Man is Born Free

ایک صدی پہلے ایشیا اور افریقہ کا تقریباً ہر ملک یورپی سامراج کا محکوم تھا۔ ہندوستان کے کروڑوں لوگوں نے اُس دور کے سب سے بڑے مفکر کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ ایک طرف ہم بڑے کمزور ہیں دوسری طرف زنجیریں بڑی بھاری ہیں‘ہم ان سے جان چھڑائیں تو کیونکر؟ اقبال نے جواب دیا:
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
1940ء میں پہلی بار ذوقِ یقیں ایک دھندلے خواب کی طرح ہمارے سیاسی اُفق پر اُبھرا اور سات سال بعد انگریز کی غلامی کی زنجیریں کٹ گئیں۔ اب ہم آزادی کے 74 سالوں کی طرف مڑ کر دیکھیں تویہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ غلامی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ حاکم سفید فام ہوں اور محکوم کی جلد کا رنگ سفید نہ ہو۔ اگست1947 ء میں چند ہزار (ممکن ہے چند سو) انگریز افسران نے اپنا پرچم بڑی احتیاط سے لپیٹا‘ بوریا بستر باندھا اور دخانی جہازوں (دو سو سال پہلے جب آئے تھے تو جہاز بادبانی تھے) پر بیٹھ کر اپنے وطن سدھارے۔ انگریز چلے گئے مگر اپنا نظام‘ اپنی زبان‘ اپنی تہذیب‘اپنا ضابطۂ قانون‘ اپنی افسر شاہی‘ اپناحاکمانہ رویہ چھوڑ گئے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں صرف بوتل کے باہر لگا ہوا لیبل تبدیل ہوا ہے بوتل کے اندر وہی پرانا مشروب ہے۔ صدیوں کی غلامی نے (بقول اقبال) صرف ہمارا دل ہی نہیں توڑا‘ اُس نے ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی اتنی بری طرح متاثر کیا کہ ہم قائداعظم کی قیادت میں بنے ہوئے گلشن میں چار سو پھیلے ہوئے خار زاروں کو ختم کرنے کے بجائے دو چار کلیوں پر قناعت کر کے بیٹھ گئے۔ صدیوں قبل فرانسیسی سیاسی مفکر روسو نے کہا تھا کہ آدمی آزاد پیدا ہوا ہے مگر وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہی آج کے کالم کا عنوان ہے۔ یورپی خوش نصیب ہیں کہ علمی میدان میں نشاۃ ثانیہ سے‘ روشن خیالی سے‘ مذہبی رواداری سے‘ جذبۂ بقائے باہمی کے علاوہ انسان دوستی‘ انصاف‘ مساوات اور قانون کی حکمرانی کے چار ستونوں پر ایک کمال کی عمارت بنانے سے بڑی حد تک قرونِ وسطیٰ کے تاریک دور کی بے حد وزنی زنجیریں توڑ ڈالیں۔ یہی تمام یورپی ممالک‘ امریکہ‘ روس‘ چین‘کوریا اور جاپان کی ترقی کا راز ہے۔ ہم اپنے آپ پر ایک نظر ڈالیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں ہم مغرب کے محکوم‘ محتاج اور نقال ہیں۔ ہمارا حکمران طبقہ پہلے دن سے اپنے غرور کا سودا کر چکا ہے۔ ہماری درس گاہیں‘ ہمارا قانونی نظام‘ ہماری سرکاری زبان غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ہم سفال پاک سے مینا و جام پیدا کرنے کے بجائے شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان اُٹھا رہے ہیں۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نے غلامی سے ہر گز نجات نہیں پائی۔ ہم پابندِزنجیر تو نہیں مگر ہم اُس ذہنی غلامی کے شکار ہیںجو جسمانی غلامی سے کہیں زیادہ تباہ کن اور سخت جان ہوتی ہے۔ لوہے کی زنجیروںکو تو دیکھا جا سکتا ہے‘ چھوا جا سکتا ہے مگر ذہنی غلامی؟ یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کہ ہماری غلامی کا دور جنگِ پلاسی میں رابرٹ کلائیو کی فتح سے شروع ہوا۔ انگریزوں سے پہلے ہم مغلوں کے اور ان سے پہلے کئی صدیوں تک دہلی کے سلطانوں کے اور اُن سے پہلے راجوں مہاراجوں کے‘قبائلی سرداروں اور جاگیرداروں کے غلام تھے۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ برصغیر میں گزشتہ پانچ ہزار برس میں پیدا ہونے والا کوئی بھی شخص آزاد پیدا نہیں ہوا۔ غلام پیدا ہونے والوں میں جو ذہنی غلامی کی زنجیریں توڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کی یہی خوبی اُنہیں عظیم اور لازوال بناتی ہے۔ باقی کروڑوں لوگ؟ وہ کانِ نمک میں پیدا ہوتے ہیں اور اُسی کا حصہ بن کر زندہ رہتے ہیں۔
ایک سال سے کم عرصہ رہ گیا ہے جب انگریز سے ہماری آزادی کو 75 برس ہو جائیں گے۔ (انگریزوں کی لغات میں اسے ڈائمنڈ جوبلی کہتے ہیں) ہم 14 اگست 2022 ء کے سنگ میل کا استقبال اس طرح کریں کہ ہم ایک ذہنی اور تہذیبی‘ علمی اور ثقافتی آزادی کا کمیشن بنائیں۔ اس کمیشن کا مقصد یہ ہو کہ وہ ہمیں ہماری غلامی کی نہ نظر آنے والی زنجیریں دکھائے اور پھر ہمیں مشورہ دے کہ ہم ان کو کس طرح توڑیں۔ظاہر ہے کہ یہ بہت کٹھن کام ہے۔ ہم اپنے تمام آزادی پسند اور عوام دوست اور سامراج دشمن دانشوروں کو اکٹھا کر کے اور ان کی اجتماعی دانش کو بروئے کار لا کر یہ جوئے شیر لا سکتے ہیں۔ روم میں خوراک کے عالمی ادارہ (FAO) کا صدر دفتر ہے جس کے دروازہ پر لکھا ہوا ہے:
Poverty any where is a threat to prosperity every where.
اگر اس عالمی سچائی کو بیان کرنے والے مقولے میں ترمیم کی جائے تو ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں کسی بھی خطے میں ہونے والا ظلم‘ استحصال اور انسانیت دشمن عمل دنیا کے ہر حصے میں انسانوں کی خوشی اور خوشحالی کیلئے باعث خطرہ ہے۔
سیاسی آزادی کا کیا مطلب ہوتا ہے وہ آپ جاننا چاہیں تو آپ ویتنام ہر گز نہ جائیں{ وہ بہت دور ہے‘ افغانستان اور ایران تو آپ بس پر بیٹھ کر بھی جا سکتے ہیں۔ طالبان امریکہ سے 20 برس لڑے اور اُن سے پہلے مجاہدین روس سے اور اُن سے پہلے افغان انگریزوں سے لڑے۔ یہ تقریباً دو سو سال پر پھیلی ہوئی مسلسل اور مسلح جدوجہد کی داستان ہے۔ ایران میں انقلاب لانے والے امریکہ کے سب سے بڑے پٹھو اور علاقائی نمبردار شاہ ایران کی فوج سے لڑے اور اُس کو اتنی عبرتناک شکست دی جو ماہ اگست میں افغانستان میں پھر دیکھی گئی۔ ماضی قریب سے سامراجی طاقتوں کے بھنور کی گرہ ہوانا (کیوبا)‘سائیگان (ہوچی منھ سٹی) تہران اور کابل میں کھلی‘ اب یروشلم اور سرینگرکی باری ہے۔ پاکستان میں رہنے والے 22 کروڑ لوگوں کی باری کب آئے گی‘ وہ ناانصافی اور عدم مساوات کے بھنور سے کب اور کس طرح نکلیں گے؟ کالم نگار نجومی نہیں کہ آپ کو تاریخ بتا سکتا لیکن یہ وثوق سے بتایا جا سکتا ہے کہ بھنورکی گرہ کن اوزاروں اور ہتھیاروں سے کھلے گی اور وہ ہیں: ذوقِ یقیں‘ روشنی طبع‘ طبقاتی جدوجہد کے کلیدی کردار کی سوجھ بوجھ‘ جدلیاتی عمل (Dialectics) کی سچائی‘ سماجی شعور کی بیداری‘ طرزِکہن سے نجات‘ آئین نو کا خیر مقدم‘ جاگیردارانہ اور مغربی سامراج کے بنائے ہوئے ہر نقشِ کہن کو کھرچ ڈالنے کا عزم‘ ''پیران کلیسا‘‘ کو'' کلیسا‘‘ سے اُٹھا دینے کے لیے جدوجہد۔ اقبال سے لے کر علامہ مشرقی اور ابوالکلام آزاد تک ہمیں اُن لوگوں کے فہم کے بارے میں خبردار کرتے رہے جو اپنی سادہ لوحی سے یہ سمجھتے اور سمجھاتے رہے کہ اگر انگریزکے ہندوستان میں سجدے کی اجازت ہے تو اُس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں اسلام بھی آزاد ہے۔
آج کا کالم شروع اقبال کے لکھے ہوئے ایک مصرع سے ہوا تھا۔ اُنہوں نے ہمیں جونسخہ کیمیا بتایا وہ صرف دو الفاظ پر مشتمل ہے اور وہ ہیں ذوقِ یقیں۔ مناسب ہوگا کہ آج کا کالم بھی اُنہی کے ایک شعر پر ختم کرتے ہوئے آپ کو دعوت فکر دی جائے۔
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں