بحیرہ عرب سے بحر الکاہل تک

ان دونوں سمندروں میں بُعد المشرقین ہے۔ بارہ ہزار میل کا فاصلہ‘ مگر ان میں ایک قدرِ مشترک ہے۔ اُن کے ساحلوں پر آباد دو شہروں میں ماہ دسمبر میں اُمید‘ روشنی‘ سنہرے مستقبل اور خوبصورت خوابوں کی کلیاں کھل کر پھول بن گئیں۔ وہ دونوں شہر قوتِ اُخوتِ عوام کی زندہ اور تابناک مثالیں بن کر عصرِحاضر کے اُفق پر کہکشاں بن کر اُبھرے۔ ایک شہر کا نام ہے گوادر اور دوسرے کا سنیتاگو( Santiago)۔ گزرے ہوئے سال کے آخری مہینے میں ان دونوں شہروں میں رہنے والوں نے ایک کمال کر دکھایا‘بقول اقبال: بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب ایک بار پھر توڑ ڈالی۔دائیں اور بائیں بازو کی بے کار اور بنجربحث کے خار زار میں اُلجھے بغیرانسانی تاریخ نے ایک بڑی جست آگے کی طرف لگائی۔گوادر میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ جاری رہنے والا مظاہرے نے اپنے جائز مطالبات تسلیم کروالیے۔ عوام جیت گئے اور Status Quo (حالات کو جوں کا توں رکھنے) کے علمبردار اور ان کا مددگار طبقہ ہار گیا۔
اقبال انسانی تاریخ کے رموز جانتے تھے اور تاریخ کے قاضی کے اُن فتووں کا بھی انہیں علم تھا جس کا اُن کی باتیں سننے والوں اور اُن کا کلام پڑھنے والوں کو شائبہ تک نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ اُن کے نورِ بصیرت کو عام کر دے۔ صد افسوس کہ اقبال کی یہ دعا ابھی تشنہ تکمیل ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ سرزمینِ حجاز سے بادِ نسیم کب آتی ہے۔ ماہِ دسمبر میں دو مذکورہ بالا ساحلی مقامات پر ایک نئی پو پھوٹی تو عالمِ بالا میں اقبال کی روح خوشی سے مسکرا اُٹھی ہوگی۔ جب اقبال کو ہمالہ کے چشمے اُبلتے نظر آئے تو اُس وقت انقلاب چین کئی سال دور تھا۔ گراں خواب چینی قوم کو سنبھلنے میں نصف صدی لگ گئی۔ قبل از انقلاب کے چین کی حالت آج کے پاکستان سے ہزاروں گنا خراب تھی مگر وہ تین چوتھائی صدی سے بھی کم عرصہ میں اقوام ِ عالم کی آخری صف سے اُٹھ کر صفِ اول کا سردار بن گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اہل پنجاب بلوچستان کو پسماندہ سمجھتے ہیں۔ شمالی پنجاب کے سینکڑوں پراپرٹی ڈیلر گوادر کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ گوادر کی چمک دمک نے اُن کی آنکھیں اتنی خیرہ کر دیں کہ اُنہیں وہاں رہنے والوں کی بھوک پیاس کا خیال بھولے سے بھی نہیں آیا۔ بلوچستان کے ساحلوں پر آباد ہزاروں‘ لاکھوں لوگو ں کا واحد ذریعہ آمدنی ماہی گیری ہے۔ سندھ اور نہ جانے کس کس علاقے سے تعلق رکھنے والوں کے فش ٹرالربلوچ ساحلوں پر سالہا سال سے دندناتے پھر رہے تھے۔ وہ جدید مشینوں اور بڑے بڑے جالوں سے صرف ساحلی علاقوں سے نہیں بلکہ دس بیس میل کی بحری پٹی سے آبی حیات کو پکڑنے کی اس طرح روزانہ مشق کر رہے تھے جس طرح وہ کوئی مالِ غنیمت ہو۔ ایک بڑا مظاہرہ ہوا تو پتا چلا کہ اہل گوادر نہ صرف بنیادی ضروریاتِ زندگی بلکہ پٹرول اور بجلی بھی ایران سے حاصل کرتے ہیں۔ ناانصافی اور وہ بھی اتنے سالوں سے۔ ہر سال کے ہر ماہ اور ہر ماہ کے ہر روز۔ جماعت اسلامی کے مقامی رہنما جناب ہدایت الرحمن صاحب کراچی میں اپنی جماعت کے رہنما مولانا نعیم الرحمن صاحب کے نقش قدم پر چلے۔ غالباً وہ خود بھی ماہی گیر رہ چکے ہیں اور اُن کا ماہی گیروں سے اتنا گہراتعلق ہے کہ وہ مظاہرین کے دلوں کی دھڑکن اور اُن کی آواز بن گئے۔ اُنہوں نے اپنی کمال کی قیادت سے پاکستان میں محنت کشوں کی جدوجہد میں ایک سنہرے باب کا اضافہ کیا جس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں محنت کشوں کے دوستوں اور خیر خواہوں کے سر فخر سے اونچے ہو گئے۔ پاکستان کے اندر اور باہر تمام عوام دوستوں کا فرض ہے کہ وہ گوادر مظاہرہ اور دھرنا میں شامل ہر شخص اور اُن کے قائد کو اتنی شاندار کامیابی پر مبارک دیں۔ آیئے! ہم سب اُن سے بطور طالب علم سبق سیکھیں۔اہلِ گوادر نے ہم سب کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔ قوتِ اُخوتِ عوام کا راستہ۔ عوامی اتحاد کا راستہ‘ حرکت سے برکت پیدا کرنے کا راستہ‘ عوامی جدوجہد کی حرکیات (Dynamics) کا راستہ‘ اندھیرے کو روشنی میں تبدیل کرنے کا راستہ۔
بلوچستان کی طرح چلی بھی ہمارا ہے۔ اُسی طرح جس طرح ایک زمانے میں ویتنام‘ایران اور انقلاب بہار کے بعد تیونس بھی ہمارا تھا۔ جب کارل مارکس نے کمیونسٹ منشور کی آخری دو سطروں میں یہ لکھا کہ دنیا بھر کے محنت کشو! ایک ہو جائو تمہارے پاس اپنی زنجیروں کو کھونے کے علاوہ اور کچھ نہیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بخوبی جانتا تھا کہ جغرافیائی سرحدوں کے باوجود ساری دنیا کے محنت کشوں کے ایک جیسے طبقاتی مفادات ہیں۔ وہ ایک ہی عالمی برادری کے رکن ہیں۔ اُن کو جہاں بھی کامیابی ملے‘ بحیرہ عرب یا بحر الکاہل کے ساحل پر‘ وہ ان سب کی کامیابی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی بعید میں کس طرح چلی کے عوام دوست صدر ایاندے کو قتل کرکے وہاں جنرل پنوشے نے اپنی فسطائی آمریت قائم کی تھی۔ چلی کے عوام دشمن حکمران طبقے کی سخت گرفت کی بدولت چلی پر عشروں تک اندھیرا چھایا رہا۔ 20 دسمبر کا سورج طلوع ہوا تو تاریکی کا عشروں طویل دور ختم ہوا۔ 35 سال سوشلسٹ نوجوان Gabriel Boricنے صدارتی انتخابات کے دوسرے رائونڈ میں 56 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔
چلی کا شمار لاطینی امریکہ کے امیر ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ مسئلہ (اور وہ بھی سنگین ) یہ ہے کہ معاشی ناہمواری نے سماجی انصاف کے خواب کی عملی تعبیر کو ناممکن بنا دیا۔ وجہ ؟ ایک فیصد آبادی ملک کے 25 فیصد ذرائع پیداوار پر قابض ہے۔ Boric(سابق طالب علم رہنما) کو نہ صرف کمیونسٹوں بلکہ تمام عوام ودستوں اور جمہوریت پسندوں کی حمایت حاصل تھی۔ انتخابات میں فیصلہ کن فتح کے حصول کے بعد Boricنے اپنی پہلی تقریر میں پانچ اہم اور قابل ذکر باتیں کیں اور اپنے انتخابی منشور کو دہراتے ہوئے کہا کہ وہ پرائیویٹ پنشن سکیم (جس کا فائدہ صرف امیر لوگ اُٹھاتے چلے آئے ہیں کہ یہ بنائی ہی اُن کے لیے گئی تھی) کو ختم کر دیں گے۔ وہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ایسی اصلاحات اور اتنی سرمایہ کاری کریںگے کہ غیر مراعات یافتہ طبقات بھی مستفید ہو سکیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے دنیا کے ہر ملک کی طرح چلی بھی متاثر ہوا ہے۔ نئے صدر نے اس کی طرف پوری توجہ دینے کا بھی عہد کیا ہے۔جس کا مطلب ہے کہ معدنیات نکالنے کے لیے کان کنی پر پابندیاں لگانا۔ Boricنے اپنے لئے جو لقب استعمال کیا وہ تھا:Millennial Leftist۔
وہ دن گئے جب لاطینی امریکہ کے ممالک میں کاسترو واحد سوشلسٹ حکمران تھے‘اب وینزویلا‘ میکسیکو‘ارجنٹائن‘ پیرو اور ہنڈراس میں عوام دوست حکومتوں کی تعداد بڑھ کر سات تک جا پہنچی ہے۔ کالم نگار معاشرے کی سیاسی حرکیات کو طبقات اور طبقاتی کشمکش کے زاویۂ نظر سے دیکھتا ہے۔ ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ جاگیرداروں سے شروع ہوئی‘ پھر سرمایہ داروں کے ہاتھ آئی۔ اس کے بعد وہ دونوں طبقات پہلے سول اور پھر ڈکٹیٹر اتحادی بن گئے۔تحریک انصاف کی حکومت میں اُبھرنے والا متوسط طبقہ اقتدار کے اونچے دستر خوان سے ٹکڑے اُٹھانے لگا۔ اب نئی بتدیلی یہ آئی ہے کہ نچلا متوسط طبقہ زور و شور سے سامنے آیا ہے‘ اگر اسے پسے ہوئے محنت کشوں کی حمایت بھی حاصل ہوگئی تو وہ برسر اقتدار آسکتا ہے۔ ایک سائنسی اصول کے مطابق مذہبی جماعتیں (ایران کی طرح) ہمارے ہاں بھی چھاسکتی ہیں۔شمالی پنجاب میں تحریک لبیک، (سندھ اسمبلی میں اس کے دو اراکین ہیں) اور خیبرپختونخوا میں جمعیت علمائے اسلام طاقت پکڑ رہی ہے۔
کالم ختم کرنے سے پہلے ایک آخری سطر سال نو پر آپ اور آپ کے اہل خانہ کے لیے کالم نگار کی نیک تمنائیں اور دعائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں