غلام اسحاق خان 20جنوری 1915ء کو پیدا ہوئے اور 27اکتوبر 2006ء کو وفات پائی۔ وہ اگست1988ء سے جولائی 1993ء تک صدرِ مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔ کم گو‘ محنتی‘ فرض شناس‘ حکمران طبقے کے مفادات کے اچھے نگہبان‘ مقتدرہ سے بنا کر رکھنے والے‘ عوام دوستی سے کوسوں دور (جو افسر شاہی کی سب سے بڑی خصوصیت ہے)۔ اپنے پرانے دوست اور رفیق کار‘ روئیداد خان کے سوا کسی کو بھی اپنا ہمراز‘ ہمدم اور ہم خیال نہ بنایا۔ ایک اچھے شوہر اور باپ۔ پسماندگان میں ان کی رفیق حیات اور چار بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ ایک بیٹی اس وقت کے بڑے پولیس افسر عرفان مروت کے ساتھ بیاہی ہوئی تھی۔ الطاف گوہر اپنے کالموں کے مجموعے پر مشتمل کتاب کے صفحہ: 216 پر لکھتے ہیں: آپ کو یاد ہو گا کہ صدر غلام اسحاق خان کے داماد پر کئی سنگین الزامات لگائے گئے تھے۔ ان میں ایک الزام حزبِ مخالف کے ایک معزز سیاستدان کے گھر میں حملہ کرکے چادر اور چار دیواری کی حرمت کو پامال کرنا بھی شامل تھا۔ (الزام اتنا سنگین ہے کہ میں اسے دہرانے میں شرمندگی محسوس کر رہا ہوں)۔ایک اخبار نویس نے جنابِ صدر سے پوچھا کہ آپ کے داماد پر جو الزامات لگائے گئے ہیں کیا ان کی تفتیش کی جائے گی تو صدر کا پارہ چڑھ گیا۔ بولے: میرے داماد کی فکر نہ کرو‘ یہ پتا کرو کہ دوسروں کے داماد کیا کر رہے ہیں۔الطاف گوہر جیسے سنجیدہ اور ذمہ دار شخص نے مندرجہ بالا سطور لکھیں تو یقینا یہ سچ پر مبنی ہوں گی۔ اخبار نویس کو تو غلام اسحاق خان نے (اپنے عہدۂ جلیلہ کی دھونس سے) چپ کروا دیا مگرشاید انہوں نے فراموش کر دیا کہ ایک نہ ایک دن ہر انسان کو اپنے اعمال کا جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔
میری ان سے صرف ایک بار ملاقات ہوئی اور وہ بھی بڑے غیر معمولی حالات میں۔ 80ء کی دہائی کے آغاز میں مجھ پر ایک نیا خبط طاری ہوا اور وہ تھا کہ برطانوی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے چند اراکین پر مشتمل ایک گروپ بنایا جائے جو پاکستان کے ریاستی مفادات کی حفاظت کرے۔ نام رکھا گیا: فرینڈز آف پاکستان۔ بظاہر اس گروپ مگر درحقیقت میری ذاتی دعوت پر ہاؤس آف کامنز کے دو اراکین مارک فشر (Mark Fisher) اور بین کولیمین (Ben Coleman) اور ہاؤس آف لارڈز کے بھی دو اراکین لارڈ ایوبری اور لارڈ برناڈ ویدرِل(Bernard Weatherill) نے پاکستان کا دورہ کیا۔ الطاف گوہر نے مؤخر الذکر دونوں افراد پر کالم لکھے جو کتاب کا بھی حصہ ہیں۔ میں نے سوچاکہ اگر حکومتِ پاکستان لارڈ ویدرِل کو کوئی بڑا صدارتی ایوارڈ دے دے تو ان کی پاکستان سے دوستی مزید پکی ہو جائے گی۔ اس ضمن میں مَیں نے صدرِ مملکت غلام اسحاق خان کو ذاتی طور پر خط لکھا اور مندرجہ بالا تجویز کے حق میں دلائل دیے۔ مجھے دو ہفتوں کے اندر ان کا جواب آ گیا کہ میری تجویز قبول کر لی گئی ہے اور اس ضمن میں وسط فروری میں ایوانِ صدارت میں ایک خصوصی تقریب منعقد کی جائے گی جس میں پاکستان کے اس جانے پہچانے دوست کو صدارتی ایوارڈ دیا جائے گا۔ میں نے لارڈ ویدرِل کو یہ خوشخبری سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ ان کی اہلیہ ان سے بھی زیادہ خوش نظر آئیں اور مجھے بتائے بغیر انہوں نے اپنے خاوند کو منا لیا کہ وہ پاکستان اکیلے نہ جائیں گے اور انہیں ضرور ساتھ لے کر جائیں۔ لارڈ اور لیڈی ویدرِل‘ ان کا میزبان اور اس کے دو جوان بیٹے تقریب سے ایک دن پہلے اسلام آباد پہنچ گئے۔ لارڈ ویدرِل اور ان کی اہلیہ اپنے دیرینہ دوست میجر جنرل (ر) شاہد حامد کے ہاں ٹھہرے اور انہوں نے میرا اپنے میزبان سے اتنا اچھا تعارف کرایا کہ ان کی وفات تک دوستی کا یہ رشتہ قائم رہا۔ تقریب حسنِ انتظام کا شاہکار تھی۔ تلاوتِ قرآن پاک سے پندرہ منٹ پہلے قصرِ صدارت کا بڑا ہال پورا بھر چکا تھا۔ زیادہ تر بڑے سرکاری افسران تھے مگر وزارتِ خارجہ کے افسران نے مجھے اور میرے بیٹوں کو صفِ اول میں بٹھایا۔ تلاوت کے بعد صدر کے پرنسپل سیکرٹری نے لارڈ ویدرِل کا مختصر تعارف کرایا اور وجوہات بیان کیں جن کی وجہ سے ان کا شمار پاکستان کے بہترین دوستوں میں ہوتا ہے اور صدر سے گزارش کی کہ انہیں ایوارڈ دیا جائے۔ صدر کے ساتھ لارڈ ویدرل بھی اٹھے اور صدر کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ ایک سنہری فیتے سے آویزاں چمکتا دمکتا تمغہ بڑے دھیان سے انہیں پہنایا گیا۔ اس تقریب میں صدر مملکت مہمانوں سے اور مجھ سے باتیں کرتے رہے۔ ان کے سوال مختصر تھے اور میرے جواب ذرا لمبے۔ مجھے اور میرے دونوں مہمانوں کو یہ بات کھٹکی کہ صدر کے چہرے پر ایک لمحہ کیلئے بھی مسکراہٹ نہ آئی۔ ہاتھ البتہ انہوں نے بڑی گرم جوشی سے ملائے تھے جس سے میرے برطانوی مہمان کافی مرعوب ہوئے۔
اُس زمانے میں لوگوں کے ووٹوں سے چُنی جانے والی حکومتیں ڈیڑھ‘ دو برس میں ہی ختم ہو جاتی تھیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کے دورِ اقتدار شروع ہونے پر اتنی خوشی نہیں منائی جاتی تھی جتنی ان کے خاتمے پر منائی جاتی۔ صدر غلام اسحاق کو آئین میں جنرل ضیا الحق کی عطا کردہ آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ نادر شاہی اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنے قلم کی ایک جنبش سے کروڑوں لوگوں کی منتخب کردہ حکومت کو ختم کر دیں۔ انہوں نے بینظیر بھٹو کو اگست 1990ء میں اور میاں نواز شریف کو اپریل 1993ء میں وزارتِ عظمیٰ سے برخاست کیا کیونکہ ان دونوں حکومتوں پر کرپشن کے سنگین الزامات تھے۔ لیکن اصل میں ان دونوں کی برخاستگی کی وجہ یہ تھی کہ وہ صدر کے ساتھ اقتدار کی جنگ لڑ رہے تھے۔ دوسرے الفاظ میں اپنے آئینی اختیارات کے استعمال پر جنگ لڑ رہے تھے۔ کاش کہ ہمارے حکمران مل جل کر کام کرنے کا ڈھنگ سیکھ لیں اور بادشاہوں کی طرح کلی اختیارات کا ہر قیمت پر مالک بن جانے کا جنون دل سے نکال دیں۔ ہم مڑ کر دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمیں اتنا نقصان کرپشن نے نہیں پہنچایا جتنا حکومتوں کے غیرجمہوری طریقے سے خاتمے اور سیاسی عدم استحکام نے پہنچایا ہے۔ غلام اسحاق خان نے دو حکومتوں کی برطرفی سے ملک میں جمہوری اداروں کے ارتقا کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
غلام اسحاق خان پشاور کے قریب ایک گاؤں کے ایک متوسط کاشتکار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نے خود ناخواندہ ہوتے ہوئے بھی اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ انہوں نے باٹنی اور کیمیا کے مضامین میں بیچلرز کا امتحان پاس کیا۔ پھر اپنے ایک استاد کی حوصلہ افزائی پر صوبائی سول سروس کا امتحان دیا اور کامیاب رہے۔ پاکستان بنا تو ہزاروں معمولی سرکاری ملازمین کی طرح ان کی بھی لاٹری نکل آئی۔ وہ سٹیٹ بینک کے گورنر جنرل کے معاشی مشیر اور پھر وزیر معیشت کے عہدوں تک پہنچے۔ وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو کر 70 برس کی عمر میں سیاسی میدان میں اُترے۔ جنرل ضیاء الحق نے پہلے انہیں سینیٹ کا رکن بنوایا اور پھر اس کا چیئرمین۔ جنرل ضیا الحق کی فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد آئین کے مطابق سینیٹ کے چیئرمین‘ جو اس وقت غلام اسحاق خان تھے‘ کو پاکستان کا صدر بنا دیا گیا۔ غلام اسحاق خان کا یاد رکھنے والا واحد کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر مرحوم نے خود بتایا تھا۔ یہ تو تھا ان کی ذات کا مثبت پہلو‘ لیکن منفی پہلو بھی کچھ کم نہیں۔ انہوں نے دو بار جمہوری روایات کے نوزائیدہ پودے کو اکھاڑ پھینکا۔ پاکستان میں جمہوریت کو دفن کرنے والے اور پھر اس کی قدر مٹانے والوں کی فہرست بنائی جائے تو غلام اسحاق خان کا نام آمروں کے ساتھ سرفہرست لکھا جائے گا۔
گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں تو کبھی کبھی یہ پرانے قصے پھر سے پڑھ لیا کر۔