دو گمشدہ تاریخی کردار

شروع کرتے ہیں میاں افتخار الدین سے۔ لاہور (باغبان پورہ) کے خوشحال ارائیں گھرانے میں 1907 ء میں پیدا ہوئے اور صرف 55 برس عمر پائی۔1958 ء میں پہلا مارشل لاء لگا۔ جنرل ایوب خاں کی حکومت نے جو بدترین فیصلے کئے اُن میں سرفہرست تو 1965 ء کے شروع میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں دھن‘ دھونس اور دھاندلی کے ذریعہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بنیادی جمہوریتوں کے 80 ہزار اراکین کے حلقہ انتخاب میں شکست دلوانا تھا۔ دوسرے نمبر پرپریس کا گلا گھونٹنے کی قابلِ مذمت سرکاری پالیسی کو بجا طور پر لکھ سکتے ہیں۔ پروگریسو پیپرزکے اشاعتی ادارے کے زیر اہتمام پاکستان ٹائمز‘ روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار شائع ہوتے تھے۔ ان کا نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی بڑا محترم درجہ تھا۔ یہ ادارہ میاں افتخار الدین نے گجرات کے سید امیر حسین شاہ کے ساتھ مل کر قائم کیا تھا۔ میاں صاحب کے اپنے بیٹے دو تھے: عارف اور سہیل (اُن دونوں نے بھی زندگی کی صرف پچاس کے قریب بہاریں دیکھیں اور راہیِ ٔملکِ عدم ہوئے) مگر وہ اپنے بچوں کی تعداد تین بتاتے تھے چونکہ وہ مذکورہ بالا اشاعتی ادارے کو اپنی اولاد میں شمار کرتے تھے۔ جنرل ایوب کی حکومت کو اس ادارے کی آزادی‘محب الوطن تنقید اور پاکستان کی مغربی بلاک (امریکہ اور برطانیہ) کی حاشیہ برادری اور غلامی کی مخالفت برُی طرح کھٹکتی تھی؛چنانچہ ایک آرڈیننس جاری کر کے اس ادارے پر شب خون مارا گیا اور قبضہ کر لیا گیا۔ میاں صاحب کا حساس دل اس صدمے کی تاب نہ لا سکا اور اُس نے 1962 ء میں دھڑکنا بند کر دیا۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے اُفق پر پہلے 13 سال میں سامراج دشمنی‘ ترقی پسندی اور عوام دوستی کی جو روشنی رہی وہ مذکورہ بالا دو اخباروں اور ایک جریدے جیسے چراغوں کی وجہ سے تھی۔'' پاکستان ٹائمز‘‘ کے مدیر کون تھے؟ فیض احمد فیض۔ ''امروز‘‘ کے احمد ندیم قاسمی۔ ''لیل و نہار‘‘ کے سبطِ حسن۔
اُنہوں نے اپنی سیاسی زندگی کانگریس سے شروع کی۔ وہ متحدہ پنجاب میں کانگریس کے صدر تھے۔ پھر مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ مسلم لیگ سے 1951 ء میں نکالے گئے تو اُنہوں نے آزاد پاکستان پارٹی بنائی۔ میاں صاحب تعلیم‘سیاسی سوجھ بوجھ‘سیاسی تجربہ‘ عوام سے ذہنی قربت‘ سیاسی قد کاٹھ یعنی ہر لحاظ سے حسین شہید سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو کے ہم پلہ تھے مگر وہ ان دونوں کے مقابلے میں زیادہ روشن خیال اور عوام دوست تھے۔ وہ اپنے اشتراکی نظریات کا زندگی کے آخری سانس تک پرچار کرتے رہے۔ میاں صاحب نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ وہ 1936 ء میں انڈین نیشنل کانفرنس میں اُس وقت شامل ہوئے جب محمد علی جناح ؒ اسے چھوڑ چکے تھے۔ میاں صاحب 1945 ء میں کانگریس چھو ڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ 1937 ء میں کانگریس کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن بنے۔ میاں صاحب کو تحریک آزادی میں حصہ لینے کے جرم میں دوبار جیل بھیجا گیا‘ پہلے 1940 ء میں اور پھر 1942 ء سے لے کر 1945 ء تک۔1946 ء میں وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے دوبارہ رکن بنے۔1957 ء میں نیشنل عوامی پارٹی بنی تو میاں صاحب نے اپنی آزاد پاکستان پارٹی اس میں ضم کر دی۔ پنڈت جواہر لال نہرو سے لے کر شیخ مجیب الرحمن تک جتنے بھی بڑے سیاسی رہنما لاہور آئے تو میاں صاحب کے گھر ٹھہرے۔ کالم نگار چھ ہزار میل کے فاصلہ سے اپنے پیارے وطن کی طرف دیکھتا ہے تو اُسے اُفق پر اُمید کی جو روشن کرنیں نظر آتی ہیں۔ وہ ہیں ڈاکٹر امجد ثاقب‘ تحریک اُخوت‘ کسانوں اور مزارعین کی تنظیمیں‘ لیڈی ہیلتھ ورکرز‘ اساتذہ کی تنظیمیں‘ عوام میں بے گھر افراد کے مددگار۔ممکن ہے کہ فصلِ خزاں میں ٹوٹ جانے والی ڈالی سحابِ بہار سے پھر ہر بھری ہو جائے۔ یہ ہے وہ خواب جو ہم نے اقبال کی آنکھوں سے دیکھے ہیں اور ابھی تک دیکھ رہے ہیں۔
دوسری تاریخی شخصیت (پہلی کے مقابلہ میں) زیادہ گمنام اور گم شدہ ہے۔ ان کا نام ہے دانیال لطیفی۔ وہ اپنے وقت کے سب سے نامور اور عالمی شہرت کے وکیل میاں محمود علی قصوری کے اتنے اچھے اور قریبی دوست تھے کہ میاں صاحب نے اپنے ایک بیٹے (خورشید کے بھائی) کا یہی نام رکھا۔ دانیال کی ذاتی خوبیوں کا ذکر بعد میں آئے گا۔ پہلے آپ کا اُن کے عالی نسب خاندان سے تعارف کراتے ہیں۔ اُن کے والدانڈین سول سروس کے پہلے رکن تھے جو پنجاب کے فنانس کمشنر کے بڑے عہدے تک پہنچے اور مختصر عرصہ کیلئے پنجاب کے قائم مقام گورنر بھی رہے۔ بدر الدین طیب جی (جو انڈین نیشنل کانگریس کے ابتدائی دنوں میں اس کے صدر رہے) اُن کے نانا تھے۔ وہ حاتم طیب جی کے بھتیجے تھے جو پہلے مسلمان تھے جنہیں 1938 ء میں سندھ چیف (ہائی) کورٹ کا جج بنایا گیا۔ دانیال برطانیہ کے چوٹی کے پرائیویٹ (جنہیں انگریز پبلک کہتے ہیں) سکول Ruobyمیں پڑھے۔ دانیال نے یونیورسٹی تعلیم کیمبرج میں حاصل کی‘ پھر وہ بیرسٹر بنے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ برطانیہ میں یونیورسٹی تعلیم کے دوران دانیال کا ذہن اشتراکیت کی طرف مڑ گیا۔ دانیال اپنے منہ میں جو چمچہ لے کر پیدا ہوئے تھے اگر وہ محاورے کے مطابق سونے کا نہ تھا تو چاندی کا تو ضرور تھا مگر اس کے باوجود وہ کسانوں‘ مزدوروں کے اتنے پکے حامی بن گئے کہ ساری عمر پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئی۔ دانیال ہندوستان واپس آئے تویہاں چوٹی کے وکیل بن سکتے تھے مگر وہ کمیونسٹ پارٹی کے ہمہ وقتی ملازم بن گئے جہاں انہیں ہر ماہ 30روپے تنخواہ ملتی تھی۔ کمیونسٹ ہونے کے باوجود دانیال اپنے دوستوں (میاں محمود علی قصوری‘ میاں ممتاز محمد دولتانہ‘ عبداللہ ملک اور میاں افتخار الدین) کے ساتھ مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور وہ بھی اس طرح کہ اس کا ہر اول دستہ بن گئے۔ ان ترقی پسند عوام دوستوں نے مسلم لیگ کا منشور لکھا۔ ظاہر ہے کہ وہ اتنا انقلابی تھا کہ مسلم لیگ نے اُسے ہمالیہ کے پہاڑوں کے غاروں یا تھر کے صحرائوں میں اس طرح گم کر دیا کہ آج تک چشم فلک نے اُس کی ایک جھلک نہیں دیکھی۔
دانیال2000ء میں بمبئی میں فوت ہو گئے۔ یہ بات صرف میاں محمود علی قصوری کے بیٹے جانتے ہوں گے کہ اُنہوں نے کتنی عمر پائی۔ جب انہوں نے بطور بیرسٹر پریکٹس کی تو یقینا بلند پایہ وکیل ہوں گے۔انہوں نے وکالت کی کمائی سے بڑی مہنگیPaintings خریدیں اور اپنے گھر کی زینت بنائیں۔ دنیا سے جانے لگے تو سب کی سب اپنے دوست کے بیٹے (عمر محمود قصوری) کو بطور تحفہ دے دیں۔ (اُمید کی جانی چاہئے کہ عمر صاحب نے ان کو حفاظت سے رکھنے کا حق ادا کیا ہوگا) ایک دن دوپہر کے وقت دانیال میاں افتخار الدین کے گھر گئے اور اُنہیں باتوں باتوں میں بتایا کہ چار بجے دوپہر اُن کے گھر دانیال کا نکاح پڑھایا جائے گا۔ چار بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے کہ ایک خاتون (جو لاہور کے ایک کالج میں پڑھاتی تھیں)میزبان کے گھر کے دروازہ پر سائیکل چلاتی نمودار ہوئیں۔ پتا چلا کہ وہی دلہن ہیں۔ دو گواہوں اور نکاح خواں کا انتظام کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ مولوی صاحب نے دلہن سے قبولیت کی تصدیق کیلئے ایک ضروری سوال تین بار دہرایا تو دلہن نے مولوی صاحب کو وقت ضائع نہ کرنے کا مشورہ دیا چونکہ ساڑھے چار بجے اُنہیں کالج واپس جا کر اپنا اگلا لیکچر دینا تھا۔ بدقسمتی سے وہ لمبی عمر نہ پا سکیں۔ جب دانیال نے دوسری شادی کی تو اس بار کسی معلمہ کے بجائے ایک شہزادی کو چنا۔ اُن کا نام پاکیزہ بیگم ہے جو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے تباہ شدہ گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ سنا ہے کہ وہ اب بھی دہلی میں رہتی ہیں۔ اگر یہ درست ہے اور وہ بدستور زندہ ہیں تو اگلے برس کالم نگار اُنہیں ملے بغیر دہلی سے واپس نہ آئے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں