نو بھولی بسری شخصیات

آپ کے ذہن میں پہلا سوال یہ اُبھرے گا کہ کالم ایک اور شخصیات نو۔ ان کے ساتھ انصاف ہوگا تو کیونکر؟ کالم نگار نے وہ افراد چُنے ہیں جن کے نام کا دوسرا لفظ ''علی‘‘ ہے‘مگر ان میں نہ قائد اعظم محمد علی جناح شامل ہیںنہ لیاقت علی خان اور نہ چوہدری محمد علی۔ان نو شخصیات میں دو باپ بیٹا ہیں‘ دو سگے بھائی اور دو ان کی بیگمات ہیں۔ اب آیئے ہم ان نو جلیل القدر شخصیات سے مل لیں جنہیں آپ غالباً بھول چکے ہوں گے۔
کالم نگار ان کے ناموں اور کارناموں پر پڑی ہوئی دھول کو پھونکیں مار مار کر اُڑائے گا تاکہ آپ کی ان سے تجدیدِ ملاقات کا اہتمام کیا جا سکے۔ آج کی بات کیوں نہ باپ بیٹے سے شروع کریں؟ سید مراتب علی (1882 تا 1961ء) متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے اور اپنی محنت اور قابلیت کی بدولت ایک صدی قبل شمالی ہندوستان میں چوٹی کے مسلمان کاروباری لوگوں میں شامل ہو گئے۔ 1931 ء میں ہندوستان میں برطانوی حکومت نے افغانستان پہلا تجارتی وفد بھیجا تو وہ اُس کے رکن تھے۔ 1935 ء میں ہندوستان کا Reserve Bank of Indiaمعرضِ وجود میں آیا تو اس کے ڈائریکٹر بنائے گئے‘جون 1947 ء تک رہے۔ وہ قائداعظم کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے اور تحریک پاکستان کو دل کھول کر چندہ دینے والوں میں سرفہرست۔ پاکستان کے مرکزی بینک کے بھی وہ عمر بھر ڈائریکٹر رہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی کئی بڑی کمپنیاں اُن کی دعوت پرہمارے معاشی نظام کا ستون بنیں۔ قیام پاکستان کے بعد اُنہوں نے لاہور میں گلاب دیوی ہسپتال کا انتظام سنبھالا اور اُسے بہت بہتر بنایا۔ برطانیہ نے اُنہیں ''سر‘‘ کا خطاب دیا مگر شاہ جی کی انکساری نے اُنہیں یہ اپنے نام کے ساتھ لکھنے کی اجازت نہ دی تھی مگر میں تو یہ جسارت کر سکتا ہوں کہ اُنہیں سر مراتب علی لکھوں۔ اُن کے بڑے بیٹے کا نام سید امجد علی تھا جو 1940 ء کی دہائی میں برطانیہ میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ اُنہیں لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں مسلمان وفد کے سیکرٹری کے فرائض سونپے گئے۔ وہ سر آغا خان کے اعزازی سیکرٹری بھی رہے۔ 1953ء تا 55 ء وہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہے اور 1955 تا 58ء پاکستان کے وزیر خزانہ بنائے گئے۔
اب ہم چلتے ہیں دو بھائیوں اور اُن کی بیگمات کی طرف۔ یہ بھائی علی برادران کے نام سے مشہور تھے۔ ماسوائے بنگال میں بوس برادران کے‘ ہماری تاریخ میں بھائیوں کی کوئی اور جوڑی سیاسی میدان میں اتنی مشہور نہیں ہوئی۔ دونوں بھائی رام پورمیں پیدا ہوئے۔ ابھی دونوں نوعمر تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ نواب آف رامپور نے دونوں بھائیوں کے تعلیمی اخراجات بخوشی ادا کئے۔ اُن کی تعلیم علی گڑھ یونیورسٹی سے شروع ہوئی اور محمد علی کے معاملہ میں آکسفورڈ تک جاری رہی۔ دونوں بھائی تحریر و تقریر کے ماہر تھے۔ لکھتے بہت اچھا تھے اور بولتے اُس سے بھی اچھا۔ ترکی میں سلطنت عثمانیہ کا چراغ ٹمٹانے لگا تو ہندوستانی مسلمانوں میں تحریک خلافت کے نام سے ایک زبردست احتجاجی لہر اُٹھی جس نے سارے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دونوں بھائیوں نے خلافت تحریک کی قیادت کی وجہ سے عالمی شہرت پائی مگر سیاسی تاریخ میں تحریک خلافت سے زیادہ غیر عقلی‘ جذباتی تحریک نہیں چلائی گئی۔ وہ مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگرس دونوں کے باری باری صدر رہے۔ وہ برطانیہ کے چوٹی کے اخباروں کے نامہ نگار بھی تھے اور ایک بڑے معیاری اخبار (ہمدرد) اور ہفت روزہ کامریڈ کے مدیر اور ناشر بھی۔ دونوں بھائیوں نے 1930-31 ء میں لندن میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی۔ بدقسمتی سے دونوں بھائیوں کی سیاسی سرگرمیاںنقش بر آب ثابت ہوئیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کی والدہ (عبادی بانو بیگم) کی طرح ان دونوں کی بیویوں نے بھی (پردہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے) سارے ہندوستان کا دورہ کیا اور خلافت تحریک کی مالی مدد کیلئے اپنے زیورات تک بیچ ڈالے۔
اب ہم آگے بڑھتے ہیں۔ ملک برکت علی (1886ء تا 1946ء) لاہور میں پیدا ہوئے جہاں اُنہوں نے اپنی عملی زندگی انگریزی پڑھانے سے شروع کی۔ اُنہوں نے صوبائی سول سروس کا امتحان دیاتو اول رہے مگر صرف چھ برس کی افسری کے بعد صحافی بن گئے۔ پھر اُنہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور بڑے کامیاب وکیل ثابت ہوئے۔ وہ مسلم لیگ پنجاب کے صف اوّل کے رہنما تھے مگر سارا وقت کانگریس کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے تاکہ دونوں جماعتیں مل کر صوبائی حکومتیں سنبھالیں۔ 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کے جن اُمیدواروں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ان میں ایک وہ تھے اور دوسرے راجہ غضنفر علی خان۔ جب وہ بھاگ کریونینسٹ پارٹی سے جا ملے تو ملک صاحب اکیلے رہ گئے مگر اُنہوں نے مسلم لیگ کی نمائندگی کا حق ادا کر دیا۔ اہلِ لاہور نے ان سے اپنی محبت کا اظہار یوں کیاکہ ایک ہال تعمیر کیا جس کا نام اُن کے نام پر رکھا گیا۔ افسوس کہ اب اس ہال کا حال اچھا نہیں۔ وہ کتنا مبارک دن ہوگا جب لاہور کی تاریخی عمارتوں اور تہذیبی سرمایے کی محافظ کمیٹی ایک بڑے آدمی کی یاد میں بنائے گئے ہال کی نگران بن جائے گی۔ دو تہائی کالم لکھا جا چکا اور کالم نگار کے دل کی وہی حالت ہوئی جو 65/70سال قبل کمرہ امتحان میں ہوتی تھی۔ کبھی میں پوچھے گئے سوالوں کی فہرست دیکھتا تھا اور کبھی لکھے گئے پرچہ کو اور پھر گھڑی کو۔ اب ہم مشرقی پنجاب کے ضلع گورداسپور میں ایک قصبہ بٹالہ چلتے ہیںجو اپنے وقت کے چوٹی کے وکیل میرے مہربان دوست اور قرۃالعین حیدر کے دوست اعجاز حسین بٹالوی کی وجہ سے مشہور ہوا۔جہاں 1902 ء میں متوسط طبقے کے راجپوت گھرانے میں بچہ پیدا ہوا تو نام کفایت علی رکھا گیا۔ وہ بڑا ہوا تو اُس نے اپنے نام کے ساتھ میاں لکھوانا پسند کیا۔ 92 برس عمر پائی۔ وہ تحریک پاکستان کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ اُنہوں نے خاموشی سے سوچنے لکھنے اور پڑھنے کا وہ قابل صد تعریف کام کیا جس میں پنجابی مسلمانوں میں الطاف حسین حالی‘ علامہ اقبال‘ عبید اللہ سندھی اور فیض احمد فیض کے بعد کوئی نام نہیں ملتا۔ میاں کفایت علی نہ علامہ شرقی تھے اور نہ مولانا آزاد مگر وہ نہ صرف پنجابی تھے بلکہ سرکاری افسر بھی تھے۔ کالم ختم ہوگا سید امیر علی پر۔
سعادت علی خان کے پانچ بیٹوں میں سب سے چھوٹے‘ باپ کی سفارش سے کلکتہ کالج میں پڑھے اور ڈگری حاصل کی اور پھر وظیفہ لے کر لندن قانون پڑھنے گئے اور 1873 ء میں بیرسٹر بن کر واپس آئے۔ اُنہوں نے کلکتہ ہائیکورٹ میں پریکٹس شروع کی جو بہت جلد اُنہیں شہرت کے آسمان تک لے گئی۔ 1877ء میں اُنہوں نے سینٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن قائم کی اور اُسے کامیابی سے 25 برس چلایا۔ اگلے برس اُنہیں بنگال کی قانون ساز اسمبلی کا رکن نامزد کیا گیا۔ وہ 1904 ء میں کلکتہ ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے ریٹائرہوئے تو برطانیہ جا بسے جہاں وہ پریوی کونسل کی جوڈیشل کمیٹی کے رکن بنائے گئے۔ اُنہوں نے بہت سی اچھی کتابیں لکھیں مگر اُن میں شاہکار کا نام ہے: The Spirit of Islam۔جس کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ بطور بیرسٹر وہ لندن کی جس Innکے رکن تھے وہاں آج بھی اُن کی بڑی شاندار تصویر آویزاں ہے۔ بڑی بڑی سفید مونچھیں اور سرخ رنگ کا درباری‘ روایتی لباس۔ کالم نگار وہاں ہر سال ایک بار ضرور دوپہر کا کھانا کھانے جاتا ہے تو بار بار سر اُٹھا کر اس کمال کی تصویر کو دیکھتا ہے۔ اُن کی بلند مرتبہ حیثیت پر رشک اور فخر کے ساتھ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں