خطابت کی معراج اور سیاسی گمنامی

خطابت کی تاریخ یونانی خطیب Demosthenes سے شروع ہو کر روم میں Cicero‘ امریکہ میں ابراہم لنکن‘ برطانیہ میں ایڈمنڈبرک اور ونسٹن چرچل‘ ہندوستان میں محمد علی جوہر‘ ابوالکلام آزاد‘ سبھاش چندر بوس اور بہادر یار جنگ سے ہوتی ہوئی پنجاب میں جماعت احرار کے قائدین تک پہنچی۔ احراری قائدین میں سب سے بڑے خطیب کا نام سید عطا اللہ شاہ بخاری تھا۔ اُن کی شہرت‘ خطابت میں کمال‘ الفاظ کی ادائیگی پر مکمل عبور‘ قرانی آیات اور اشعار کی برمحل ادائیگی کا اندازہ کرنا اُن لوگوں کیلئے بہت مشکل کام ہے جنہیں ان کی رات بھر جاری رہنے والی تقریرِ بے مثال سننے کا شرف حاصل نہ ہوا۔ بدقسمتی یہ سطور لکھنے والا بھی ان لوگوں میں شامل ہے۔ وجہ؟ میرے والد مرحوم سرکاری افسر تھے اور انہیں جماعت احرار سے ذرہ بھر ہمدردی نہ تھی۔ وہ انہیں نیک نیت مگر راہ سے ہٹے ہوئے سمجھتے تھے۔ وہ کبھی شاہ جی کی تقریر سننے نہ گئے اور اگر ہم دونوں بھائی اجازت مانگتے تو یقیناہمیں بھی نہ ملتی۔
مجلسِ احرار نے نچلے متوسط طبقہ کے اَن پڑھ یا کم تعلیم یافتہ افرادکو متاثرکیا۔ احراری ہندوستان کی آزادی کی خاطر جدوجہد کرتے ہوئے کانگریس کے حلیف اور مسلم لیگ کے حریف تھے۔ حالات کے اس بہتے ہوئے دریا کو سید عطا اللہ شاہ بخاری نے ایک کوزے میں بند کر دیا۔ اُن کا تاریخی جملہ تھا کہ لوگ نوکری کرتے ہیں انگریز کی‘ تقریر سنتے ہیں میری اور ووٹ دیتے ہیں مسلم لیگ کو۔ شاہ جی جب عملی زندگی سے کنارہ کش ہو کر ملتان میں رہنے لگے تو مجھے وہاں ان کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ اس ملاقات کی سبیل یوں بنی کہ پچاس کی دہائی کے وسط میں ایمرسن کالج میں ہونے والے بین الکلیاتی مباحثے میں شرکت کیلئے میں گورنمنٹ کالج لائل پور (فیصل آباد) کی اور اعجاز چشتی مرحوم اورینٹل کالج لاہور کی نمائندگی کرنے ایک ہی دن ملتان پہنچے۔ مباحثہ تو شام کو ہونا تھا۔ میزبانوں نے مہمان مقررین کو ایک ہی جگہ ٹھہرایا تھا۔ ہم ناشتے کیلئے اکٹھے ہوئے تو بھائی اعجاز صاحب میری پاس آئے کہ میں ناشتے کے بعد شاہ جی کو سلام کرنے جاؤں گا‘ کیا میرے ساتھ چلو گے؟ میں نے پوچھا: کون سے شاہ جی؟ اُنہوں نے بتایا تو میں فوراً تیار ہو گیا۔ جب ہم شاہ جی کے گھر پہنچے اور دستک دی تو ان کی بیٹھک میں بیٹھے ایک شخص نے اُٹھ کر دروازہ کھولا۔ ہم اندر داخل ہوئے۔ کمرہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا مگر مجھے پہلی نظر میں پتا چل گیا کہ شاہ جی کون ہیں۔ لگتا تھا ایک بوڑھا شیر بیٹھا ہوا ہے۔ چہرے پر جلال اور جمال‘ چار خانے کا تہمد باندھے فرش نشین۔ بھائی اعجاز نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کرایا اور میرا بھی۔ شاہ جی نے بیٹھے بیٹھے بڑے پیارا ور گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ تب مجھے اور بھائی اعجاز کو پہلی مرتبہ بہت قریب سے شاہ کی باتیں سننے اوران کے منہ سے پھول جھڑنے کا منظر دیکھنے کا موقع ملا۔ شاہ جی کی آواز کی گھن گرج 70 سال گزرجانے کے بعد بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔ دورانِ ملاقات شاہ جی لوگوں کے پوچھے ہوئے سوالوں کے جواب دیتے رہے۔ آخر میں میری اور بھائی اعجاز کی طرف دیکھا کہ آپ دونوں سارا وقت خاموش رہے‘ کیوں؟ بھائی اعجاز مصیبت کے وقت کام آئے۔ اُنہوں نے کہا: شاہ جی! ہم صرف آپ سے ملنے اور آپ کے ارشادات سننے آئے ہیں‘ مہربانی ہوگی اگر آپ ہم دونوں کے لیے دعا کریں۔ شاہ جی نے ہم دونوں کا نام پوچھا اور اپنی غلافی آنکھیں بند کرلیں اور خاموش ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں کھولیں اور کہا کہ میں نے آپ دونوں کے ہوتے ہی دعا مانگ لی۔ شام کو تقریر ی مقابلہ ہوا تو مجھے تیسرا اور بھائی اعجاز کو دوسرا انعام ملا۔ میں نے بھائی اعجاز سے کہا کہ ہم دونوں کو اتنی کمزور تقریر کے باوجود شاہ جی کی دعا کی بدولت انعامات ملے ہیں۔
نہ میں بے مثال نثر نگار مختار مسعود ہوں کہ جنہوں نے شاہ جی سے اپنی ملاقات کا جس عقیدت اور فصاحت سے ذکر کیا ہے وہ کسی اور کے بس میں نہیں۔ نہ میں جانباز میرزا ہوں جنہوں نے کاروانِ احرار کے نام سے آٹھ جلدوں میں اس جماعت کی مکمل تاریخ لکھی ہے۔یہ میرے اُوپر ایک قسم کا قرض تھا۔
عطا اللہ شاہ بخاری 1892ء میں صوبہ بہار کے شہر پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ دینی تعلیم مدرسوں میں حاصل کی اور ان کی تقاریر سے پتا چلتا ہے کہ ان کا ذاتی مطالعہ کتنا وسیع تھا۔ آواز اور شخصیت دونوں بہت شاندارتھیں۔ شاہ جی نے 69 برس عمر پا کر وفات پائی۔ اولیائے کرام کی سرزمین ملتان کی مٹی ان کی آخری آرام گاہ بنی۔جو شخص ساری عمر انگریزوں‘ مسلم لیگ اور قادیانیوں سے لڑتا رہا ‘وہ آخر تھک گیا اور سو گیا۔ پٹنہ میں پرورش ہونے کے باوجود شاہ جی کا اردو زبان پر عبور تو سمجھ میں آتا ہے مگر انہوں نے اتنی فصیح پنجابی اور سرائیکی زبانیں کس طرح سیکھ لیں‘ جبکہ وہ نہ سکول گئے اور نہ کالج۔شاہ جی دس سال کی عمر تک قرآن حفظ کر چکے تھے‘ بلکہ فارسی زبان میں شعر بھی کہتے تھے۔ یقینایہ کلاسیکی زبان بھی شاہ جی نے خود ہی سیکھی ہوگی۔ شاہ جی برٹش راج کے سخت خلاف تھے۔ اس لیے وہ اُن کے خلاف تقاریر کرنے کے جرم میں کئی دفعہ جیل گئے۔ شاہ جی اور مجلسِ احرار نے اپنی تقاریر میں ہمیشہ ڈٹ کر قادیانیوں کی مخالفت کی لیکن احراریوں کی یہ بھرپور مخالفت بھی کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکی۔ بھٹو صاحب کی حکومت اور اس وقت کی قومی اسمبلی نے جس طرح قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا‘ اس کا سہرا مجلسِ احرار کے سر نہیں باندھا جا سکتا۔
مجلس احرار کی بنیاد 1929ء میں دریائے راوی کے کنارے ایک بڑے جلسے میں رکھی گئی تھی۔ اس جماعت نے تحریک خلافت کی راکھ سے جنم لیا تھا۔ بدقسمتی سے احراری خاصے رجعت پسند تھے اور مسلم لیگ کے مسلم قومیت کے نعرے کی تائید کرنے سے بھی قاصر تھے۔ احراریوں نے 1945ء کے تاریخی انتخابات میں جوش و خروش سے حصہ لیا۔ غالباً 38 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے مگر وہ سب مسلم لیگی امیدواروں سے ہار گئے۔ پاکستان بننے کے بعد مجلس احرار نے 1948ء میں لاہور میں ایک بڑی کانفرنس میں اعلان کیا کہ ہم نے پوری دیانت داری سے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی مگر عوام کے فیصلہ کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں‘ پاکستان کو قبول کرتے ہیں اور اس سے وفاداری کا حلف اُٹھاتے ہیں۔ ہماری سیاست ناکام ہوئی‘ ہم مجلس احرار کو بطور سیاسی جماعت ختم کر تے ہیں اور آج کے بعد صرف دینی کام کریں گے۔
مجلس احرار کی سامراج دشمنی کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہوگی۔ اس کے تمام رہنما بار بار گرفتار ہوئے اور سالہا سال جیلوں میں قیدی بنا کر رکھے گئے‘ جہاں ان پر ہر قسم کی سختی کی جاتی تھی مگر یہ بہادر لوگ نہ بکے اور نہ جھکے۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ان کے جلسہ گاہوں کے باہر ایک ٹکٹ گھر ہوتا تھا اور ہزاروں لوگ قطار میں کھڑے ہوکر ٹکٹ خریدتے تھے۔ جب شاہ جی کی باری آتی تھی تو قناتیں ہٹا دی جاتی تھیں تاکہ وہ لوگ جو ٹکٹ نہیں خرید سکتے‘ وہ بھی ان کا سحرا نگیز خطاب سن لیں۔ مجلس احرار نے نہ کوئی اخبار شائع کیا‘ نہ کوئی کتاب۔ نہ کوئی تعلیمی ادارہ قائم کیا اور نہ کوئی شفاخانہ۔ خدمت خلق کا بھی کوئی بڑا منصوبہ اس کے ریکارڈ پر نہیں ہے۔ صرف اپنی شعلہ بیانی پر تکیہ کیا۔ سرخ قمیص‘ خاکی شلوار اور کندھے پر کلہاڑی احراری رضا کاروں کی وردی تھی۔ ہوش کے بجائے جوش سے کام لینے والوں پر مجلس احرار کی اجارہ داری نہ تھی۔ 1945ء میں زمیندار کے مدیر مولانا ظفر علی خان کی سرکردگی میں بنائی گئی مجلس اتحادِ ملت مجلسِ احرار کی پیش رُو اور ہم عصر تھی۔ سیکھنے کی بات یہ ہے کہ عطا اللہ شاہ بخاری ہوں یا علامہ مشرقی‘ جو بھی تاریخ کی بہتی ہوئی ندی کے غلط سمت چلے گا‘ وہ اپنا نقش قائم نہ رکھ سکے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں