ہمارے زوال کا کون ذمہ دار ہے؟ …(2)

سوچا جائے تو ہمارے زوال کا باعث ہماری بیمار ذہنیت ہے‘ جو علم او رعقل دونوں کی دشمن ہے۔ حقیقت پسندی کے بجائے تصوراتی دنیا میں رہنا ہماری سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لاکھوں حامیوں میں کسی ایک کو بھی ان جماعتوں کے چوٹی کے رہنمائوں کی کرپشن نظر نہیں آتی۔ یہی حال تحریک انصاف کے حامیوں اور گزشتہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے والوں کا ہے۔ اُن میں سے ایک بھی اس جماعت کی حکومت کی نااہلی اور ناکامی کو صدقِ دل سے مان لینے پر کبھی تیار نہ ہو گا۔ جملے میں دو الفاظ سب سے اہم اور کلیدی حیثیت رکھتے ہیں‘ وہ ہیں صدقِ دل۔ اس خوبی کے بغیر رُوبہ زوال ہونا‘حالات کا بد سے بدتر ہو جانا ایک قدرتی امر اور منطقی نتیجہ ہو جاتا ہے۔ اقبالؔ نے مسلمانوں کی زبوں حالی اور پسماندگی کا نوحہ اپنے اشعار میں بیان کیا تو سامعین میں سے کسی ایک نے بصد ادب عرض کیا کہ آپ نے شاید غور نہیں فرمایا کہ دنیامیں مسلمان معاشی طور پر کتنے کمزور ہیں؟ آپ کا اتنے مفلوک الحال لوگوں سے گلہ اور شکایت بلا جواز ہے۔ اقبال نے جواباً جو کہا وہ آپ ضربِ کلیم اور بالِ جبریل میں پڑھ سکتے ہیں۔ میں صرف ایک شعر لکھنے پر اکتفاکروں گا ؎
سبب کچھ اور ہے جسے تو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
صد افسوس کہ میر کارواں میں بقول اقبال نہ خوئے دلنوازی ہے اور نہ حکمت کا شعور۔
بدقسمتی سے قائداعظم کی وفات کے بعد ہماری رہنمائی اُن لوگوں کے ہاتھ آئی جنہوں نے صداقت‘عدالت اور شجاعت میں سے کسی ایک کا سبق نہیں پڑھا اور نہ پڑھنے کے آثار نظر آتے ہیں۔ اُن کی عوام دشمنی کو سونے پر سہاگہ سمجھیں۔ جب سیاست دان اقتدار کے گھوڑے پر دھن‘ دھونس اور دھاندلی کے بے دریغ استعمال سے بیٹھ جائیں تو اُنہیں اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ اُنہیں لگتا ہے کہ وہ گھوڑے سے سَر کے بل گرے کہ گرے۔ وہ برسر اقتدار رہنے کیلئے پرلے درجے کے بدعنوان لوگوں کو اپنا ساتھی بنا لیتے ہیں۔ مافیا کا ہاتھی اُن کے دفتر میں داخل ہو کر سامنے والی کرسی پر بیٹھ جائے اور فیصلہ کن کردار کا مالک بن جائے‘ وہ اُنہیں نظر نہیں آتا۔ ہمارے ہاں یہ بحث لاحاصل‘ منفی اور باسی ہو چکی ہے کہ ہمارے زوال کے ذمہ دار سیاست دان ہیں یا غیر جمہوری قوتیں۔ اگر ہم اتنے آسان سوال کا درست جواب نہیں جانتے تو ماسوائے دعائے خیر کے کیا کیاجا سکتا ہے؟
14 اگست 1947 ء کو ہم نے سیاست دانوں کو اپنا رہنما اور حکمران بنایا۔ وہ بہت برُی طرح ناکام ہوئے۔ اتنے ناکام کہ سرکاری افسروں (ملک غلام محمد‘ چوہدری محمد علی۔ میجر جنرل اسکندر میرزا اور حاضر سروس سفیر محمد علی بوگرا) کو ہمارے سروں پر بٹھایاگیا۔ مغربی پاکستان (یہ ون یونٹ کازمانہ تھا) میں راتوں رات ایک نئی سیاسی جماعت (ری پبلکن پارٹی) بنائی گئی تاکہ ایک شرمناک سازش کامیاب ہو جائے۔ سابق انسپکٹر جنرل پولیس (غالباً عبدالرشید) کو سارے ایوان کی حمایت سے پہلے صوبہ خیبر پختونخوا (اُس وقت کے NWFP ) اور پھر سارے مغربی پاکستان کا وزیر اعلیٰ بنا یا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے الیکشن پنجاب میں ہوئے۔ اتنی دھاندلی ہوئی کہ اخباروں کو ''جھرلو‘‘کا لفظ ایجاد کرنا پڑا۔ ووٹ پڑے مزدور لیڈر میرزا ابراہیم کو مگر جادو کے زور سے زیادہ ووٹ مسلم لیگی سعید کرمانی کے بیلٹ باکس سے نکلے۔مشرقی پاکستان میں پہلا الیکشن ہوا تو وہاں مسلم لیگ برُی طرح شکست کھا گئی۔ عوام دوست محاذ (جس کا نام جگتو فرنٹ تھا) جیت گیا مگر انگریز کے بنائے ہوئے 1935 ء ایکٹ کی دفعہ 92کے تحت اسمبلی توڑ کر وہاں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ ستم بالائے ستم کہ گورنر بھی میجر جنرل اسکندر میرزا کو بنایا گیا۔ شیروانی پہننے والوں سے اقتدار سرکتے سرکتے سوٹ میں ملبوس سرکاری افسروں کے ہاتھ آیا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ اسے وردی والے جھپٹ کر چھین نہ لیتے۔ پکے ہوئے پھل کی طرح اقتدار اُن کی جھولی میں جاگرا۔ بھٹو صاحب کا عہدِ اقتدار اختتام تک پہنچا تو نہ صرف جمہوری ماحول اور روایات بلکہ انسانی حقوق کا احترام‘ حزبِ مخالف کے ساتھ پرامن بقائے باہم اور عوام کے دلوں تک رسائی‘ ان سب کا فقدان تھا۔ آکسیجن نہ ہو تو سانس کس طرح لیا جائے؟ بھٹو صاحب جس جمہوری عمل کی بدولت اقتدار میں آئے تھے‘ اُنہوں نے اسی کی جڑ کاٹ ڈالی۔ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو غیر قانونی طور پر برطرف کر کے۔ دلائی کیمپ سے لے کر حیدر آباد کی جیلوں میں اپنے سیاسی مخالفین کو (جھوٹے مقدمات میں) قید کر کے پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ حنیف رامے کو شاہی قلعہ کے عقوبت خانہ میں بند کر کے‘ راولپنڈی میں NAP کے جلسہ میں ولی خان اور مفتی محمود کے حامیوں پر گولیوں کی بارش کر کے‘ ڈاکٹر نذیر احمد سے لے کر خواجہ رفیق کو دن دہاڑے قتل کروا کے۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ جب جمہوری نظام کے صرف ہاتھ پائوں نہیں بلکہ تمام ہڈیاں توڑ دی جائیں تو وہ کس طرح چلتا؟ اُسے تو بھٹو صاحب اپنے ہاتھوں سے معذور اور اپاہج بنا چکے تھے۔ اگلا مرحلہ اگر آمریت نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ جنرل ضیا الحق ایک ہوائی حادثہ میں جاں بحق نہ ہوتے تو کسی بھی سیاسی قوت میں اتنی جان نہ تھی کہ وہ اُنہیں اقتدار سے ہٹاسکتی۔ جنرل یحییٰ خان اگر سقوطِ ڈھاکہ کے ذمہ دار نہ ہوتے تو نہ جانے وہ کتنے اور سال صدرِ مملکت رہتے۔ اب رہ گئے پرویز مشرف‘ اگر وہ چیف جسٹس کو برطرف اورگھر میں نظر بند نہ کرتے اور سارے ملک میں وکلا اتنی زبردست عوامی تحریک نہ چلاتے تو وہ بھی بہت سے سال اپنے عہدہ پر قائم رہتے۔ قائداعظم کی مسلم لیگ نے یہ برا وقت بھی دیکھا کہ وہ ن‘ ق اور ف میں تبدیل ہو گئی۔ اسے انگریزی میں کارٹون کہتے ہیں یاCaricature (مضحکہ خیز خاکہ) بھٹو صاحب نے جس منشور (وہ 23 مارچ 1970ء کو اس کالم نگار کی جیب میں لاہور سے ہوائی سفر کرکے 70 کراچی کلفٹن پہنچا) کے تحت الیکشن میں حصہ لیا‘ ذرا اُس کا بے نظیر‘ زرداری اور بلاول کے خیالات اور سیاسی اغراض و مقاصد سے موازنہ کریں۔ آپ کو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ لطیفہ ہے یا المیہ کہ اب پیپلز پارٹی اور اُس کی مخالفت میں جنم لینے والی مسلم لیگ (ن) میں کوئی نظریاتی فرق نہیں رہا بلکہ اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ تحریک انصاف اپنی حکومت کے تین سال مکمل ہونے تک مذکورہ دونوں سیاسی جماعتوں کی ''ڈار‘‘ (پرندوں کا غول) میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کر چکی ہے۔
جن لوگوں کو میرے موقف سے اختلاف ہوگا میں صرف ایک دلیل اُن کی خدمت میں پیش کروں گا۔ وہ زبردست عوامی ریلہ جو 1968 ء میں ایوب خان کی آمریت کو تنکے کی طرح بہا کر لے گیا وہ ہماری گناہ گار آنکھیں 1958 ء میں مارشل لاء کے نفاذ کے وقت کیوں نہ دیکھ سکیں؟ آمریت کی آمد پر خاموشی (اور نیم رضا مندی) اور آمریت سے نجات حاصل کرنے کیلئے زبردست ہنگامے جس نے اقتدار کے ایوان ہلا کر رکھ دیے۔ ہماری پہلی قومی اسمبلی (جو مارشل لاء کے نفاذ تک مصنوعی تنفس کے سہارے زندہ رہی) بالکل غیر نمائندہ تھی۔ وہ جمہوریت کے نام پر دھبہ تھی۔ وہ پاکستان کو امریکی کالونی بنانے کے جرم میں برابر کی شریک رہی۔ اُس نے انگریز کے نو آبادیاتی ورثہ میں ایک بھی اصلاح نہ کی اورنہ عوام دشمن نظام کو عوام دوست بنانے کیلئے اپنی چھوٹی انگلی بھی ہلائی۔ ہمارے سیاست دانوں کا ان73 سالوں میں ایک ہی مشغلہ اور ایک ہی مصروفیت رہی ہے اور وہ ہے ایوانِ اقتدار کی مرمریں گردشوں میں Musical Chairsکے کھیل میں حصہ لینا۔ جنابِ بھٹو کے دور کے بعد سیاست کو ذریعہ آمدنی بنانا اور زیادہ سے زیادہ دولت کمانا اور پھر اس دولت کاایک حصہ صرف کر کے الیکشن جیت لینا اور Electable بن جانا۔ اب وہ اور مافیا (ہر قسم کے مافیاز) لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں