علمی حلقوں میں عالمی شہرت کے باوجود انکساری اور دوسری بہت سی خوبیوں کے پھولوں کو اکٹھا کیا جائے تو اس گلدستے کا نام Victor Kiernan(VK) ہوگا۔ Eric Hobsbawmکی طرح ایک ایسی شمع جو آخری وقت تک خود کو طالبعلم کہتا تھا۔ صرف برطانیہ نہیں سارے یورپ میں وہ بائیں بازو یعنی مارکسی دانشوروں کے قافلے کے اُسی طرح سردار تھے جس طرح Eric Hobsbawm‘ پروفیسر Ralph Miliband‘ Christopher Hill‘ Rodney Hilton اور Edward Thomason۔ ان سے غائبانہ تعارف تو طویل عرصہ سے تھا مگر انہیں ملنے‘ ان کی بصیرت افروز اور ولولہ انگیز تقریر سننے‘ ان سے ہاتھ ملانے اور (محاورتاً) قدم بوسی کا موقع تب ملا جب ان کی 90ویں سالگرہ منانے کیلئے سارے برطانیہ کے عوام دوست لندن کے سب سے بڑے ہال میں اکٹھے ہوئے۔ ہزاروں لوگ تھے۔ میں ذرا دیر سے پہنچا تو اس یادگار تقریب میں سارا وقت کھڑے رہ کر حصہ لیا۔ مزید دیر ہو جاتی تو ہال کے دروازے بند ہو جاتے اور داخلہ نہ ملتا۔ VK کی تقریر کا پہلا جملہ تھا ''میں ایک ناقابلِ اصلاح اشتراکی ہوں‘‘۔ اس پر سامعین نے اتنی تالیاں بجائیں کہ لگتا تھا کہ اسی جملے پر تقریر ختم ہو جائے گی۔ VKکو بولنے کا موقع ملا تو انہوں نے کہا کہ سرمایہ داری کی شکست و ریخت اور ناکامی ایک ایسے غیر متبدل تاریخی عمل کا حصہ ہے جو انسانی سماج کی سائنس کے عین مطابق ہے۔ یورسے جاگیردارانہ نظام بھی اس سائنسی قانون کے تخت ختم ہوا۔ یہ سچ ہے کہ تاریخ خطِ مستقیم میں سفر نہیں کرتی۔ بقول لینن‘ کبھی کوئی ایک سیاسی اکائی (بطور ریاست) ایک قوم آگے بڑھاتی ہے تو آگے چل کر وہ دو قدم پیچھے ہٹ جاتی ہے (جس طرح سوویت یونین میں ہوا)۔ VKکی تقریر اس جملے پر ختم ہوئی کہ میرا مطالعہ اور مشاہدہ جتنا وسیع ہوا‘ میرا ذہنی اُفق جتنا پھیلا اور میں نے عمر کے بہت سے سنگ میل طے کیے تو میرا اس بات پر ایمان پختہ تر ہوتا گیا کہ انسانی معاشرہ اشتراکیت کے اصولوں پر مبنی فلاحی ریاست کی طرف بڑھ رہا ہے۔ تقاریر ختم ہوئیں تو رواجاً کیک کاٹا گیا۔ ہزاروں لوگوں نے جنم دن مبارک کے گیت گائے۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی پر پھولوں کی بارش کی گئی۔ اتنی گل پاشی تو کسی شاہی دربار پر نہ کی گئی ہو گی۔ VKنے 2004ء میں منعقدہ تقریب میں اپنی تقریر میں لاطینی امریکہ کے حوالہ سے جو پیش گوئی کی وہ ان کی وفات کے بارہ برس بعد بالکل درست ثابت ہوئی۔ گئے دن کہ کیوبا اس براعظم میں اشتراکی ممالک کی انجمن میں تنہا تھا۔ اب اس کے کئی ''رازداں‘‘ وہاں کی تاریخ کے افق پر ابھر آئے تھے۔
Victor Kiernan ایک دل موہ لینے والی شخصیت کا نام تھا جو خود یہ نہ جانتا تھا کہ اسے پسند کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہے اور ہمیشہ بڑھتی جائے گی۔ VKکو سب سے کم دلچسپی اپنی ذات میں تھی۔ انہوں نے ساری زندگی میں ایک بھی ایسی بات نہ کہی‘ نہ لکھی جس سے ان کی ذات کی بڑائی کا پہلو نکلتا ہو۔ ہر بڑے آدمی میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنی بڑائی کا دوسرے پر رعب ڈالنا تو دور کی بات‘ اشارتاً بھی اپنے اندازِ گفتگو میں نہ اپنی بڑائی جتاتا ہے اور نہ اپنے کارنامے گنواتا ہے۔ وہ واقعتاً ایک غیرمعمولی شخص تھے مگر دیکھنے‘ بیٹھنے‘ چلنے‘ بات کرنے اور علمی بحث میں حصہ لیتے وقت بالکل معمولی انسان لگتے تھے۔ وہ آداب میں بصد اصرار خود کو ایک عام آدمی ثابت کرنے پر کمر بستہ رہتے مگر ان کو دیکھنے‘ پڑھنے‘ ملنے اور سننے والے ان کی عظمت کو بخوبی جانتے تھے۔ VKکی گرفت تمام سماجی علوم پر تھی۔ تاریخ سے لے کر فلسفہ تک‘ ادب سے لے کر فنونِ لطیفہ تک۔ 1930ء اور 1940ء کے عشروں میں برطانیہ میں مارکسی مؤرخین کی جو نسل بڑی ہوئی‘ VKاس کا ایک روشن ستارہ تھے۔ وہ دنیا سے گئے تو گویا اس نسل کا آخری دانشور ہم سے رخصت ہوا۔ جب جرمنی کے چوٹی کے مفکرین نے ساری دنیا میں مطالعۂ تاریخ پر برطانوی مؤرخین کے گہرے اثر کو تسلیم کیا تو اس کی بڑی وجہ VK کی علمی کاوش تھی۔ VKنے مارکسی مؤرخ کے حدود و اربعہ کا احترام کرتے ہوئے اندھا دھند تقلید کے بجائے زمینی حقائق اور سماجی تبدیلیوں کے اعتراف اور لچک و ذہانت کے استعمال پر زور دیا۔ انہوں نے سامراجی دور پر اپنی کتابوں میں جو کمال کے تبصرے لکھے وہ علمی شاہکار ہیں مگر انہوں نے دو کمال کے کام اور بھی کیے۔ گزری صدی میں اردو کے دو سب سے بڑے شاعروں (اقبال اور فیض) کی نظموں کا انگریزی ترجمہ کیا اور لاطینی شاعر Horaceپر ایک بہت عمدہ کتاب لکھی۔ (یہ بات میں لاطینی زبان کے اساتذہ کی ماہرانہ رائے پر انحصار کرتے ہوئے لکھ رہا ہوں)۔ وہ جب بھی سفر کرتے تو ممتاز پولش مارکسی مؤرخWitold Kula کی طرح Horaceکی کتاب ان کے سامان کا لازمی حصہ ہوتی۔
VKکا تعلق شمال مغربی انگلستان کے ایک نچلے متوسط طبقہ گھرانے سے تھا۔ وہ مانچسٹر گرامر سکول سے وظیفہ لے کر کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور اگلے سات برس تک وہاں رہے۔ اس چوٹی کے علمی ادارے نے انہیں اپنا فیلو بنا کر سب سے بڑا اعزاز دیا۔ وہ قدیم اور جدید تاریخ‘ دونوں کے پرچوں میں اوّل آئے۔ 1934ء میں فارغ التحصیل ہوئے تو کمیونسٹ پارٹی کے رکن بنے اور اگلے پچیس برس تک رکن رہے۔ 1938ء میں وہ ہندوستان آئے اور 1946ء تک یہیں رہے۔ لاہور میں خالصہ کالج اور برطانوی راج کے ستون ایچیسن کالج (جہاں میں نے بھی 1965ء میں ایک سال پڑھایا) کے اساتذہ میں شامل ہوئے۔ VK وطن واپس لوٹے تو ان کے سامان میں کیا تھا؛ قبل از مسیح قدیم یونانیوں کی Peloponnesian War پر تھیوڈیسس کی کتاب‘ بے شمار ہندوستانی دوستوں کے پتے‘ اقبال اور فیض کی نظموں کے مجموعے اور ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کی یادیں اور معروف تھیٹر ڈائریکٹر اور انڈین کمیونسٹ پارٹی کی ممبر شانتا گاندھی کے نام محبت نامہ۔ شانتا بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کی کلاس فیلو تھیں اور آخری وقت تک ان کے قریبی ساتھیوں میں شامل رہیں۔ بحری جہاز برطانیہ کے ساحل پر لنگر انداز ہوا تو VKکی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا۔
شانتا ان کی شادی کی تجویز سے اتفاق نہ کرتی تو شاید دونوں کیلئے اچھا ہوتا۔ بدقسمتی سے یہ شادی بہت جلد ختم ہو گئی اور VKپر اس حادثے کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ اگلے 44 برس تک دوبارہ شادی کرنے اور گھر بسانے کی کوشش کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ اس کے بعد ہیتھر مسے (Heather Massey) سے شادی ہوئی اور وہی ان کی جملہ پسماندگان میں شامل ہے۔ VKنے 1950ء سے کتابیں لکھنے کا کام شروع کیا۔ ہر کتاب علمیت میں بے مثال ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر! البتہ تین خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔Lords of Human Kind: Black Man, Yellow Man, and White Man in an Age of Empire(1969)۔ اور 1982ء میں شائع ہونے والی مارکسی نظریات کی لغات۔
90سال کی دہلیز عبور کی تو نہ صرف سالگرہ بڑے دھوم دھام سے منائی گئی بلکہ ایک بڑی عمدہ یادگار کتاب بھی شائع کی گئی۔ نام تھاAcross Time and Continents ۔ یہ VK کی تحریروں کا انتخاب تھا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ VKنے اُس دوست کو یہ خوشگوار فریضہ سونپا جو آگے چل کر بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکرٹری بنا۔ جب وہ اگلے جہان گئے ہوں گے تو لینن‘ ٹراٹسکی اور ماؤزے تنگ نے ان کا استقبال کیا ہوگا۔