پاکستان کا پہلا قومی ہیرو

ایک اچھے عہدے پر ملازمت کرنے یا کامیاب کاروبار کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو کئی نامور شخصیات سے ملنے اور انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اکتوبر 1962ء سے فروری 1964ء تک میں پاکستان کے ایک بڑے اخبار کے پانچ بڑے عہدیداروں میں سے ایک تھا۔ ابھی ذمہ داریاں سنبھالے چند دن ہی گزرے تھے کہ دفتری عملے نے مجھے بتائے بغیر کہ مجھے ملنے کون اور کیوں آیا ہے‘ دفتر کا دروازہ کھول دیا اور داخل ہونے والے مہمان کو مؤدبانہ سلام کیا۔ مہمان ایک اعلیٰ پولیس افسر کی وردی میں تھا۔ دراز قد‘ رُعب دار شخصیت۔ مہمان نے کمرے میں داخل ہو کر مجھے جس طرح سلام کیا وہ میری زندگی کا ایک انوکھا تجربہ تھا۔ اس سے قبل کالج لیکچررشپ کے دوران میں نے دیکھا کہ کالج کے پرنسپل کا دربان بھی اسے جھک کر سلام نہیں کرتا مگر اس مہمان نے پہلی بار مجھے ایک بڑا افسر ہونے کا احساس دلایا۔ مجھے مہمان کو پہچاننے میں کچھ وقت لگا۔ کھیل (کرکٹ) کے میدان میں سفید لباس اور بڑے پولیس افسر کی وردی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ جونہی مہمان نے محسوس کیا کہ میں اُس کے چہرے کو سوالیہ انداز میں دیکھ رہا ہوں تو اُس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اپنا نام فضل محمود بتایا۔
مجھے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آیا کہ (مجھ سمیت) لاکھوں‘ کروڑوں پاکستانیوں کا ہیرو آج میرے دفتر میں میرے سامنے بیٹھا ہے۔ میں نے دوبارہ اُٹھ کر انہیں ہاتھ ملایا اور کہا کہ آج میرے ہاتھ میں وہ ہاتھ ہے جس میں گیند اس بات کا فیصلہ کرتا تھا کہ ہم شکست کھا کر اپنا سر جھکائیں گے یا میچ جیت کر فخر سے سر اُونچا کریں گے۔ میرے معزز مہمان کا کوئی رشتہ دار یا دوست کسی شہر میں ہمارے اشاعتی گروپ کی مطبوعات فروخت کرتا تھا۔ اُس کے ذمہ واجبات ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک جا پہنچے تھے۔ میں نے اپنی کرسی پر بیٹھ کر جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ ہر اس ایجنٹ‘ جس کے ذمہ واجبات کی ادائیگی تھی‘ کو تحریری نوٹس ایشو کیا کہ تین دنوں کے اندر ایک ایک پائی ادا کی جائے ورنہ اخبار کی ترسیل روک دی جائے گی۔ ایجنٹ حضرات نے اپنے خفیہ ذرائع سے پتا کرایا کہ نئے صاحب کو خوش کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ جب اُنہیں ہر جواب نفی میں ملا تو دل شکستگی کے عالم میں وہ واجبات بادل نخواستہ ادا کرنے پر تیار ہو گئے۔ فضل محمود صاحب اسی قسم کے ایک نادہندہ کا کیس لے کر آئے کہ اُس کا کچھ لحاظ کیا جائے۔ میں نے کہا کہ میرے نزدیک لحاظ کا مطلب وہ سلوک ہے جو فضل محمود جیسا باکمال بائولر پچ پر کھڑے بیٹسمین (موجودہ اصطلاح میں بیٹر) کے ساتھ کرتا ہے۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے کہا کہ بطور بائولر آپ کا ایک ہی کام ہوتا تھا اور وہ ہے اپنے مخالف بیٹسمین کو آئوٹ کرنا۔ اُسی طرح میرا بھی ایک ہی کام ہے‘ اپنے ادارے کو کامیابی سے چلانااور واجبات کی سو فیصدی وصولی یقینی بنانا۔ فضل محمود نے کہا کہ آپ میری خاطر مہلت چند دن مزید بڑھا دیں‘ میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں کہ تمام واجبات آپ کو مل جائیں گے۔ میں بخوشی مان گیا۔ پانچویں دن ہمیں اپنی ساری رقم مل گئی۔ فضل محمود صاحب کا شکریہ کا فون بھی آیا۔ وہ ساٹھ سال پرانا زمانہ تھا۔ اخبار کے دفتر میں فوٹو گرافروں کی کمی نہ تھی مگر اس کے باوجود مجھے خیال تک نہ آیا کہ اُن کے ساتھ ایک یادگار تصویر ہی بنوا لوں۔ ہمارا ادارہ اس زمانے میں کھیلوں کا ایک بڑا جریدہ شائع کرتا تھا۔ اُس کے مدیر اتفاقاً میرے دفتر داخل ہوئے تو سامنے فضل محمود کو دیکھ کر حیرت سے اُچھل پڑے اور منت سماجت کر کے اُنہیں کچھ دیر کے لیے اپنے دفتر لے گئے اور اگلے ڈیڑھ دو سال تک ہر موقع پر وہ میرا شکریہ ادا کرتے رہے کہ میں نے اُنہیں بیٹھے بٹھائے اتنا بڑا اعزاز دلوایا کہ وہ فضل محمود کے میزبان بنے۔
آئیے اب آپ سے فضل محمود کا تعارف کراتے ہیں۔ 18 فروری 1927ء کو وہ لاہور میں ایک پڑھے لکھے آرائیں گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد اسلامیہ کالج لاہور میں پڑھاتے تھے اور یہ اُن کی شبانہ روز توجہ‘ انہماک اور لگن کا نتیجہ تھا کہ اُن کا بیٹا پہلے کالج اور پھر ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے عالمی سطح پر کرکٹ کھیلنے لگا اور بڑا نام کمایا۔ 30 مئی 2005ء کو 78 سال کی عمر پا کر وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تو پسماندگان میں ایک بیوہ (جو پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان محمد سعید کی بیٹی تھی)‘ دو بیٹے‘ ایک بیٹی اور کرکٹ کے لاتعداد کارنامے چھوڑے۔ وہ پاکستان کو کئی شاندار فتوحات دلانے کا موجب بنے۔ اُن کی وفات پر پاکستان‘ دولت مشترکہ اور برطانیہ کے بڑے اخباروں نے تعزیت نامہ (Obituaries) شائع کیاتھا۔
میری عمر بھر کی کرکٹ میں دلچسپی اپنی جگہ مگر مہارت کا دعویٰ ہرگز نہیں۔ ماہرین سے رجوع کیا تو اُنہوں نے متفقہ طور پر انہیں میڈیم فاسٹ بائولر ہونے اور اس فن میں کمال درجہ حاصل ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا۔ وہ انگلش کرکٹر Alec Bedser سے مماثلت رکھتے تھے‘ جو تقریباً ان کے ہم عصر تھے۔ ان کا تبصرہ یہ تھا کہ اگر ان دنوں کرکٹ کے اتنے ہی میچ کھیلے جاتے جتنے آج کل‘ تو فضل محمود کو ایک ہزار وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز ملتا۔ وہ بڑے ذہین بائولر تھے جو اپنے قد اور بازوئوں کی لمبائی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بیٹسمین کو اپنے گیندوں کی Good Lenght ‘ تیز رفتاری اور مہارت کی وجہ سے اتنا پریشان کرتے کہ اُسے سارا وقت اپنی وکٹ بچانے کے لالے پڑے رہتے۔ ابتدا میں‘ جب میچ ناریل کی چٹائی (Matting Wicket) پر کھیلے جاتے تھے تو فضل محمود کی بائولنگ کے سامنے ٹھہرنا آسان نہ تھا۔ جب گھاس کی وکٹ پر کھیلنے کی باری آئی تو اُنہوں نے اپنے آپ کو بدستور دنیا کے بہترین بائولروں میں شامل رکھا۔ اُن کا خاص اور خطرناک گیند Leg Cutter ہوتا تھا۔ انگلستان کے چوٹی کے بیٹسمین Denis Compton کو فضل محمود نے 1954ء میں پاکستانی ٹیم کے پہلے برطانوی دورہ میں دو ٹیسٹ میچوں میں چار بار آئوٹ کیا تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اگر فضل محمود فارم میں ہوں تو اُن کی بائولنگ پر سکور کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ شہرہ آفاق آسٹریلوی کھلاڑی اور سابق کپتان Neil Harvey نے انہیں یوں خراجِ عقیدت پیش کیا: ''لگتا ہے کہ فضل محمود گیند سے باتیں کرتے ہیں اور وہ اُن کے حکم کی تعمیل اُسی طرح بجا لاتا ہے جس طرح وہ اُسے کہتے ہیں‘‘۔
فضل محمود نے اپنے والد کی رہنمائی اور سرپرستی میں نہ صرف اعلیٰ قسم کی کرکٹ سیکھی بلکہ معاشیات میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔ فضل محمود کے والد صاحب آف سٹمپ کی سیدھ میں ایک سکہ رکھ کر اپنے بیٹے کو کہتے کہ اگر وہ بال کو سکے پر مارنے میں کامیاب ہو جائے تو بطور انعام وہ سکہ اس کا ہو جائے گا۔ اپنا پہلا فرسٹ کلاس میچ (رانجی ٹرافی میں) 1944ء میں 17 برس کی عمر میں کھیلا۔ اُنہوں نے پنجاب اور شمالی ہند کی نمائندگی کی۔ 1947ء میں انہیں آسٹریلیا کا دورہ کرنے والی پہلی ہندوستانی کرکٹ ٹیم میں بھی منتخب کر لیا گیا تھا مگر تقسیمِ ہند کی وجہ سے یہ ٹیم آسٹریلیا نہ جا سکی۔ اُدھر فضل محمود بحفاظت پاکستان ہجرت کرنے میں کامیاب رہے۔ ایک مہربان مسافر نے اپنا ہوائی ٹکٹ اُنہیں دے دیا ورنہ شاید یہ کام ممکن نہ تھا۔ 1947ء میں ہی وہ پنجاب پولیس میں بطور انسپکٹر بھرتی ہو گئے اور بطور DIG ریٹائر ہوئے۔ دراز قد‘ نیلی آنکھیں‘ کسرتی جسم‘ ہوا میں اُڑتی ہوئی زلفیں اور خوش لباسی۔ پچاس کی دہائی میں انڈو پاک کا کوئی فلمی ادا کار اُن سے زیادہ پُرکشش نہ تھا۔ 1952ء میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم اگرچہ بھارت سے پہلی کرکٹ سیریز ہار گئی تاہم فضل محمود نے 20 وکٹیں حاصل کیں اور لکھنؤ ٹیسٹ میچ میں تباہ کن بائولنگ سے پاکستان کو اکلوتی فتح دلوائی۔ 1953ء میں پاکستان کی بی ٹیم (Eaglets) کے ساتھ انگلستان میں فاسٹ بائولر Alf Gover نے اُن کی بڑی مفید تربیت کی اور پھر 1954ء میں اوول کرکٹ گرائونڈ میں جو ہوا‘ وہ پاکستانی کرکٹ تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں