Plutocracy …(2)

مندرجہ بالا عنوان سے لکھے گئے کالم کی پہلی قسط میں (کالم نگار کی غفلت سے) سے دو باتیں رہ گئیں۔ اوّل: Plutocracy کے لفظ کا ماخذ یونانی زبان کے دو الفاظ ہیں۔ Ploutosدولت کو کہتے ہیں اور Kratosکا معنی ہے طاقت۔
دوم : گزشتہ کالم کا سب سے اہم نکتہ قائداعظم کی 24 اپریل 1943 ء والی تقریر کا اقتباس تھا۔ قائداعظم جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر پاکستان کا مطلب اس طبقہ کی بالادستی ہے تو مجھے یہ پاکستان نہیں چاہئے۔اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی تھی کہ جو پاکستان اس ملک کے بنانے والے کوہر گز قابل قبول نہ تھا ہم نے اسے ویسا ہی بنا لیا اور آج تک اُسی طرح چلا رہے ہیں۔
پاکستان میں امرا نے اپنے لیے جو مراعات حاصل کر رکھی ہیں وہ دنیا کے کسی اور جمہوری ملک میں نہیں ہوتیں۔ عوامی مسائل حل کرنے سے متعلق حسبِ ِسابق ہماری قومی اسمبلی کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ تین سال کے دورانیہ میں مقررکردہ دنوں میں سے اسمبلی کے ایک تہائی سے بھی کم دنوں میں اجلاس ہوئے ہیں‘ وہ بھی بہت تھوڑے اوقات کے لیے‘ اورحکومت سے پوچھے گئے 45000 سوالات میں سے صرف 9600 سوالات کے نامکمل اور اکثرجھوٹے جوابات دیے گئے۔ ان پانچ سالوں میں جو برائے نام قانون سازی اسمبلی کے ذریعے ہوئی اس سے تقریباً دو گنا زیادہ تعداد میں آمرانہ طریقے کے مطابق آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کی گئی جبکہ جمہوری ملکوں میں آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی عوام اور جمہوریت کے خلاف ایک جرم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مراعات یافتہ ممبران کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر کروڑوں روپوں سے نوازا گیا۔ الغرض ہماری اسمبلیاں پارلیمانی جمہوری نظام کی انتہائی مسخ شدہ اور بھونڈی مثال پیش کرتی ہیں۔ ایسی امیر شاہی (پلوٹو کریسی) نظام کی موجودگی میں عوامی فلاح کی طرف پیش قدمی ناممکن ہے‘ لہٰذا ملک اب بھی پہلے کی طرح سیاسی عدم استحکام کا شکار بنا رہے گا اور غریب عوام مراعات یافتہ استحصالی طبقوں کی چال بازیوں کا شکار بنے رہیں گے۔
امیر شاہی کے ہتھکنڈوں میں سے سب سے زیادہ سازش سیاسی عمل سے متوسط طبقے کے عوام دوست لوگوں کو دور رکھنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے استحصالی امرا سیاسی جماعتوں کو اپنی ذاتی اور وراثتی ملکیت بنائے رکھتے ہیں اور غیر مراعات یافتہ طبقے کو نزدیک تک آنے نہیں دیتے۔ اس طرح باضمیرعوام دوست لوگ سیاسی عمل سے لاتعلق‘ Disenfranchised ہی رہتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جماعتوں کے مالکان کو انتخابی ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے لاکھوں کروڑوں روپوں کے نذرانے پیش نہیں کر سکتے۔ اگر انہیں سیاست میں حصہ لینا ہو تو انہیں اپنے ضمیر کا سودا کر کے سیاسی وڈیرے اور خوشامدی مصاحب بن کر رہنا پڑتا ہے تاکہ انہیں بطور خیرات کوئی نشست مل جائے۔ جمہوری معاشروں میں ایسی ذاتی جاگیروں جیسی سیاسی جماعتوں کو ایک دن کے لیے بھی برداشت نہیں کیا جاتا مثلاً جرمنی کے آئین کے آرٹیکل نمبر21 کی رُو سے ایسی غیر جمہوری جماعت کو ملک میں اپنا دفتر تک کھولنے کی اجازت نہیں ہوتی چہ جائیکہ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہو۔ جمہوریت میں حلقے کے جماعتی اراکین اپنا امیدوار خود مقرر کرتے ہیں نہ کہ پارٹی کی مرکزی قیادت۔
اس کے علاوہ ہمارے آئین نو آبادیاتی گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کی طرز پر بنائے گئے۔ 1973 ء کے آئین میں امیر شاہی پر مبنی انتظامیہ کو آمرانہ اختیارات تفویض kiے گئے ہیں جن سے وہ اپنی مرضی کے میرٹ سے عاری لوگوں کو جج بنا سکتی ہے جس سے عدلیہ کی غیر جانبداری اور آزادی ناممکن ہو جاتی ہے اور وہ عوامی استحصال کو روکنے کی اہل نہیں ہوتی۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت‘ بے روزگای اور ظلم زیادتی کی بنیادی وجہ یہی امیر شاہی (پلوٹو کریسی) کا نظام ہے جسے عوام کو دھوکا دینے کے لیے جمہوریت (ڈیموکریسی) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر ہم پاکستان میں حقیقی اور عوام دوست جمہوری نظام چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے تلخ تجربات اور دیگر جمہوری ممالک کے عوام دوست سیاسی اور انتظامی نظاموں کو پیش نظر رکھ کر انقلابی اصلاحات کرنا پڑیں گی اور ملک کو امیر شاہی (پلوٹو کریسی) کے چنگل سے چھڑانا ہوگا اور عوام کو ملکی اقتدار میں جمہوری طریقے سے شراکت دینا ہوگی جیسا کہ دیگر جمہوری ممالک بشمول انگلستان‘ جاپان‘ فرانس‘ کینیڈا اور امریکہ جسے ممالک میں ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک ایران نے بھی زیادہ تر انہی ممالک کے تجربات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنا عوام دوست آئین بنایا ہے۔ اس جدوجہد کی ابتدا عوامی شعور اور آگاہی کے فروغ سے کرنا ہوگی جو عوامی فلاح‘ ملکی استحکام‘ قوتِ اخوت عوام کیلئے مضبوط بنیاد ثابت ہوگی۔ قوتِ اخوتِ عوام سے ہم اس منزل کی طرف چار قدم اُٹھا کر بڑھ سکتے ہیں۔ اوّل: ہر سطح پر بااختیار مقامی حکومتیں قائم کرنے سے۔ دوم: ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دینے سے۔ سوم: متناسب نمائندگی سے انتخابات کرانے سے۔ چہارم: قانون کی حکمرانی سے۔
پاکستان بطورِ ریاست معرض وجود میں آیا تو اس کو قدرت کے غیبی ہاتھوں نے جن بڑی نعمتوں اور قدرتی وسائل سے نوازا تھا اُن میں سرفہرست چھ عظیم الشان دریا تھے۔پاکستان بنے تیرہ برس ہی گزرے تھے کہ ہمارے حکمرانوں نے امریکی دبائو کے تحت تین دریا بھارت کے ہاتھ میں دے دیے۔ ان دریائوں کے اصل مالک تو کشمیر کے عوام تھے جہاں سے یہ دریا نکلتے ہیں اور بین الاقوامی قانون کے تحت چھ میں سے پانچ دریائوں پر سب سے پہلا حق اُن لوگوں کا بنتا ہے جن کے علاقہ میں برفانی چوٹیوں سے یہ دریا نکل کر میدانوں کا رخ کرتے ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ گزرے ہوئے 74 سالوں میں ہماری آبادی چار گنا بڑھ گئی۔ لاکھوں ایکڑوں پر اُگے ہوئے قدرتی جنگلوں میں درختوں کو ہم نے کاٹ کر بیچ ڈالا۔ عالمی درجہ حرارت چڑھ جانے کی وجہ سے کوہ ہمالیہ کے برف کے تودے سکڑ گئے۔ دریائوں میں بہنے والا پانی کی مقدار کم ہوگئی۔ سیلابوں اور طوفانی بارشوں کی شدت بڑھی تو وہ علاقے جو پہلے خشک سالی کا شکار تھے۔ سیلاب میں غرق ہو گئے۔ بڑے ڈیم بنانے کے لیے اربوں ڈالر درکار ہوتے ہیں۔ وہ ایک مقروض ملک لائے تو کہاں سے؟ چھوٹے ڈیم (بشرطیکہ اُن کی تعداد زیادہ ہو) ہمارا پانی کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں مگر یہ نسخہ اُن کتابوں میں نہیں تھا جو Plutocratsکے مقرر کردہ ماہرین نے پڑھی تھیں۔ ایک زرعی ملک کے پاس اپنی ضرورت کا آب پاشی کا پانی نہ ہو تو اُس کا کتنا برُا حشر ہوگا۔ کھیت کھلیان تو ایک طرف رکھیں اب تو ہمیں پینے کے لیے بھی صاف پانی نہیں ملتا۔ کراچی کو دیکھیں جہاں پینے کے پانی کے ذخائر پر جس انتظامیہ کا قبضہ ہے اسے مافیا کے اسم صفت سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ ہمارے ماہرین (ہر شعبہ کے ماہرین) غالب کے الفاظ میں سرگشتہ خمارِ رسوم و قیود ہیں کہ وہ تیشہ استعمال کیے بغیر خودکشی بھی نہیں کر سکتے۔ اُدھر ہم کسی بھی پیر تسمہ پا سے جان نہیں چھڑا سکتے اور دعویٰ کرتے ہیں اچھی حکمرانی کا۔ کنویں تو اب قصہ ٔماضی بن چکے مگران کوچلانے والے بیل (جو امیر شاہی کے کل پرزے ہیں) اپنی آنکھوں پر غلاف چڑھا کر 74 سالوں سے مال گاڑی کھینچ رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں