فارسی کا مشہور محاورہ ہے کہ چہ دلاور است دُز دے کہ بکف چراغ دارد۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ شخص کتنا بہادر ہے کہ اس نے اپنی ہتھیلی پر چراغ رکھا ہوا ہے۔ اس محاورے کے چوتھے لفظ 'دُز دے‘ کو 'شخصے‘سے تبدیل کر دیا جائے تو ڈاکٹر دلاور حسین پر لکھے جانے والے کالم کا اس سے زیادہ موزوں عنوان نہیں ہو سکتا۔ ستمبر 1956ء میں بی اے کا امتحان بصد مشکل پاس کرکے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخل ہوا۔ یونیورسٹی کے کسی بھی شعبے (میرا مجوزہ شعبہ پولیٹکل سائنس تھا) میں داخلے کیلئے پہلے کسی کالج میں داخلہ ضروری تھا۔ اُس وقت کے اچھے کالجوں (جی سی یا ایف سی) میں داخلے مکمل ہو چکے تھے‘ اس لیے میں نے ایم اے او کالج سے رجوع کیا۔ وہاں بھی داخلہ آسان نہ تھا۔ میں ہمت کرکے سیدھا اس کالج کے پرنسپل (ڈاکٹر دلاور حسین) کے پاس گیا اور درخواست کی کہ مجھے ایک غیرنصابی سرگرمی (مباحثوں میں تقریر کرنے) میں انعامات جیتنے کی بنیاد پر داخلہ دیا جائے تو مہربانی ہو گی ورنہ مجھے ساہیوال (جہاں میرے والد صاحب سنٹرل جیل کے میڈیکل افسر تھے) جانا پڑے گا۔ پرنسپل صاحب کچھ دیر حیرت سے مجھے گھورتے رہے‘ پھر اُٹھے‘ ہاتھ ملایا اور کہا کہ ابھی جا کر داخلہ فارم پُر کرو اور فوراً میرے پاس لے کر لاؤ۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ جب انہوں نے فارم پر دستخط کیے توکہا کہ تم نے اچھے وقت داخلہ لیا ہے۔ چند دنوں بعد کالج یونین کے انتخابات ہیں‘ صدارت کیلئے واحد اُمیدوار وہ نوجوان ہے جو اچھا پہلوان (یا باکسر) ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اتنا موزوں نہیں‘ اب تم بھی کالج یونین کے لیے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کراؤ۔ انتخابی مہم میں حصہ لینے والے امیدوار کی درخواست کی تائید کرنے کیلئے کالج کے دو طلبا درکار تھے۔ ایم اے او کالج کی حدود میں مَیں نے بمشکل پندرہ منٹ گزارے تھے‘ میں ایک بھی تائید کنندہ کہاں سے لاتا؟ میرے ساتھ میرا ایک دور کا رشتہ دار اور لاء کالج ہاسٹل میں میرا روم میٹ انور چیمہ مرحوم (جو بعد میں سرگودھا سے قومی اسمبلی کا رکن بنا) تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ تمہارا ساتھی کیاکرتا ہے؟ جب انہیں بتایا گیا کہ وہ لاء کالج کا طالب علم ہے اور میری تائید کرنے کا مجاز نہیں تو ڈاکٹر صاحب نے گھنٹی بجائی اور اپنے مددگار کو بلا کر یہ حکم دیا کہ تمہیں جو بھی دو طالب علم باہر گھومتے نظر آئیں انہیں پکڑ لاؤ۔ یہ کام ایک دو منٹ میں ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے میرا فارم ان کے سامنے رکھا اور کہا کہ یہ نوجوان ابھی کالج آیا ہے اور کسی کو نہیں جانتا۔ آپ اسے صدارت کیلئے نامزد کریں تو یہ الیکشن لڑ سکتا ہے۔ ان دونوں نے پرنسپل کے حکم پر ایسا کرکے اپنی جان چھڑائی۔ میں نے اگلے دن سے اپنی انتخابی مہم شروع کر دی۔ انور چیمہ کا بھلا ہو کہ وہ اگلے دو تین دن ایم اے او کالج میرے ساتھ گئے۔ میں اپنے حریف پہلوان کو انتخابی اکھاڑے میں پچھاڑنے میں کامیاب رہا۔ جب میرے ووٹ اپنے حریف سے دو گنا ہونے کا اعلان کیا گیا تو ڈاکٹر صاحب نے ہمیں دفتر بلا کر (مجھے اور بھائی انور کو) چائے پلائی اور اپنی میز کی دراز میں چھپائے گئے بسکٹ بھی کھلائے۔ یوں ڈاکٹر صاحب نے میرے دل میں اپنی محبت اور عزت و احترام کا وہ چراغ جلایا جو دہائیوں بعد بھی روشن ہے۔
ڈاکٹر دلاور حسین کمال کے آدمی تھے۔ سراسر غیر رواجی‘ ہر روز کالج سائیکل پر آتے تھے۔ ان کی حسِ مزاح بھی غیرمعمولی تھی۔ مجھے ان کا جو ایک آدھ لطیفہ یاد ہے ‘ وہ آپ کے گوش گزار ہے۔ ایم اے او کالج کے پاس ہی لیڈی میکلیگن کالج اور سامنے ایجوکیشن کالج فار وومن تھا۔ اس وجہ سے کالج کے سامنے لڑکیوں کی بڑی تعداد کا سارا دن آنا جانا لگا رہتا تھا۔ مذکورہ کسی کالج کی پرنسپل نے کئی بار ڈاکٹر صاحب سے شکایت کی کہ آپ اپنے کالج کے باہر کسی بھی طالبعلم کو کھڑا رہنے کی اجازت نہ دیں کیونکہ آوارہ مزاج لڑکے گانے گا کر یا آوازے کس کر لڑکیوں کو تنگ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نوٹس بورڈ پر اپنا حکم نامہ لگا دیتے کہ جو لڑکا کالج کے گیٹ پر بلامقصد کھڑا نظر آیا تو اسے کالج سے نکال دیا جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ نوٹس زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوا اور لڑکیوں کے کالج کی پرنسپل صاحبہ کی شکایت کا ازالہ نہ ہوا۔ مگر پھر حالات یوں بدلے کہ خاتون پرنسپل کا بھائی (جوبڑا پولیس افسر تھا) لاہور تعینات ہو گیا۔ ایک دن وہ ڈاکٹر صاحب کو ملنے آیا تو ڈاکٹر صاحب نے پینترا بدلا اور کہاکہ جو لڑکے گیٹ کے باہر منڈلاتے نظر آتے ہیں وہ میرے کالج میں نہیں پڑھتے‘ آپ انہیں گرفتار کر لیں۔ پولیس افسر نے اس سے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ یہ آپ کا قصور ہے کہ آپ نظم و نسق کو اچھی طرح نہیں سنبھالتے۔ اب ڈاکٹر صاحب جلال میں آگئے اور کہا کہ کالج کی پرنسپل صاحبہ سے پوچھ لیں کہ کیا میں نے آج تک انہیں چھیڑا ہے؟ اگر میرا دامن اتنا صاف ہے تو اس کالج کے طلبا بھی ضرور اپنے پرنسپل کی طرح ہوں گے۔
ڈاکٹر دلاور حسین19 مارچ 1907ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ دراز قد تھے۔ان کے والدین یقینا اتنے خوشحال ہوں گے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو برطانیہ کی ایک چوٹی کی یونیورسٹی (کیمبرج) میں اعلیٰ تعلیم کیلئے بھیجا۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلے فلسفہ میں ایم اے کیا اور پھر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر صاحب آل انڈیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر کرکٹ کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ انٹرنیشنل کھلاڑی ہونے کے باوجود ان کی توند بڑھی ہوئی تھی۔ وہ اپنا سر منڈواتے تھے اور ٹوپی پہنے بغیر (ہیلمٹ کا زمانہ کئی عشروں بعد آیا) میچ کھیلتے تھے۔ بلے بازی کرتے وقت ان کی کوشش ہوتی کہ وہی سارا وقت کھیلیں اور دوسرے سرے پر کھڑے کھلاڑی کو تیز گیندوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے متحدہ ہندوستان کی طرف سے تین ٹیسٹ میچ (1933-36ء) کھیلے۔ اپنی یونیورسٹی کی طرف سے بھی کئی میچز کھیلے اور 17 اننگز میں کل 620 رنز بنائے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی میں فرسٹ کلاس کے کل 57میچ کھیلے اور ان میں 2394 رنز بنائے۔ ان کا بھائی (جمال الدین) بھی اوّل درجہ کا کرکٹر تھا۔ ان کا ایک بیٹا (وقار احمد) اعلیٰ درجے کا ٹیسٹ کرکٹر بنا۔ 1922-23ء میں اجمیر کے مہاراجہ نے Freelooters کے نام سے کرکٹ ٹیم بنائی تو اس میں دلاور حسین کے علاوہ مشتاق علی‘ لالہ لاجپت رائے‘ امر سنگھ‘ لدھا رام جی اور سہراب جی شامل تھے۔ اس ٹیم نے معین الدولہ گولڈ کپ ٹورنامنٹ جیتا تھا۔ بمبئی میں ہندوستان کی کرکٹ ٹیم نے پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا تو لالہ امرناتھ کی سنچری کے باوجود ہندوستان ہار گیا۔ اس میچ میں ایک تیز گیند دلاور صاحب کے سر کے پیچھے لگی‘ وہ گر پڑے اور زخمی ہو کر میدان سے نکل گئے مگر اگلے دن اپنی ٹیم کی خاطر پٹی بندھے سر کے ساتھ دوبارہ گراؤنڈ میں اُترگئے۔پاکستان بنا تو وہ کرکٹ کنٹرول بورڈ کے پہلے اراکین میں شامل تھے۔ انہوں نے پاکستان کی ٹیم کو ٹیسٹ میچ کھیلنے کا درجہ دلوانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ برطانوی صحافی Mihir Bose نے ہندوستان میں کرکٹ کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی تو اس میں ڈاکٹر صاحب کی بطور کھلاڑی بہت تعریف کی گئی۔
دلاور صاحب نے ہندوستان میں کھیلے جانے والے بڑے میچوں میں بطور بیٹسمن اور بطور وکٹ کیپر اپنے کمالات دکھائے۔ Richard Cashman نے کرکٹ پر Patrons, Players and the Crowd نامی ایک شاہکار کتاب لکھی تو اس نے دلاور صاحب کے کمال کے حافظے کا خصوصی ذکر کیا اور لکھا کہ انہیں برسوں پہلے کھیلے گئے میچوں میں کھلاڑیوں کے انفرادی سکور تک یاد تھے۔ 22اگست 1967ء کو ڈاکٹر دلاور حسین خالقِ حقیقی کے حضور پیش ہو گئے۔ ان 58 برسوں میں لاہور کہاں سے کہاں پہنچ گیا مگر نہ ایم اے او کالج کو ان جیسا پرنسپل دوبارہ ملا‘ نہ لاہور کو سڑکوں پر سائیکل چلانے والا ویسا مردِ درویش ہی مل سکا۔ وہ ایک بڑے آدمی تھے۔ وہ اُٹھ گئے تو ان جیسا اور کہاں سے لائیں؟ میں انہیں جھک کر سلام پیش کرتا ہوں۔