قائداعظم کے پہلے چار جانشین …(4)

گورنر جنرل اسکندر مرزا نے مولوی تمیز الدین کیس میں چیف جسٹس محمد منیر کے فیصلے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو مجلسِ دستور ساز کے اراکین پر مسلط کر دیا۔ مذکورہ فیصلے کی رُو سے وفاقی اسمبلی کے منظور کردہ قوانین پر گورنر جنرل کے دستخط اب لازمی ہو چکے تھے اس لیے انہوں نے 1956ء کے دستور کے نفاذ کے لیے اراکینِ اسمبلی پر دبائو ڈالا کہ وہ انہیں نئے آئین کے تحت بطور صدرِ مملکت قبول کریں۔ یہ وہ قیمت تھی جو انہوں نے طلب کی جبکہ اُس وقت کے وزیراعظم (چوہدری محمد علی) نے اس میں معاون کا کردار ادا کیا اور اس طرح یہ سودا طے ہوا۔ چوہدری محمد علی حساب کتاب کے تو ماہر تھے مگر وہ جوڑ توڑ کے معاملے میں اسکندر مرزا کا مقابلہ نہ کر سکے۔ ان کی اسکندر مرزا سے شراکت داری جلدی اپنے انجام کو پہنچی اور چوہدری محمد علی صرف ایک سال وزیراعظم رہنے کے بعد 13ستمبر 1956ء کو برطرف کر دیے گئے۔ ان کی جگہ حسین شہید سہروردی نے لی مگر وہ بھی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر صرف ایک سال فائز رہے۔ جن کی جگہ قائداعظم کے دیرینہ رفیق آئی آئی چندریگر کو نامزد کیا گیا مگر وہ صرف 59دن وزیراعظم رہے۔ ان کے بعد ملک فیروز خان نون کو وزارتِ عظمیٰ کا قلمدان سونپا گیا۔ وہ اس دور کے آخری وزیراعظم تھے۔ 1956ء کے دستور کے تحت نومبر1957ء میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا جنہیں بعد میں 1958ء تک ملتوی کر دیا گیا۔ جنرل ایوب خان کو بطور کمانڈر انچیف ایک مرتبہ توسیع دی جا چکی تھی۔ اسکندر مرزا کے دباؤ کے تحت ملک فیروز خان نون نے جنرل ایوب خان کو مزید دو سال کی توسیع دے دی۔ وجہ کیا تھی‘ 7 اکتوبر 1958ء کو اس کا بھی پتہ چل گیا۔ اس دن اسکندر مرزا نے ایک صدارتی فرمان جاری کرکے آئین منسوخ کر دیا۔ اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ پورے ملک میں مارشل لاء لگا کر جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ بمشکل چند دن گزرے کہ ایوب خان نے تین جرنیلوں کو آدھی رات کو قصر صدارت میں بھیجا جنہوں نے اسکندر مرزا کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ پانچ دن زیر حراست رہے اور پھر ان دونوں کو لندن جانے والے جہاز پر سوار کر دیا گیا جہاں اسکندر مرزا نے اپنی بقیہ زندگی جلا وطنی میں بسر کی۔ لندن میں وفات پائی تو حکومت پاکستان نے میت کو پاکستان لانے اور یہاں دفن کرنے کی اجازت نہ دی آخر ان کی اہلیہ ناہید کا ایرانی نژاد ہونا کام آیا‘ انہوں نے شاہِ ایران کی منت سماجت کرکے اسکندر مرزا کے لیے ایران میں دو گز زمین برائے تدفین حاصل کر لی۔
جنرل ایوب خان کے صدرِ مملکت بننے کی راہ میں آخری رکاوٹ دور ہوئی تو وہ فوراً صدرِ مملکت کے تخت پر براجمان ہو گئے اور 25مارچ 1969ء تک اس عہدے پر براجمان رہے۔ وہ مارشل لاء کے سائے تلے ہمارے سربراہِ مملکت بنے اور ایک اور مارشل لاء لگا کر روانہ ہوئے۔ انہوں نے افواج کے سپہ سالار جنرل یحییٰ خان کو اسی طرح اپنا جانشین بنایا جس طرح اسکندر مرزا نے آئین شکنی کا مرتکب ہو کر پہلے انہیں اپنا شریک جرم بنایا تھا۔ اگر بیلنس شیٹ بنائی جائے تو ایوب خانی دورکے صرف تین اچھے کام نظر آتے ہیں اوّل: پہلی بار عائلی قوانین بنانا‘ جس کے تحت شادی رجسٹریشن تحریری نکاح ناموں پر قانوناً لازمی قرار دی گئی۔ دوم: ملک میں تمام مزاروں کو قومی ملکیت میں لے کر محکمہ اوقاف قائم کرنا‘ جس نے مزاروں سے حاصل ہونے والی سالانہ کروڑوں روپوں کی آمدنی کو تعلیمی وظائف دینے کے لیے استعمال کیا۔ سوم: مقامی حکومتوں کا نظام بنانا‘ جس میں 80ہزار افراد کونسلر منتخب ہوئے اور نظامِ مملکت میں عوام کو حصہ لینے اور مثبت کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔
اب ہم ایوب دور کی خامیوں کی طرف چلتے ہیں‘ یہ فہرست اتنی لمبی ہے کہ ان سب کا اس کالم میں مختصر تذکرہ کرنا بھی مشکل کام نظر آتا ہے۔ (1): ایوب خان نے ایک نہیں بلکہ دو آئین پامال کیے جن میں سے دوسرا خود ان کا اپنا بنایا ہواتھا۔ (2): بنیادی جمہوریتوں کو صدر کے انتخاب کا حلقہ بنا کر دھونس اور دھاندلی سے اپنے آپ کو صدر منتخب کروایا۔ (3) امریکہ سے امداد کی مد میں ملنے والے کروڑوں ڈالروں کے لالچ میں بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کیا اور چھ میں سے تین دریا (معمولی رقم کے عوض) فروخت کر دیے جس سے پاکستان کا مسئلہ کشمیر پر مؤقف عملاً کمزور ہو گیا۔ اس موضوع پر میری مرتب کردہ ایک ہزار صفحات پر مشتمل کتاب لندن میں شائع ہوئی ہے۔ (4): ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کے عوام میں اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے جو تحریک ابھری‘ وہ صرف دو سال بعد بنگلہ دیش کے ظہور کا موجب بنی۔ (5): امریکی جاسوسی ادارہ کے تنخواہ یافتہ شخص (محمد شعیب) کو اپنا وزیر خزانہ بنایا‘ جس کی بنائی ہوئی حکمت عملی نصف صدی کے بعد پاکستان کو دیوالیہ پن کے کنارے لے آئی۔ (6): پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کشمیر کا ایک حصہ چین کو اور بلوچستان کا ایک حصہ ایران کو دے دیا۔ (7): پشاور کے قریب (بڈھ بیر کے مقام پر) امریکہ کو سوویت یونین کی فضائی جاسوسی کے لیے ایئر بیس دے دیا اور ایک بڑی ہمسایہ طاقت کو اپنا دشمن بنایا۔ (8): ضروری تیاری کے بغیر 1965ء میں جنگ شروع کر دی۔ (9): یحییٰ خان کے مارشل لاء کا زہریلا پودا تو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لگایا‘ ضیاء الحق اورپرویز مشرف کے لگائے ہوئے مارشل لاء ادوار کا راستہ بھی ایوب خان کے مارشل لاء نے ہموار کیا تھا۔ (10): اپنی نامزد کردہ کابینہ کے پُر زور اصرار پر اپنے آپ کو جرنیل کے عہدے سے ترقی دے کر فیلڈ مارشل بنایا جو عسکری قوانین کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔ (11): مغربی پاکستان (جو ان دنوں ایک اکائی تھی) کا نواب آف کالا باغ اور مشرقی پاکستان کا منعم خان کو گورنر بنایا کیونکہ وہ دونوں ایوب خان کے ایک اشارۂ ابرو پر ان کے سیاسی مخالفین کو جھوٹے مقدمات بنا کر سالہا سال تک قید کی سزا دلواتے رہے۔ (12): انہوں نے غیر قانونی طریقے سے ایک قانون بنوایا اور نافذ کیا جس کی رو سے پاکستان کے ہر نامور سیاست دان پر چھ سال تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پابندی لگا دی گئی جس کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی قیادت کا خلا پیدا ہو گیا۔ یہ کالم خاتمہ کی طرف بڑھ رہا ہے اور ابھی مجھے قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ سے لیا گیا اقتباس درج کرنا ہے۔ کراچی کے ایوانِ صدر میں ایک تقریب منعقد ہو رہی تھی‘ مہمان چھوٹے چھوٹے گروپوں میں بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصرو ف تھے۔ چند امریکی سفارت کاروں اور عالمی بینک کے کارکنوں پر مشتمل ایک ایسا ہی گروہ بادہ نوشی سے شغل فرما رہا تھا۔ ان کی خاطر تواضع میں دو تین پاکستانی افسرلگے ہوئے تھے۔ شامتِ اعمال یہ کہ ایک پاکستانی دوسرے پاکستانی کے ساتھ اردو زبان میں چند فقرے بول بیٹھا۔ اس پر ایک امریکی سفارت کار کا پارہ چڑھ گیا اور اس نے ان دونوں کو چیخ کر ڈانٹاShut Up, No Urdu Here۔ بیچ بچائو کرنے کے لیے میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو اس نے ڈانٹ کر مجھے بھی ایک طرف دھکیل دیا۔ ایک امریکی افسر اپنی کرسی پر کھڑا ہو گیا اور دھیمے انداز سے کہا :میں آپ کو سمجھاتا ہوں۔ اردو نہ کوئی مجلسی زبان ہے اور نہ ہی تمدنی۔ اس زبان میں Publicکے لیے اپنا کوئی لفظ نہیں کیونکہ آپ لوگ پبلک کو در خود اعتنا نہیں سمجھتے اور اس زبان میں Public Servant کے لیے افسر کے علاوہ کوئی اپنی اصطلاح نہیں کیونکہ یہاں پر Pubic Service کا تصور سرے سے نہیں ہے۔ وہ کچھ دیر اسی طرح بے تکان بولتا رہا۔ اس کے امریکی ساتھی اسے داد دے رہے تھے۔ ہماری نوکر شاہی کے پرزے بھی موقع واردات پر آپہنچے اور بڑی خوش دلی سے اثبات میں سر ہلانے لگے۔ دوبارہ لکھتا ہوں کہ یہ سارا واقعہ کراچی میں پاکستان کے اُس وقت کے صدر جنرل ایوب خان کے گھر میں رونما ہوا۔ ہمارے نئے آقائوں اور اَن داتاؤں کے اس ذلت آمیز رویے کا یہ مظاہرہ پہلا تھا اور نہ آخری۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں