصاری تھے۔ یہ وفد ترکی میں ایک سال (1912-13ء)رہا۔ یہ جنگ بلقان کا زمانہ تھا۔ ڈاکٹر انصاری نے نہ صرف ترک فوج کے زخمی ہو جانے والوں کی مرہم پٹی کی بلکہ ہر ہفتہ مولانا محمد علی جوہر کو خط لکھ کر اپنے کام کی رپورٹ بھی بھیجی جو محمد علی کے شہرہ آفاق ہفت روزہ کامریڈ میں شائع ہو کر ان کی شہرت کا باعث بنی۔ 2014 ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے ڈاکٹر انصاری اور اُن کے میڈیکل مشن پر ایک اچھی کتاب شائع کی‘ جس کا عنوان ہے: People's Mission to the Ottoman Empire مصنف Burak Akçapar ہیں۔ میں نے ابھی یہ کتاب نہیں پڑھی مگر اس پر لکھے گئے تعارفی اور تعریفی تبصرے پڑھے میں جن سے ڈاکٹر انصاری اور اُن کے ساتھی ڈاکٹروں کے قابلِ صد تعریف کارنامہ کا بخوبی علم ہو جاتا ہے۔جب ہم نے سرسید احمد خان سے علی برادران اور حسرت موہانی سے لے کر کالا پانی (انڈیمان) میں ناقابلِ بیان اذیت برداشت کرنے والوں کو بھلا دیا تو ڈاکٹر انصاری کو کیوں یاد رکھیں؟ وہ سب گرد آلود طاق نسیان پر پڑے ہیں تو پڑے رہیں۔ میں یہ لکھے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا کہ مقام حیرت ہے کہ تیرہ صدیوں کے بعد ہندوستان میں کسی شخص کے نام کے ساتھ انصاری بطور Surname کا اضافہ کس طرح ہوا؟
لگتا ہے کہ اُترپردیش (برطانوی راج کے دوران U.P یعنی صوبہ جات متحدہ)کے متوسط طبقے کے جو تعلیم یافتہ گھرانے صدیقی‘ رضوی یا جعفری نہ بنے (یا نہ بن سکے) وہ انصاری بن گئے۔ بہرحال یہ ایک فروعی مسئلہ ہے۔ ہم اس سوالیہ نشان کو اپنی جگہ چھوڑ کر ڈاکٹر انصاری کے تعارف کی طرف چلتے ہیں۔ وہ کالم نگار کی طرح دیہاتی تھے اور مشرقی اُترپردیش کے گائوں یوسف پور میں 1880ء میں پیدا ہوئے۔ اپنے گائوں کے قریبی شہر غازی پور میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور سکاٹ لینڈ میں نو برس (1901-10ء ) طب کی تعلیم حاصل کی۔ وہ پہلے ہندوستانی ڈاکٹر تھے جو لندن کے چیئرنگ کراس ہسپتال میں میڈیکل افسر بنے۔ اس ملازمت کے دوران ہندوستان سے لندن آنے والے جن سیاست دانوں کو ملے اور اُن کے دوست بن گئے ان میں موتی لال نہرو‘ حکیم اجمل خان اور جواہر لال نہرو تھے۔
ہندوستان واپس جا کر ڈاکٹر صاحب نے دہلی میں اپنا مطب بنایا اور اپنے سیکولر قوم پرست نظریہ کے مطابق نیشنل کانگریس میں شامل ہو کر کئی ذمہ داریاں نبھائیں۔ وہ مسلمانوں کے مسائل میں گہری دلچسپی کے باوجود فرقہ وارانہ ذہن نہ رکھتے تھے۔ شروع میں علی برادران کے پرُ جوش حامی تھے مگر بعد ازاں وہ ان سے ناراض ہو گئے۔ وجہ اختلاف نہرو رپورٹ بنی۔ ڈاکٹر انصاری اس کے حامی تھے اور علی برادران اس کے سخت مخالف۔وہ دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیان میں شامل تھے۔ 1928-34 ء تک‘ اس یونیورسٹی کے چانسلر رہے۔ 1919ء میں (کانگریس کے صدر رہنے کے دو سال بعد) اُنہوں نے ایک سیاسی جماعت بنائی جس کا نام تھا: All India Nationalist Muslim Party۔ یہ کوئی قابلِ ذکر کام کئے بغیر صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ اُن کا تعلق مسلم سیاست دانوں کی اُس نسل سے تھا جو ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھتی تھی جس میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ پرُ امن بقائے باہم‘ دوستی‘ خیر سگالی اور یگانگت کے ساتھ رہیں۔
کالم نگار کا فرض ہے کہ اُس نے چھان بین کر کے جس تیسرے انصاری کا پتا چلایا ہے‘ آپ کا اُن سے بھی تعارف کرایا جائے۔ اپنے دو مذکورہ بالا ہم ناموں کے برعکس ظفر احمد انصاری ہر گز بلند معیار کے نہیں کہلائے جا سکے۔ اُن کی تاریخ پیدائش‘ تاریخ وفات اور تعلیمی کوائف کا بھی پتا نہیں چل سکا۔ یہ بھی ایک معمہ ہے کہ وہ پاکستان کب آئے اورجنرل ضیا الحق کی نگاۂ انتخاب پڑنے سے پہلے کیا کرتے تھے؟ قیام پاکستان سے پہلے وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے آفس سیکرٹری رہے۔ یہ بھی پتا نہیں چل سکا کہ اُنہوں نے یہ ذمہ داری کتنے سال ادا کی اور وہ مولانا کب اور کیوں کہلائے۔ 1981 ء میں جنرل ضیا الحق نے اسلامی نظریات کی مشاورتی کونسل کو ہدایت کی کہ وہ ایک ایسے آئینی بندوبست کو وضع کرے جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو‘ اس مقصد کیلئے ایک کمیشن بنایا اور (مولانا) ظفر احمد انصاری کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔ ذرا سوچئے گا کہ ایک ایسے شخص کو اس کمیشن کی سربراہی سونپی گئی جس نے کبھی کوئی کتاب نہ لکھی اور نہ تحقیقی مقالہ۔ اگر کالم نگار نے انصاری کمیشن کی رپورٹ نہیں پڑھی تو وہ قابلِ معافی ہے۔
کالم خاتمہ کے قریب پہنچا تو کالم نگار کو دو باتیں یاد آئیں۔ پہلی کا تعلق غالباً ایک سینئر فوجی افسر سے ہے جن کا نام جنرل انصاری تھا۔ دوسری بات ایک فرد کے بارے میں نہیں بلکہ ایک برادری کے متعلق ہے جو انصاری کہلاتی ہے۔ یہ لوگ مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آئے تو پاکستان میں بڑی تعداد میں آباد ہوئے اور اپنی تعداد کی وجہ سے سیاسی وزن رکھتے ہیں۔ کالم ہر اُس شخص کیلئے نیک خواہشات پر ختم کیا جاتا ہے جو انصاری کہلائے۔