کراچی کے دُکھی گھرانے

ایک‘ دو نہیں! نہ بیسیوں اور نہ سینکڑوں۔ کم از کم 32 ہزار 500 گھرانے ہیں جن میں خواتین اور بزرگ یعنی عمر رسیدہ و ضعیف افراد اور بچے (جن کی تاحال گنتی نہیں کی گئی اور سرکار کے کاغذوں میں بھی اُن کا نام و نشان نہیں ملتا) کو اگر کم از کم یعنی محض ایک ایک ہی شمار کیا جائے تو بھی یہ تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہو گی (اصل تعداد یقینا کہیں زیادہ ہے)۔ یہ کم و بیش 32 ہزار 500 صرف دُکھی نہیں بلکہ بے حد دُکھی گھرانے ہیں جو کراچی کے گجر نالہ کے کناروں پر بنائی گئی پسماندہ ترین بستیوں یعنی Slums میں آباد تھے۔ دوبارہ لکھتا ہوں کہ کم از کم 32 ہزار 500 گھرانے۔ جن کے گھروں کو پہلے 25 اکتوبر 2020ء اور پھر ستمبر 2022ء کو سندھ ہائیکورٹ کے واضح احکامات کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے مسمار کر دیا گیا۔ بلڈوزر استعمال کر کے ان آبادیوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔
ایک سال کا عرصہ گزر چکا مگر یہ 32 ہزار 500 گھرانے اور کم از کم ایک لاکھ افراد‘ اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھے ہیں۔ کھلے آسمان تلے! وہیں سوتے ہیں‘ وہیں کھانا پکاتے ہیں اور وہیں روز و شب گزارتے ہیں۔ نہ معلوم جب اُن پر بارش کے بادل برستے ہوں گے تو کیا ہوتا ہو گا۔ بار بار بارش سے ان آفت زدہ گھرانوں پر کتنی بڑی قیامت گزرتی ہو گی۔ یہ نہ تو کالم نگار اور نہ ہی یہ کالم پڑھنے والے تصور کر سکتے ہیں، مگر ایک المیہ اور ہے جو ان 32 ہزار 500 گھرانوں کے دُکھ سے بھی بڑا ہے اور وہ ہے کراچی کے متمول اور خوشحال گھرانوں، سیاسی اور مذہبی جماعتوں، سیاسی لیڈروں اور دانشوروں کی مکمل عدم توجہی، ان کی بے حسی اور لاتعلقی۔ اُنہوں نے ان دُکھی گھرانوں کی طرف سے اپنا منہ موڑ لیا ہے۔ آنکھوں کا رُخ دوسری طرف کر لیا ہے۔ بھلا ہو کراچی کے ایک عوام دوست وکیل (فیصل صدیقی) کا جنہوں نے ان ستم زدہ افراد‘ جو اپنے مسمار شدہ گھرکے ملبے پر بیٹھ کر کم از کم ایک سال گزار چکے ہیں‘ کی فریاد سندھ ہائیکورٹ تک پہنچائی ہے۔ انصاف کے اعلیٰ ایوان میں زنجیرِ عدل کھینچی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے جج صاحبان کا بھلا ہو جنہوں نے سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ (سیّد مراد علی شاہ) کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ صرف عدالت کی نہیں، حق و انصاف بلکہ انسانیت کی بھی توہین کی گئی ہے۔ میرا یہ اندازہ درست ہو گا کہ یہ سارے متاثرین ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرکے آنے والوں کی دوسری؍ تیسری نسل ہیں۔ مہاجرین کی پہلی نسل ہندوستان میں اپنے آباد گھروں کو چھوڑ کر اس لیے دُور دیس‘ کراچی جا کر آباد ہوئی تھی کہ وہ لوگ سوچتے ہوں گے کہ اُن کا اور اُن کی آئندہ نسلوں کا مستقبل یہاں زیادہ محفوظ ہو گا۔ وہ اپنے نئے وطن میں نہ صرف خوشحال ہوں گے بلکہ خوش و خرم بھی...
جب بے رحم افراد نے 32 ہزار 500 گھروں کو ناجائز تجاوزات قرار دے کر گرایا ہو گا تو آپ ایک لمحہ کے لیے رُک کر سوچیں کہ متاثرین پر‘ خصوصاً عورتوں، بوڑھوں اور بچوں پر کتنی بڑی قیامت گزری ہو گی؟ سارے ملک میں رہنے والے خوشحال لوگوں (کُل آبادی کے بمشکل ایک فیصد) کو رہنے دیں‘ وہ کراچی سے کم یا زیادہ فاصلہ پر رہتے ہیں‘ وہ متاثرین کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو نہ دیکھ سکتے، نہ ہی اُن کی آہ و پکار سن سکتے ہیں مگر کراچی میں بدقسمتی سے خوشحال طبقہ اور اُن کے نام نہاد راہ نما بھی، سیاسی جماعتیں بھی، بار ایسوسی ایشن بھی، انسانی حقوق کے علمبردار بھی‘ سب کے سب لاتعلق بن گئے۔ پاکستان کے امیر طبقے کی توجہ تو زیادہ سے زیادہ مال سمیٹ کر اور وہ بھی جلد از جلد‘ پاکستان سے بھاگ کر کسی محفوظ مقام پر جا کر آباد ہونے پر مرکوز ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اقبالؔ نے اسے مال مست کہا ہے۔ یہ اگر 24 کروڑ کی آبادی میں صرف ایک فیصد بھی ہو تو 24 لاکھ بنتے ہیں۔ ان کی تو بات چھوڑیے، متوسط طبقہ‘ جو آبادی کا غالب حصہ ہے، جس کے افراد نہ کوئی ناجائز کام کرتے ہیں اور نہ حرام پر مائل ہوتے ہیں، جو دینی احکامات کی بھی پابندی کرتے ہیں اور قانون کی خلاف ورزی سے بھی گریز کرتے ہیں، جو محنت و صبر سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں‘کیا کیجئے کہ وہ بھی اپنے ہی ملک کے کم از کم ایک لاکھ افراد کے دُکھ سے بیگانہ اور لاتعلق ہو گئے ہیں۔
کئی سمندروں اور بلند و بالا پہاڑوں کے باوجود‘ مذکورہ بالا دکھی منظر نامہ چھ ہزار میل کے فاصلے پر‘ بوڑھے کالم نگار کو بخوبی نظر آرہے ہیں۔ کراچی کے 32 ہزار 500 متاثرہ خاندان، جو ایک سال سے اپنے گھروں کے ملبہ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر یہ سب سات سمندر پار بوڑھے کالم نگار کی نظروں کے سامنے ہیں تو اُس شہر میں رہنے والے لاکھوں اچھے‘ باشعور اور ذمہ دار شہریوں کو کیا کہیں کہ جن کو اپنے ہم شہر‘ اپنے پڑوسی اور اپنے ہمسایے نظر نہیں آ رہے۔ یقینا ہم سب آخرت پر اور روزِ حساب پر ایمان رکھتے ہیں، تو کیا ہم سے گجر نالہ کے 32 ہزار 500 دُکھی گھرانوں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ ہمارے اہلِ وطن کو نیوزی لینڈ و آسٹریلیا سے امریکہ و کینیڈا تک‘ سارے جہاں کی فکر لاحق رہتی ہے مگر کتنی ستم ظریفی ہے کہ ہمیں خود اپنے ملک‘ نہ گجر نالہ کے 32ہزار 500 متاثرین کی ذرہ بھر تشویش ہے۔
نہ ہمیں وطن و اہلِ وطن کی فکر ہے‘ نہ سندھ میں کچے کے ڈاکوئوں کی بڑھتی ہوئی غنڈہ گردی اور اغوا برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی۔ نہ بے زمین کسانوں کی۔ نہ مزارعین کی۔ نہ صنعتی مزدوروں کی۔ نہ ریلوے ورکرز کی۔ نہ اربوں کا منافع دینے والی سٹیل مل کے بے قصور کارکنوں کی۔ نہ سکولوں سے باہر دو کروڑ سے زائد بچوں کی۔ نہ علاج سے محرو م لاکھوں افراد کی۔ نہ آوارہ کتوں اور سانپوں کے زہریلے حملوں کا شکار بننے والے بے کسوں کی۔ نہ سرکاری ہسپتالوں کے بستروں پر پڑے مناسب علاج کا انتظار کرتے مریضوں کی۔نہ برسوں بلکہ عشروں سے انصاف کی تلاش میں عدالتوں میں نسل در نسل دھکے کھانے والوں کی۔ نہ عالمی اداروں کے بنائے ہوئے لیبر قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا شکار ہونے والے چھوٹے بڑے صنعتی کارکنوں کی۔ نہ کانوں سے کوئلہ نکالنے والے اور نہ اُن کانوں کے اندر کوئلہ بن جانے والوں کی۔ نہ کراچی اور گوادر کے ماہی گیروں کی۔ نہ مردم شماری کرنے سے لے کر ڈینگی مچھروں کو مارنے والے کم آمدنی والے سرکاری اہلکاروں کی۔ نہ گھریلو خواتین اور نہ گھریلو ملازمین کی۔ غرضیکہ چار سو پھیلے ہوئے ظلم و ستم کی طرف رتی بھر توجہ نہیں۔ کوئی دھیان نہیں۔ خیال تک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قوتِ اُخوتِ عوام سے بننے والے ملک سے رب العزت ناراض ہو گیا ہے۔ نشانی اس کی یہ ہے کہ اب طرح طرح کے عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ بے موسمی بارشیں اور برف باری۔ کبھی طوفان، کبھی سیلاب، کبھی زلزلے۔ قدرتی آفات کا ایک سلسلہ ہے جو کہیں تھمتا نظر نہیں آتا۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا، اگر ہم نے مذکورہ بالا محروم و مفلوک طبقات کی فکر نہ کی۔ اگر ہم نے متاثرینِ گجر نالہ اور تمام دُکھی افراد (99 فیصد آبای) کے دُکھوں کا مداوا نہ کیا تو مزید اور زیادہ سخت سزا ملے گی۔ ابھی ہم فلم کا ٹریلر دیکھ رہے ہیں۔ فلم کا چلنا ابھی باقی ہے۔ جلد یا بدیر‘ جب فلم چلے گی تو ایک پنجابی ڈائیلاگ کے مطابق‘ لگ پتا جاوے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں