نگاہ بلند‘ سخن دلنواز‘ جاں پُرسوز

اقبالؔ نے میر رواں کیلئے جو رختِ سفر تجویز فرمایا وہ جن بہت کم افراد پر بجا طور پر صادق آتا ہے اُن میں سرفہرست تین شخصیات ہیں۔ قائداعظم‘ اُن کی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور اُن کے سیکرٹری کے ایچ خورشید۔ تین جنوری 1924ء کو سرینگر کے متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے خورشید حسن بڑے ہوئے تو اپنے نام کو ذرا تبدیل کر کے خورشید ( K ) حسن (H ) خورشید بن گئے‘ جس طرح شعرا اپنے نام کے آخر میں اپنے تخلص کا اضافہ کر لیتے ہیں حالانکہ خورشید صاحب کا شعر وشاعری سے تعلق نہیں تھا۔ والد کا نام مولوی محمد حسن تھا جو عرصہ دراز گلگت میں ہیڈ ماسٹر رہے۔ اُنہوں نے اپنے بیٹے کو گھر میں دینی تعلیم دی۔ 1939ء میں میٹرک ایس پی ہائی سکول سے‘ انٹرمیڈیٹ امرسنگھ کالج سے کیا۔ اس کالج سے اُنہوں نے بہترین مقرر‘ بہترین مضمون نگار اور بہترین اداکار کے انعامات حاصل کیے۔
جب وہ حصولِ تعلیم کے اس مرحلے سے فارغ ہوئے تو سیاسی منظرنامہ یہ تھا کہ ریاست جموں وکشمیر میں قیام پاکستان کے مطالبے کی سیاسی اور اخلاقی حمایت کرنے والی کوئی تنظیم نہ تھی۔ مسلم کانفرنس نے خود کو نیشنل کانفرنس میں بدل لیا تھا (غالباً اس کے سربراہ شیخ عبداللہ تھے) اور وہ متحدہ ہندوستان کے حامی تھے۔ ان حالات میں طلبہ نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور خورشید صاحب اس کے پہلے جنرل سیکرٹری بنائے گئے۔ اس حیثیت میں اُنہوں نے کئی شہروں کے دورے کیے۔ نومبر 1942ء میں اسی تنظیم کے اجلاس میں قائداعظم نے اُنہیں اپنے ہاتھوں حسنِ کارکردگی کا پرچم دیا۔ سیاست کے ساتھ شعبہ صحافت سے بھی وابستہ ہوکر 1943ء میں ایک نامور صحافی اے آر ساغر کے ہفت روزہ ''جاوید‘‘ کی ادارتی ٹیم کے رکن بن گئے۔ 1944ء میں قائداعظم موسم گرما کی تعطیلات گزارنے سرینگر گئے تو اُن کی مردم شناس نظروں نے خورشید صاحب کو بطور سیکرٹری چن لیا۔ اس وقت خورشید صاحب کی عمر صرف بیس برس تھی۔ 1944ء سے ستمبر 1948ء میں قائداعظم کی وفات تک وہ اُن کے قریب ترین مددگار تھے۔ وہ قائداعظم سے اجازت لے کر 30 ستمبر 1947ء کو سرینگر گئے تو اُنہیں یکم نومبر 1947ء کو گرفتار کر لیا گیا اور قید کی طویل سزا دی گئی۔ اچھا ہوا کہ اُنہیں رہائی مل گئی اور جنوری 1949ء میں ملک بدر کر دیا گیا۔ واپسی کے کئی سال بعد 1956ء میں سیالکوٹ میں آباد ڈاکٹر نور حسن کی بیٹی اور میرے کالج کے زمانہ سے دوست اور ہم عصر خالد حسن کی بہن (ثریا) سے شادی ہو گئی تو مادرِ ملت فاطمہ جناح کی کراچی میں سرکاری رہائش گاہ (فلیگ سٹاف ہائوس) میں اپنی دلہن کے ساتھ رہنے لگے۔ اس سے پہلے وہ لندن میں (1954ء میں) بیرسٹر بن چکے تھے۔ اُن کے تعلیمی اخراجات مادرِ ملت نے ادا کیے تھے۔
1958ء میں چودھری غلام عباس کی کوششوں سے کشمیر لبریشن موومنٹ شروع ہوئی تو کے ایچ خورشید نے اس میں بھرپور حصہ لیا۔ 2؍جون 1958ء کو قائدینِ تحریک کے ساتھ جنگ بندی لائن عبور کرنے جا رہے تھے کہ کوہالہ کے پُل پر گرفتار کر لیے گئے۔ چھ ماہ بعد رہا ہوئے تو پاکستان میں پہلا مارشل لاء نافذ ہو چکا تھا۔ سردار محمد ابراہیم خان کو آزاد کشمیر کی صدارت سے (اسلام آباد کے کسی سرکاری دفتر میں کسی سیکشن آفیسر کے حکم پر) بر طرف کر دیا گیا تو رُولز آف بزنس کے تحت خورشید صاحب کو صدر نامزد کر دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اُس وقت حکومت پاکستان کی وزارتِ امور کشمیر (جو آزاد کشمیر کے سیاہ و سفید کی مالک تھی) کے منظورِ نظر تھے مگر ان کے حکومت پاکستان سے اختلافات اتنے بڑھے کہ وہ 15 اگست 1964ء کو صدارت سے مستعفی ہو کر کراچی چلے گئے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو خورشید صاحب اُن کے پولنگ ایجنٹ مقرر ہوئے۔ 1965ء میں اُنہیں راولپنڈی میں میر واعظ مولانا یوسف کے گھر سے اغوا کر کے پہلے پلندری جیل اور پھر (بھٹو صاحب کے بنائے ہوئے عقوبت خانہ) دلائی کیمپ مظفر آباد میں قید کر دیا گیا۔ اس رسوائے زمانہ جیل کے وہ پہلے قیدی تھے۔ 13 جنوری 1966ء کو رہائی ملی تو آزاد کشمیر کی سیاست میں پوری طرح سرگرم ہو گئے۔ 1969ء میں اُنہوں نے اپنی سیاسی جماعت (لبریشن لیگ) بنائی اور اس کے قائد کی حیثیت میں 1973ء میں برطانیہ کا دورہ کیا۔
میں نے تین برس ایگرنگٹسن کالج میں سماجی علوم پڑھائے۔ وہاں رہنے والے ایک کاروباری کشمیری شخص سے بڑی دوستی ہو گئی۔ مذکورہ دوست برطانیہ میں لبریشن لیگ کے عہدیدار تھے۔ اُنہوں نے میرا خورشید صاحب سے اتنا اچھا تعارف کرایا کہ وہ شمالی انگلستان آئے تو کئی دن Darwen میں ہمارے گھر ٹھہرے۔ خورشید صاحب کے ساتھ شب وروز گزرے تو مجھے ان کی بہت سی خوبیوں کا پتا چلا۔ دوستانہ رشتہ اپنی جگہ مگر اُنہوں نے قائداعظم سے یہ سیکھا تھا کہ اپنی عزت کس گفتار اور کس کردار سے کرائی جاتی ہے۔ وہ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں کامیاب ہو کر کئی بار اس کے رکن بنے۔ لبریشن لیگ کے سیکرٹری میرے دوست جناب مجید ملک تھے (جو بعد میں آزاد کشمیر میں چیف جسٹس بنے)۔ ان دونوں نے بڑی محنت کر کے لبریشن لیگ کو ایک طاقتور سیاسی جماعت بنایا۔ 11 مارچ 1988ء کو خورشید صاحب مظفر آباد سے لاہور تک کا سفر ایک عام وین میں کر رہے تھے کہ بدقسمتی سے وہ وین راستے میں ایک المناک حادثے کا شکار ہو گئی۔
خورشید صاحب کی ذاتی اور خانگی زندگی کو دیکھیں تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اُن کے دامن پر کوئی داغ نہ تھا۔ اس طرح اُن کی سیاسی زندگی بھی ہر قسم کی آلودگی سے بالکل پاک تھی۔ وہ قائداعظم کی طرح سیاست کو عبادت کا درجہ دیتے تھے۔ ہمیشہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے۔ کسی قسم کے لالچ یا دبائو میں نہ آئے۔ اس مردِ درویش نے اقبال کے مردِ مومن کی سچی تصویر بن کر زندگی گزاری۔ ساری عمر درویشی میں بسر کی۔ نہ اپنا گھر بنایا نہ جائیداد۔ ایک انچ زمین نہ خریدی۔ بینک میں ہمیشہ چند ہزار روپے ان کا اثاثہ رہے۔ یہ تو اُن کی باہمت‘ بہادر اور وفا شناس بیوی کا کمال ہے کہ اس نے آزمائش کے اتنے زیادہ سالوں میں گھر کا چولہا بجھنے نہ دیا اور بچوں کو اچھی تعلیم دلائی۔ انہیں قائداعظم کا دستِ راست بن جانے کی سعادت نصیب ہوئی تو اُنہوں نے قائد کے ساتھ (ضرورت پڑنے پر) روزانہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کیا اور پھر ساری زندگی اپنی زبان سے کوئی ایسا لفظ ادا نہ کیا جس کا مقصد قائد سے قریبی تعلق ثابت کر کے کوئی فائدہ اٹھانا ہو۔ بطور صدر (چاہے وہ کتنا بے اختیار اور اسلام آباد کے دفتروں میں بیٹھے بابوئوں کے کتنے ماتحت تھے) اُنہوں نے عوامی فلاح کے لیے بہت کام کیا۔ سب سے روشن کارنامہ آزاد کشمیر میں پہلی بار مقامی حکومتوں اور بنیادی جمہوریت کی اکائیوں کا قیام تھا۔ اُنہوں نے میری اس اطلاع کی تصدیق کی کہ جب ایک امریکی صدر (آئزن ہاور) پاکستان کے دورے پر آیا تو اُس نے صدر ایوب سے پوچھا کہ پاکستان کشمیر کیوں چاہتا ہے تو خود ساختہ فیلڈ مارشل نے جواب دیا کہ ہمارے سارے دریا کشمیر سے بہتے ہوئے ہمارے ملک کو سیراب کرتے ہیں اور ہمیں اپنے شمالی علاقوں کے دفاع کی فکر بھی لاحق ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ آپ بھارت سے آبی سمجھوتا کر لیں‘ اگر آپ دونوں ممالک دریائوں کے پانی کو باہمی رضا مندی سے استعمال نہیں کرتے تو انہیں آپس میں بانٹ لیں۔ بڑے آبی ذخیرے (ڈیم) بنانے کیلئے ہم آپ کی مالی مدد کریں گے اور دفاع کیلئے اسلحہ دیں گے۔ امریکی صدر کا یہ استدلال ہمارے فیلڈ مارشل کو چاروں شانے چت کرنے کیلئے کافی تھا۔ 1960ء میں پاکستان نے (شدید امریکی دبائو کے تحت) بھارت کے ساتھ آبی معاہدہ کر لیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں