مغلوں کی شکست اور انگریزوں کی فتح کے اسباب

بھلا ہو نذیر الدین خان کا جنہوں نے مذکورہ موضوع پر کمال کی کتاب لکھی‘ جو تقریباً پندرہ برس پہلے کراچی سے شائع ہوئی۔ اُنہوں نے اپنی کتاب کا نام بھی بے حد موزوں رکھا: ''پہلا پتھر‘‘۔ جس کا مطلب ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے سارے مؤرخین نے دُوربین کو غلط سرے سے پکڑا اور تاریخ کے ایک جھوٹے، پُرفریب اور گمراہ کن بیانیے کا بت تراش کر اس کی پرستش کرنے لگے۔ فاضل مصنف نے اس بت پر بالکل مختلف بلکہ متضاد حقائق بیان کر کے پہلا پتھر مارا ہے۔ ہمارے سکہ بند رواجی اور دقیانوسی مؤرخین نے نہ حقائق کا جائزہ لیا نہ تاریخ بدل دینے والی قوتوں کا تجزیہ کیا اور نہ ہی سچائی اور دیانتداری کو تاریخ نویسی کا بنیادی اُصول بنایا۔ مذکورہ کتاب 1757ء (جنگ پلاسی) سے لے کر 1947ء (برطانوی راج کے خاتمے) تک کا احاطہ کرتی ہے۔ اگر فاضل مصنف ایک لمحہ رُک کر یہ سوچتے کہ 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک‘ لاہور میں پیش ہونے والی ''قراردادِ لاہور‘‘ میں لفظ پاکستان ایک بار بھی نہ لکھا گیا تو اسے قراردادِ پاکستان کیوں کہا جاتا ہے؟ اس قرارداد کے تحت (جس میں دو ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا) مشرقی پاکستان کو آزادانہ مملکت کا درجہ کیوں نہ دیا گیا؟ آزادی کا مطالبہ تو دور کی بات ہے۔ بالکل ایسے ہی شیخ مجیب الرحمن نے 1970ء کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی کی نشستوں پہ 99 فیصد کامیابی حاصل کرنے کے بعد پلٹن میدان میں اپنے تاریخی خطاب میں پاکستان سے آزاد ہو جانے کا ایک بار بھی اشارۃً ذکر نہ کیا۔ عوامی لیگ نے انتخابات میں صرف چھ نکات کی بنیاد پر زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ اگر (آئین کے مطابق) پاکستان وحدانی نہیں بلکہ وفاقی مملکت تھا تو مکمل صوبائی خودمختاری (جو امریکہ کی طرح ایک وفاقی مملکت میں ہر اکائی کو حاصل ہوتی ہے) کا مطالبہ خوش دلی سے تسلیم کرنے میں کون سی رکاوٹ حائل تھی؟ بنگلہ دیش بنے آج 52 سال گزر چکے ہیں اور آج بھی یہ بحث جاری ہے کہ ملک کیوں ٹوٹا؟ کیا یہ ایوب خان کے دس سالہ مارشل لاء کا شاخسانہ تھا یا ہمارے ازلی دشمن کی سازشیں‘ (جسے مشرقی پاکستان کی ہندو اقلیت نے کامیاب بنایا) اور بعد ازاں دسمبر 1971ء میں بھارت کی فوجی جارحیت نے روس کی عسکری اور سفارتی مدد سے ہمارا مشرقی بازو کاٹ کر علیحدہ کر دیا؟
اس سے بھی زیادہ متنازع مسئلہ جناب بھٹو کے افسوس ناک کردار کا ہے۔ کیا اُنہوں نے پاکستان کی آبادی کی اکثریت کے متفقہ مطالبے (چھ نکات کی منظوری) کی حمایت کی یا ایک سراسر جائز سیاسی مطالبے کو طاقت کے وحشیانہ استعمال سے کچل دینے والے ٹولے کو تھپکی دی؟ وہ اس منصوبے کو ہری جھنڈی دکھا کر واپس کراچی آئے تو اہلِ وطن (مراد مغربی پاکستانیوں) کو یہ خوشخبری سنائی (جو سو فیصد خلافِ حقیقت تھی) کہ اللہ کا شکر ہے کہ ملک بچ گیا۔ حالانکہ وہ قائداعظم کے بنائے گئے ملک کو دو لخت کرنے والے مرکزی کرداروں میں شامل تھے۔ آج ہمارے ملک میں لاکھوں افراد (جن میں رضا ربانی، اعتزاز احسن، فرحت اللہ بابر جیسے عوام دوست اور روشن دماغ بھی شامل ہیں) میں سے کسی ایک کو بھی یہ سچائی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا کہ بھٹو صاحب احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کے ذمہ دار تھے یا نہیں؟ یہ ایک بحث طلب بلکہ تفتیش طلب معاملہ ہے مگر اس پہ رتی بھر شک نہیں کہ وہ مشرقی پاکستان میں طاقت کے استعمال کی قول و فعل سے حمایت نہ کرتے تو آج بنگلہ دیش (جسے میں اب بھی مشرقی پاکستان کہتا ہوں) جانے کے لیے ویزا لینے کا ذہنی صدمہ نہ اُٹھانا پڑتا۔
میرے خیال میں نذیر الدین خان کو اپنی بے پناہ مصروفیت کے دوران فرصت نہ ملی ہوگی کہ وہ اس معمے پر غور فرماتے کہ تحریکِ پاکستان کا مقصد ایک سیکولر مملکت قائم کرنا تھا یا اسلامی؟ قائداعظم کی تقاریر اور فرمودات ہمیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں زیادہ مدد نہیں فراہم کرتے۔ پاکستان میں دو متحارب مکاتبِ خیال ہیں۔ ایک کی فکری راہ نمائی میرے مرحوم دوست ڈاکٹر صفدر محمود نے کی اور دوسرے مکتبِ فکر کی ڈاکٹر مبارک علی نے۔ پچھتر برس گزر چکے مگر یہ بحث ابھی تک جاری ہے اور اس حوالے سے جوش و خروش میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی۔ غالباً یہ بجث آنے والی کئی صدیوں تک جاری رہے گی۔ نذیر الدین خان کی ہمت‘ بے خوفی اور جرأت ملاحظہ فرمائیں کہ وہ تند و تیز ہوائوں کے خلاف اُڑے۔ ہماری حالیہ تاریخ کے مطالعے کے خار زار میں اُترے تو ننگے پائوں چلے۔ تاریخ نویسی کی طوفانی ندی میں اپنی بادبانی کشتی (جسے کاغذ کی نائو کہنا زیادہ مناسب ہوگا) کو اُتارا تو تیزی اور تندی سے بہتے ہوئے پانی کے مخالف رُخ پر۔
پہلا پتھر 2008ء میں شائع ہوئی یعنی پندرہ برس قبل مگر ابھی تک دوسرے یا تیسرے پتھر کی باری نہیں آئی۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ شاید ہی کوئی مستند اور جانا پہچانا مورخ ہو جو اس کتاب کے مصنف کے بیانیے سے اتفاق کرے۔ علمی حلقوں نے اس کتاب کو بالکل نظر انداز کر دیا۔ ایک بھی علمی مذاکرہ اس پر منعقد نہیں ہوا۔ درجنوں یونیورسٹیوں میں سے کسی ایک کا بھی شعبۂ تاریخ ایسا نہیں جس میں اساتذہ اور طلبہ و طالبات نے مذکورہ کتاب کو موضوعِ بحث بنایا ہو۔
اب ہم چلتے ہیں فاضل مصنف کی طرف۔ وہ حیدر آباد‘ دکن سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ بات اس لیے ہماری حیرت کو بڑھاتی ہے کہ بھارتی ریاستوں کے روایتی درباری ماحول میں پلے بڑھے لوگوں کے لیے روایت شکنی مقابلتاً زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ صرف حیدر آباد کے نذیر الدین پر موقوف نہیں‘ ریاست بھوپال نے علی برادران (مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی) کی علمی سفر میں بھی بہت معاونت کی۔ مولانا محمد علی جوہر والیٔ بھوپال کے وظیفے پر آکسفورڈ میں پڑھے اور انگریزی بولنے اور لکھنے میں کمال کی مہارت حاصل کی۔ اس پایہ کی مہارت کہ (نسل در نسل) انگریز بھی رشک کرتے تھے۔ مصیبت یہ تھی کہ والیٔ بھوپال جس حد تک سلطنتِ برطانیہ کا وفادار تھا‘ علی برادران اُتنے ہی انگریز کے سامراجی نظام کے خلاف تھے۔ تحریر اور تقریر‘ دونوں میں کمال کی فصاحت اور بلاغت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ یہ وہی ریاستِ بھوپال ہے جہاں سے علامہ اقبال سے بھی گہری عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ماہانہ پانچ سو روپے کا وظیفہ دیا جاتا تھا۔ علامہ جب بھوپال جاتے تو بھوپال کے شیش محل میں چند دن گزارتے۔ علامہ اقبال نے اپنی کتاب ضربِ کلیم بھوپال کے نواب سر حمید اللہ خاں کے نام منسوب کی تھی۔ یہ کالم نگار بھی اقبال کا مرید ہے اور وہ بھی 70 سالوں سے۔ یہ سطور تو سرِ راہ لکھ دی گئیں‘ بات ہو رہی تھی ''پہلا پتھر‘‘ کی اور اُسے لکھنے والے نذیر الدین خان کی جو جدی پشتی حیدر آبادی ہونے کے باوصف اپنے نام کے آخر میں خان لکھتے تھے۔ اس موضوع پر میرا ارادہ پانچ قسطوں میں کالم لکھنے کا ہے۔ آج آپ نے پہلی قسط پڑھی۔ اگلی قسطیں پڑھنے کے لیے دل تھام لیں اور آنکھوں سے تعصب کی پٹی اُتار دیں اور تاریخ کے آئینے میں اپنے ماضی کی اصل شکل و صورت دیکھیں۔
فاضل مصنف 1947ء کے بعد ہجرت کرکے (غالباً خاندان کے ہمراہ) پاکستان آئے تھے اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی ابتدا مرچنٹ نیوی سے کی اور بحریہ کے بڑے عہدے (بحری جہاز کے کپتان) کے درجے تک پہنچے۔ ان سالوں میں انہوں نے سات سمندروں کی نووردی کی۔ صرف سیاحت ہی نہ کی بلکہ مختلف تہذیبوں اور تمدنوں کا مشاہدہ اور بغور مطالعہ بھی کیا اور برصغیر میں مغلوں کے زوال اور تمدن کی بربادی پر غور و فکر کیا۔ ان کی کتاب کا موضوع وہ تاریخی عمل ہے جس کے ذریعے اقتدار مغلوں کے ہاتھوں سے نکل کر انگریزوں کو منتقل ہوا۔ ان کا زاویۂ نظر اس تاریخی دور کو ایک نئی روشنی میں دیکھنے کی دعوت دیتا ہے اور جو مروجہ کتابوں میں لکھنے والے خوشامدی‘ درباری‘ متعصب اور مقبول عام غلط مفروضوں کی تائید کرنے والوں کی لکھی ہوئی تاریخ کی نفی کرتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں