پہلی خبر تو واقعی دور دیس سے آئی۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا سے‘ جو پاکستان سے پندرہ ہزار میل کے فاصلے پر ہے۔ شہر کا نام ہے لاس اینجلس جہاں ریاست Vermont کے سابق اور عالمی شہرت یافتہ سینیٹر برنی سینڈرز اور نیویارک سے ایوانِ نمائندگان کی ترقی پسند‘ روشن دماغ اور عوام دوست رکن Ocasio Cortez نے 36 ہزار افراد کے اجتماع سے خطاب کیا۔ اس عظیم الشان عوامی ریلی کے انعقاد کا مقصد صدر ٹرمپ کی عوام دشمن حکمت عملی پر تنقید تھا۔ ریلی کا عنوان تھا ''Fighting Oligarchy‘‘۔ اولیگارکی کا مطلب ہے وہ ریاست جس پر مٹھی بھر افراد کا قبضہ ہو۔ اس احتجاج کا دوسرا مقصد ٹرمپ حکومت پر عوام دوست اور زیادہ منطقی معاشی منشور کو اپنانے کے لیے دبائو ڈالنا تھا۔ بدقسمتی سے امریکی سیاست پر ارب پتی لوگوں کی گرفت اب اتنی مضبوط ہو گئی ہے کہ الیکشن کا نتیجہ جو چاہے نکلے‘ وہ اپنے آپ کو ماحول دشمن اور اجارہ داریوں کے خلاف سرکاری پابندیوں سے آزاد کرانے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں صدر ٹرمپ نے دنیا کے بیشتر ممالک سے درآمد کیے جانے والے سامان پر بھاری ٹیرف لگا کر عالمی معیشت اور آزادانہ تجارت پر جو کاری ضرب لگائی‘ اس کے خلاف امریکہ کے طول وعرض میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ابھی درآمدی محصولات میں بے جواز اضافے کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے کہ امریکی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام نہ کرتے ہوئے ایک بے گناہ شخص کو ملک بدر کرتے ہوئے سزا یافتہ مجرموں کے ہمراہ اُن کے آبائی ملک ایل سیلواڈور بھیج دیا۔ امریکی عوام کی حق پرستی اور اعلیٰ اخلاقی اقدارکی پاسداری قابلِ صد تعریف ہے کہ وہ اس صریح غیر قانونی قدم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ شاید ٹرمپ انتظامیہ کو مذکورہ مجرمانہ اور توہینِ عدالت اقدام کے ارتکاب پر عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے۔
اگلی خبر کا تعلق بھی نئے امریکی صدر ٹرمپ سے ہے۔ ہارورڈ کا شمار امریکہ کی سب سے قدیم اور بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ باقی درسگاہوں کی طرح ہارورڈ میں بھی طلبہ وطالبات اسرائیل کی جارحانہ اور ظالمانہ بمباری (جو ڈیڑھ سال سے جاری ہے) کی مذمت کرتے ہوئے اور فلسطینی عوام کی حمایت میں زبردست مظاہرے کر رہے ہیں۔ ٹرمپ اپنی اسرائیل نواز پالیسی کی وجہ سے اس یونیورسٹی سے اتنا ناراض ہوئے کہ اُنہوں نے اس یونیورسٹی کو ملنے والی ٹیکس رعایت منسوخ کرتے ہوئے یونیورسٹی کے سالانہ دو ارب ڈالر سے زائد کے فنڈز بھی منجمد کر دیے۔ ہارورڈ کے صدر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آزادیِ اظہار کے مقدس حق کی حفاظت کے لیے اُن کی درسگاہ کو اس سے بڑی سزا دی گئی تو وہ اُسے بھی بخوشی قبول کریں گے مگر تحریر وتقریر کی آزادی کے حق پر ہرگز کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ امریکہ کے سابق صدر اوباما نے قانون کی تعلیم ہارورڈ لاء سکول سے حاصل کی تھی۔ اُنہوں نے بڑے دو ٹوک انداز میں اپنی یونیورسٹی کی حمایت اور ٹرمپ کے ناقابلِ دفاع فیصلے کی مذمت کی ہے۔ امریکہ بھر میں ایک احتجاجی لہر چل رہی ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ اس احتجاجی مہم میں یہودی اساتذہ و طلبہ کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ خلقِ خدا کا فیصلہ اہلِ فلسطین کے حق میں ہے۔
تیسری خبر کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ جہاں Scunthorpe کے علاقے میں برطانیہ کے فولاد بنانے والے واحد کارخانے کو سرکاری تحویل میں لینے کیلئے ایسٹر کی تعطیلات کے دوران برطانوی پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔ یوں سمجھیں کہ اس خبر سے برطانوی سیاست اور معیشت دونوں میں ایک بڑے زلزلے کی کیفیت پیدا ہوئی۔ مذکورہ سٹیل مل ایک چینی کمپنی کی ملکیت تھی‘ جو سات لاکھ پائونڈ روزانہ کا خسارہ مزید برداشت کرنے کو تیار نہ تھی اور اس سٹیل مل کے مالکانہ حقوق سے دستبردار ہو کر اسے بند کرنے کی تیاری کر رہی تھی مگر برطانوی حکومت نے فوراً مداخلت کر کے اسے قومی ملکیت میں لے لیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سٹیل مل کو چالو رکھنے پر برطانوی حکومت کو 250 ملین پائونڈ صرف کرنا پڑیں گے۔ برطانیہ کی دفاعی صنعت کے لیے فولاد کی پیداوار ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سٹیل مل کو ہر حالت میں فعال رکھنے کی ضرورت کتنی شدید ہے‘ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ سٹیل مل کو کوئلہ کی بروقت فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے برطانوی بحریہ (رائل نیوی) کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔
اگلی خبر مشرقی افریقہ سے آئی ہے۔ ایتھوپیا کے شمال مغرب میں‘ جہاں اس کی سرحد سوڈان سے ملتی ہے‘ چوتھی صدی سے Bermel Georgisکے مقام پر ایک قدیم کنواں ہے جہاں سے نکلنے والے پانی کو مسیحی افراد نہایت مقدس سمجھتے ہیں۔ مقامی زبان میں اسے Tsebel کہا جاتا ہے۔ زائرین کے عقیدے کے مطابق اس کنویں کا پانی مریضوں کو صحت یاب کرتا ہے اور صحت افزا خصوصیات کا حامل ہے۔ یہ سلسلہ دو ہزار سال تو خیر خیریت سے جاری رہا مگر ماہِ اپریل میں یہ خبر خوش عقیدہ زائرین پر بجلی بن کرگری کہ اس کنویں کے پانی میں ہیضہ کے جراثیم پیدا ہو کر انسانی صحت کیلئے شدید خطرہ بن گئے ہیں۔ برطانوی حکومت نے حال میں اس کنویں کی زیارت کرنے والوں اور وہاں سے مقدس پانی کی سوغات برطانیہ لانے والوں کے فی الفور طبی معائنہ کا حکم دیا ہے۔
یہ خبر آپ کے چہرے پر مسکراہٹ لے آئے گی۔ ہوا یوں کہ برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر اور اُن کی کابینہ کے دو اہم اراکین کی جانب سے اپنے رئیس دوستوں سے بڑے مہنگے تحائف لینے کا انکشاف ہوا ہے‘ جس پر انہیں لینے کے دینے پڑ گئے۔ وزیراعظم سٹارمر نے 16 ہزار پائونڈ مالیت کے پرس کا تحفہ قبول کیا۔ محصولات کی وصولی کے محکمہ نے وزیراعظم کو نوٹس بھیجا کہ آپ نے یہ تحفہ قبول کر کے اپنی آمدنی میں جو اضافہ کیا اُس پر 30 فیصد کے حساب سے ٹیکس دیں ورنہ قانونی کارروائی کا سامنا کریں۔ کابینہ کے دو اراکین کو بھی اس مضمون کے نوٹس ملے۔ 15 اپریل کو لندن کے سب سے بڑے اخبار دی ٹائمز نے صفحہ اول پر یہ خبر شائع کی کہ وزیراعظم اور ان کے دونوں ساتھیوں نے واجب الادا ٹیکس ادا کر کے اپنی جان چھڑائی۔
یہ خبر خصوصی طور پر ان افراد کیلئے دلچسپ ہوگی جو سائنس سے متعلقہ خبروں سے شغف رکھتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ میںInner Hebrides کے جزیرے Isle of Skye میں دیوقامت جانور یعنی ڈائنوسار کے 17 کروڑ سال پرانے پائوں کے 131 نشانات ملے ہیں۔ جونہی اس دریافت کی خبر سائنسدانوں تک پہنچی تو وہ جوق در جوق مذکورہ جزیرہ کی طرف گئے تاکہ سترہ کروڑ سال پرانے ان فوسلز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ ایک زمانہ وہ تھا جب ساری دنیا پر ان ڈائنوسارز کی حکومت تھی۔ سائنس کی زبان میں اسے Middle Jurassic Period کہا جاتا ہے۔ کروڑوں سال قبل ایک سیارچہ گرنے کے بعد بیک وقت آتش فشاں پہاڑوں نے ایسی آگ برسائی کہ قیامت آگئی اور ڈائنوسار صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ میں نے لفظ ڈائنوسار کا ماخذ دیکھنے کے لیے آکسفورڈ لغات سے رُجوع کیا تو وہاں اس یونانی لفظ کا یہ مطلب بھی درج تھا کہ جو ادارے اپنی افادیت کھو چکے ہوتے ہیں مگر بدستور لوگوں کے سروں پر مسلط ہوتے ہیں اُنہیں بھی محاورتاً ڈائنوسار کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وطن عزیز مین آج بھی ڈائنوسارز کی حکومت ہے۔ ہمارے ضابطۂ قوانین کا بیشتر حصہ اُنیسویں صدی میں انگریزوں نے اپنا راج مستحکم بنانے کیلئے نافذ کیا تھا جو آج صرف عجائب گھروں کی زینت ہونا چاہیے تھا مگر...