چار کمال کے انگریز

چار کمال کے انگریز، دو مرد اور دو خواتین۔ سب کے سب غیر معمولی خوبیوں کے مالک۔ ایک اور مشترک بات یہ کہ اِن چاروں نے غیر روایتی اور غیر رواجی زندگی گزاری۔ ان سب کا تعلق برصغیر پاک و ہند سے رہا مگر اب وہ تاریخ کا حصہ بن کر گمنامی کے دھندلکوں میں ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں۔ نہ انہیں کوئی بھارت میں یاد کرتا ہے اور نہ پاکستان میں اور نہ ہی ان کی جنم بھومی برطانیہ میں انہیں یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں کئی سال پہلے بھی کالم لکھنے کا خیال آیا مگر میں یہ سوچ کر رُک گیا کہ اہل وطن (جو کسی بھی شخص کو اپنی تند و تیز تنقید کا بے رحمی سے نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے) میرا لحاظ کیونکر کریں گے؟ بڑھاپے کے سفید بال آپ سے ہزار احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں۔ دل میں خدشہ تھا کہ قارئین کا گروہ مجھ پر یہ الزام لگائے گا کہ میں نصف صدی سے زیادہ برطانیہ میں مقیم ہونے کے سبب اب نمک حلالی کا ثبوت دینے کے لیے اس قسم کے تعریفی (بلکہ خوشامدی) کالم لکھ رہا ہوں۔ کہیں میرا حال شیخ سعدیؒ کی ایک حکایت میں بیان کردہ مرکزی کردار ادا کرنے والی لومڑی والا نہ ہو۔ کسی شخص نے اُسے تیزی سے بھاگتے ہوئے دیکھ کر لمحہ بھر کے لیے روک کر پوچھا کہ کیا ماجرا ہے؟ اس افراتفری کے عالم میں سر پر پائوں رکھ کر بھاگنے کا جواز کیا ہے؟ ہانپتی ہوئی لومڑی نے جواب دیا کہ حاکمِ وقت نے فرمان جاری کیا ہے کہ تمام اونٹوں کو گرفتار کر لیا جائے۔ (غالباً ذبح کرنے کا ارادہ تھا) اس لیے میں جان بچا کر بھاگ رہی ہوں۔ سوال کرنے والا یہ کہے بغیر نہ رہ سکا: تم تو ہر گز اُونٹ نہیں ہو اور نہ ہی اُس سے مشابہت رکھتی ہو‘ تو پھر یہ تشویش کیوں؟ لومڑی نے بھاگتے بھاگتے منہ موڑ کر جواب دیا کہ مجھے یہ خوف لاحق ہے کہ میرے دشمن اُونٹ گرفتار کرنے والوں کو کہیں یہ باور کرانے میں کامیاب نہ ہو جائیں کہ میں اُونٹ کا بچہ ہوں اور جب تک یہ الزام جھوٹا ثابت ہو‘ میں دُنیاسے کوچ کر جائوں گی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں شیخ سعدیؒ نے وہ مشہور عالم جملہ لکھا (جو آنے والے وقتوں میں ایک محاورہ بن گیا) کہ ''تا تریاق از عراق آوردہ شود، مار گزیدہ مردہ شود‘‘ یعنی جب تک عراق سے تریاق آئے گا‘ سانپ کا کاٹا ہوا بدنصیب شخص مر چکا ہو گا۔ اگر مجھ پر انگریزوں کی بے جا تعریف کرکے اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کا الزام عائد کیا گیا تو کیا مجھ پر الزامات کا لاٹھی چارج کرنے والے میرے برطانیہ میں 55 سالوں پر پھیلے ریکارڈ پر ایک نظر ڈالنے کی زحمت اُٹھائیں گے؟ جواب نفی میں ملا۔ دُوسرا اور آخری سوال یہ تھا کہ کیا ایک بوڑھے کالم نگار کی زندگی میں اتنے سال باقی رہ گئے ہیں کہ وہ اپنی صفائیاں پیش کرنے میں بقیہ زندگی گزار دے؟ اُس کا جواب بھی نفی میں تھا۔ مگر یہ میرے بڑھاپے کے اوّلین دنوں کی بات ہے جب آدمی ابھی اندیشۂ سود و زیاں سے اپنی مسکین جان چھڑا نہیں پاتا۔ اب میں نے بڑھاپے (جس کا مطلب صرف بزرگی ہے‘ ضعیفی ہر گز نہیں) کی مزید اتنی منزلیں طے کر لی ہیں کہ اب میرے دماغ میں پرانے وسوسے اور اندیشے جنم نہیں لیتے:
نہ ستائش کی تمنا ہے اور نہ تنقید کی پروا
افسوس کہ طویل تمہید نے کالم کی اتنی جگہ لے لی‘ آئیے اب آپ کا چار کمال کے انگریزوں سے تعارف کراتے ہیں اور شروع خواتین سے کرتے ہیں۔ پہلی تھیں Annie Besant۔ 1847ء میں پیدا ہوئیں، 1933ء میں ہندوستان میں وفات پائی اور اسی سرزمین پر مدارس (آج کے تامل ناڈو) میں سمندر کے کنارے ان کی میت (ان کی وصیت کے مطابق) نذرِ آتش کی گئی اور راکھ جنوبی ہند کے اُن دریائوں میں بہا دی گئی جن کے کنارے آباد بستیوں میں اُنہوں نے اپنی آدھی زندگی گزار دی تھی۔ ہندوستان کے صدیوں سے غلام لوگوں کی آزادی کے لیے‘ خواتین کے حقوق کے لیے‘ ذہنی آزادی‘ سماجی مساوات‘ معاشی انصاف اور انسانی حقوق کے احترام کے لیے اُن کے دل و دماغ میں ہندوستان اور یہاں کے پسماندہ تعصبات‘ توہم پرستی اور جہالت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے کروڑوں لوگوں (خصوصاً محنت کشوں اور خواتین) کے لیے اتنی ہمدردی تھی کہ وہ برطانیہ چھوڑ کر ہندوستان آباد ہو گئیں۔ مقامی زبان (ہندی) پر عبور حاصل کیا۔ ہندوستان آنے کے بعد سے اپنی موت تک وہ کھدّر کی ساڑھی پہنتی رہیں۔ مقامی ہندوستانیوں کی طرح دیسی کھانا کھایا (دال اور سبزیاں)‘ ہوش سنبھالنے کے بعد سے پکی سبزی خور بن گئیں اور گوشت خوری سے سخت پرہیز کیا (اچھا ہوا کہ وہ زندگی میں نہ کبھی گوجرانوالہ گئیں اور نہ خیبر پختونخوا‘ ورنہ اُنہیں وہاں کئی کئی دن فاقہ کشی کرنا پڑتی)۔ اس بلند پایہ خاتون کا عقیدہ عام مذاہب میں مشترک بنیادی اخلاقی قدروں پر ایمان تھا۔ سیاسی مسلک کے اعتبار سے وہ بائیں بازو کی سوشلسٹ جماعت Fabian Society کی صف اوّل کی رہنما تھیں اور برطانیہ کے چوٹی کے تمثیل نگار (اور نوبیل انعام یافتہ) جارج برنارڈ شا کی 1880ء کی دہائی میں قریبی ساتھی تھیں۔ برناڈ شا انہیں اس دور کی بہترین خاتون خطیب سمجھتا تھا اور کہتا تھا کہ اس بہادر اور عظیم خاتون نے ہندوستان کی برٹش راج سے مکمل آزادی کا نعرہ اُس وقت بلند کیا جب کانگریس میں بھی یہ مطالبہ کرنے کی اخلاقی جرأت اور سیاسی قوت نہ تھی۔ وہ کانگریس کی بزدلانہ روش سے متنفر ہوئیں تو اُنہوں نے ایک سیاسی جماعت Home Rule کے نام سے بنائی۔ کانگریس کی قیادت اتنی شرمندہ ہوئی کہ اُنہیں کانگریس کا صدر چن لیا گیا۔ 1898ء میں وہ Helena Blavatskyکی چلائی ہوئی Theosophy تحریک سے اس طرح متاثر ہوئیں کہ اسے اپنا عقیدہ بنا لیا اور اس کے پرچار کے لیے کتابیں لکھیں۔ اس غیر رواجی مذہبی عقیدے نے ان کی عمر بھر کی سیاسی جدوجہد کو گرد آلود کر دیا۔
دوسری خاتون 22 نومبر 1892ء کو Slade نامی بحریہ کے افسر کے گھر پیدا ہوئیں۔ یہ افسر آگے چل کر برطانوی بحریہ کا ایڈمرل پینی (سب سے بڑا افسر) بنا۔ ان کا نام Madeleine Slade تھا۔ انہوں نے برطانیہ کے بہترین پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم پائی۔ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں میڈیلین کو اتنی گہری دلچسپی تھی کہ وہ برطانیہ کی آرام دہ زندگی چھوڑ کر (30 برس کی عمر میں) ہمیشہ کے لیے ہندوستان میں آباد ہو گئیں۔ وہ نہ صرف مہاتما گاندھی کی دست راست (سیکرٹری) بنیں بلکہ وہ گاندھی جی کی وفات تک اُن کے ساتھ اُن کے گھر میں رہیں۔ میڈیلین سلیڈ نے ہندی بھی سیکھی۔ یہ بھی کھدّر کی ساڑھی پہنتی تھیں اور پکی سبزی خور بن گئیں۔ گاندھی جی نے میڈیلین کو اپنی منہ بولی بیٹی بنا لیا تو اس کا دیسی نام میرابہن (Mirabehn) رکھا گیا۔ اُنہیں گاندھی جی کی قریب ترین اور معتمد ترین ساتھی ہونے کا شرف اور اعزاز حاصل ہے۔ گاندھی جی کے قتل کے بعد یہ بہادر‘ اولوالعزم‘ روشن دماغ اور روایت شکن خاتون اگلے 34 برس بھارت میں قیام پذیر رہی تاکہ وہ گاندھی کے عدم تشدد نظریات کا پرچار کر سکے۔ گاندھی کے ساتھ اُن کے آشرم میں رہتے ہوئے اس نے چرخے پر سُوت کاتنا سیکھا۔ وہ گاندھی کی مشہور پالتو بکری کا دودھ اپنے ہاتھوں سے دوہ کر اُنہیں دن میں دو بار پیش کرتی تھیں۔ اُس نے گاندھی کی شب و روز اور سالہا سال خدمت کی اور اعلیٰ ترین سرکاری سطح پر اُن کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا۔ بھارتی حکومت نے اُن کی وفات سے ایک برس پہلے اُنہیں بھارت کا سب سے بڑا سول اعزاز ''پدم بھوشن‘‘ دیا۔ 1931ء میں گاندھی جی گول میز کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے لندن گئے تو یہ خاتون (بکری سمیت) اُن کے ساتھ گئی‘ برطانیہ سے نقل مکانی کر جانے کے بعد یہ واحد موقع تھا جب وہ اپنے آبائی وطن واپس گئی ۔میڈیلین نے گاندھی جی کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ہندوستان کے ہزاروں دیہات کا دورہ کیا اور وہاں سماجی ترقی کے منصوبوں (خصوصاً خواتین کی فلاح و بہبود کے کاموں) میں گہری دلچسپی لی اور کارکنوں کی حوصلہ افزائی کی۔ برطانوی راج کے زمانے میں اُنہوں نے کئی بار جیل میں قید کی سزا بھی کاٹی۔ صد افسوس کہ Annie Besant کی طرح آج برطانیہ اور بھارت میں اس باکمال خاتون پر بھی گمنامی کی گرد کی گہری تہہ جم چکی ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں