نیک اور نیک نام مگر غیر مقبول

26 ستمبر کے روزنامہ دنیاکے انہی کالموں میں شائع ہونے والی سینئر صحافی جناب مجیب الرحمن شامی کی تحریر کی آخری آٹھ سطور آج کے کالم کی پہلی سطور بنیں گی۔''ایک زمانہ تھا جب متناسب نمائندگی پر زور دیا جا رہا تھا اور برطانوی انتخابی نظام جس میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے خواہ مجموعی طور پر اقلیت میں کیوں نہ ہو ‘کے خلاف دلائل دیے جا رہے تھے۔ یاد رہے کہ سو میں سے تیس ووٹ حاصل کرنے والا یوں کامیاب قرار پاتا ہے کہ اس کے خلاف پڑنے والے ستر ووٹ تین امیدواروں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ یوں اکثریت اسمبلی سے باہر کھڑی رہ جاتی ہے اور تیس ووٹ حاصل کرنے والا ایک سو کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ اس پر کوئی فیصلہ نہ ہوا تو اس معاملہ کو خارج از بحث کر دیا گیا۔ متناسب نمائندگی پر آج بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بلدیاتی اداروں کا تسلسل بھی برقرار نہیں رکھا جاسکا۔ جماعت اسلامی اس حوالے سے بھی کوئی فیصلہ کن معرکے کی تیاری کرے تو کامیابی قدم چوم سکتی ہے۔ مقامی حکومتوں کے وجود سے انکار کر کے صوبائی اور وفاقی حکومتیں بھی مستحکم نہیں ہو پائیں۔ ان کی حیثیت بنیاد کے بغیر کھڑی کی جانے والی عمارت ہی کی رہے گی۔ جسے چند پھونکوں سے اُڑایا جا سکتا ہے ‘‘۔
مندرجہ بالا سطور کی جتنی بھی تائید کی جائے کم ہوگی۔ اگرجماعت اسلامی رہ نوردِ شوق ہے تو پھر روایتی سیاست کا عمل ہر گز قبول نہیں کرنا چاہئے۔ چاروں بڑی سیاسی جماعتوں نے اقتدار کے اندھا دھند تعاقب میں دیوانہ وار بھاگتے ہوئے اتنی گرد اُڑا رکھی ہے کہ اُنہیں نہ عوام یاد ہیں اور نہ اُن کے مسائل۔ ہمارا سیاسی اُفق اتنی برُی طرح گرد آلود ہے کہ نہ عوام نظر آتے ہیں اور نہ مفاد عامہ کے تقاضے۔ وہاں جماعت اسلامی پر معمول سے زیادہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قومی ضمیر کی آواز بن جائے۔ وہ آوازِ خلق ہو اور زبان خلق بھی تاکہ ہم اُسے نقارئہ خدا کا درجہ دے سکیں۔ ایران میں برسوں قبل اسلامی انقلاب آیا‘ چند ماہ قبل افغانستان میں طالبان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو عبرتناک شکست دی ۔ سرحد کے مشرق میں ہم ہیں۔ ہمارا کیا حال ہے؟وہ آپ کے سامنے ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کی اُونچی میز کے دستر خوان سے خوراک کے گرے ہوئے ٹکڑے جھپٹ کر اُٹھانے میں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ وہ موجودہ عوام دشمن نظام کے محافظ و معاون اور مددگار ہیں۔ وہ مافیا کے تعاون اور سرپرستی سے اقتدار حاصل کرتی ہیں اور پھر برسر اقتدار رہتی ہیں۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ پر قابض مافیا سے لڑیں تو کیونکر؟ مافیا سے کون لڑ سکتا ہے؟ مافیا کو کون شکست دے سکتا ہے؟ صرف وہ عوام دوست جماعتیں (اور اُن کا وسیع اتحاد) جن کی جڑیں عوام کے دل و دماغ میں ہوں۔ جو قوتِ اُخوت عوام کے خزانہ سے مالا مال ہوں۔ یہ ہے وہ کڑا معیار جس پر ہماری ایک بھی سیاسی جماعت پورا نہیں اُترتی۔ یہی وجہ ہے کہ ریموٹ کنٹرول سے چلنے والوں کو 74سال میں چار بار ایک ٹھوکر سے گرا دیا گیا۔ گملے میں اُگائے گئے پودوں اور زمین سے اُگنے والے پودوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اوّل الذکر کی کوئی جڑ نہیں ہوتی‘ موخر الذکر کی جڑ زمین میں پیوست ہوتی ہیں۔
اُمید کی جا سکتی ہے کہ اتنی لمبی تمہید پڑھ کر قارئین کالم نگار کے ساتھ متفق ہوں گے کہ ہماری سیاسی زندگی میں ایک بڑا خلا ہے۔ محب وطن جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اس خلا کو پرُ کریں۔ اگر وہ اس فرض کو ادا کرنے میں ناکام ہیں تو ان سے کم اہلیت رکھنے والے غیر مراعات یافتہ عوام کا ہر اول دستہ بن جائیں گے۔کتنی اچھی بات ہے کہ جماعت اسلامی جمہوری نظام کے ذریعے برسر اقتدار آنا چاہتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا آسکتی ہے؟ اگر طریقہ انتخاب وہی رہا جو ان دنوں رائج ہے تو جواب ہے شاید کبھی نہیں۔ اگر متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنا لیا جائے تو غالباً۔ عمران خان حکومت کی حکومت پر کڑی تنقید کرنے سے تو جماعت اگلا الیکشن نہیں جیت سکتی۔ اسے اپنا مثبت پروگرام (منشور کی صورت میں) پیش کرنا چاہئے اور پھر رائے عامہ کو اپنے ہمنوا بنانے کیلئے سیاسی جدوجہد کرنا ہوگی۔ علامہ مشرقی‘ سید عطا اللہ شاہ بخاری اور عبدالغفار خان بھی اتنے ہی بڑے لوگ تھے جتنے مولانا مودودی۔ وہ سب ناکام رہے؟ کیوں؟ وہ تاریخ کی بہتی ہوئی ندی کے غلط کنارے پر چلے۔ اُن کی آواز عوام کے دلوں تک تو گئی مگر ہاتھ دھڑکتے ہوئے دل سے چلنے والی نبض پر نہ تھے۔ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں نے ایک کا بیلچہ اُٹھایا۔ دوسرے کی کمال کی تقریر سنی۔ تیسرے کی سرخ قمیص پہنی مگر ووٹ قائداعظم کی مسلم لیگ کو دیا کہ صرف وہی مسلم قوم پرستی کی ترجمان تھی اور وہی وقت کی آواز ۔ تاریخ میں بے وقت کی راگنی کو کبھی سنا نہیں جاتا۔ خاکسار ہوں یا جماعت ِاحرار یا سرخ پوش۔ وہ سب آثار قدیمہ بن گئے۔ کیا جماعت اسلامی بھی اس صف میں شامل ہونا چاہتی ہے؟ یہ ہے وہ بڑا سوال جس کا جواب دینا ہوگا۔ آج تک جماعت اسلامی کا کوئی وفد چین‘ روس‘ ایران‘ ترکی(جنوبی امریکہ میں کیوبا تو بہت دور ہے) نہیں گیا۔ کیوں نہیں؟ تلاش علم کیلئے‘اپنے ذہنی اُفق کو وسیع کرنے کیلئے‘ اُن ممالک میں عوام کی جدوجہدسے سیکھنے کیلئے‘بیرون ملک معلوماتی دوروں کی باری تو بعد میں آئے گی۔ سندھ کے ہاریوں سے‘ بلوچستان میں بھیڑ بکریاں پالنے والوں سے اور ساحل پر مچھلی پکڑنے والوں سے ‘ کوئلہ کی کانوں میں کان کنوںسے‘سراپا فریاد بنے ہوئے سکولوں میں پڑھانے والوں سے‘ جان ہتھیلی پر رکھ کر پولیو قطرے پلانے والی ہیلتھ ورکروں سے‘ گندم‘ کپاس اور چاول اگانے والوں سے انہیں سیکھنا چاہیے۔ یہ عمل اُنہیں زندہ و تابندہ رکھے گا‘ باسی اور زنگ آلود ہونے سے بچائے گا۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو نیا ڈیم بنوانے کیلئے چندہ اکٹھا کرنا پڑا ۔ موجودہ چیف جسٹس کا بھلاہو کہ وہ سرکاری زمین پر ناجائز تجاوزات کو گرانے سے لے کر دریائے سندھ میں ڈولفن مچھلی اورکچھووں (جو دریا سے باہر نکلنے پر مجبور ہو کر دربدربھٹک رہے ہیں اور مارے مارے پھر رہے ہیں) کے تحفظ کیلئے قانونی کارروائی کرتے ہیں اور ٹھوس قدم اٹھاتے ہیں۔کسی سیاسی جماعت سے تو یہ نہ ہو سکا۔ دنیا کے ہر ملک کی طرح پاکستان میں بھی دو طبقات ہیں‘ مراعات یافتہ اور غیر مراعات یافتہ۔ جماعت اسلامی فیصلہ کرے کہ وہ کس کے ساتھ ہے؟ پیپلز پارٹی اب سمٹ کر سندھی وڈیروں کی جماعت بن چکی ہے‘ مسلم لیگ (ن) تاجروں‘ صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کے حقوق کی محافظ ہے‘ تحریک انصاف تعلیم یافتہ‘ متوسط طبقہ کی جماعت سے برسر اقتدار آئی‘ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی اُردو بولنے والے نچلے متوسط طبقے کی آواز ہے‘ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں قبائلی پرچم لہراتی ہیں‘ عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام پچھلے قومی انتخابات میں اپنی شکست کی آواز بن چکی‘عوامی تحریک کے رہنما علامہ طاہرالقادری صاحب کینیڈا آباد ہو چکے ہیں۔ کراچی سٹیل مل کے ہزاروں مزدوروں کی صدائے احتجاج چھ ہزار میل کا فاصلہ طے کر کے کالم نگار کے کانوں میں گونج رہی ہے‘ کیا جماعت اسلامی کے دفاتر اتنے Sound Proofہے کہ وہ انہیں سُن نہیں پائی؟
حاصل کلام یہ ہے کہ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار ِ بے بنیاد۔ عصا کا مطلب ہے قوتِ عمل۔ قوتِ اُخوت عوام کوجگانا اور اس کا استحصالی طبقے کے خلاف رخ موڑنا۔ ایک مارکسی اشتراکی کی محنت کشوں سے محبت اُسے کوچۂ رقیب میں بھی سرکے بل لے گئی۔ اُمید کی جاتی ہے کہ جماعت اسلامی کے قائدین کالم نگار کی دردمندانہ درخواست پر غور فرمائیں گے۔ پاکستان ایک بڑے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جماعت اسلامی پر عوام کا قرض ہے کہ وہ وسیع تر اتحاد قائم کر کے مادرِ وطن کو بچائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں