سب کہتے ہیں ‘ اس بار کچھ اور ہی ہونے والا ہے۔سوائے ان لیڈروں کے‘ جو وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصّہ لے رہے ہیں۔ سب کا اپنا اپنا وزیراعظم ہے اور جس سے بھی پوچھیے ‘وہ اپنے ہی وزیراعظم کو حلف اٹھوانے پرتُلا ہُوا ہے۔چند ایک پارٹیاںدن میں خواب دیکھنے سے محفوظ ہیں۔ جیسے اے این پی۔ وہ اتنی مرنجاں مرنج پارٹی ہے کہ اس نے وزارتِ عظمیٰ کے لئے اپنا کوئی امیدوار ہی پیش نہیں کیا۔ اپنے صوبے میں بیٹھی آرام سے نسوار کھاتی ہے۔ دائو لگا تو وزارتِ اعلیٰ لے لیتی ہے۔ ورنہ کسی دوسرے کو بلا کر کہتی ہے ’’وزارتِ اعلیٰ تم لے لو۔ نسوار کی ڈبیا ہمیں دے دو۔‘‘ اے این پی کے برعکس ہمارے محترم مولانا فضل الرحمن لگی لپٹی نہیں رکھتے۔ پہلی بار جب مولانا وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار بنے‘ تو کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ ہر کسی کا خیال تھا کہ وہ درویش صفت عالم دین ‘ جن کی پارٹی قومی اسمبلی میں کبھی اکثریت حاصل نہیں کر سکتی‘ اس کا لیڈر وزیراعظم کیسے بنے گا؟ جب مولانا کو پتہ چلا کہ ان کے اپنے ہی دوست ‘ ان کی وزارت عظمیٰ کے بارے میں بے پر کی اڑا رہے ہیں‘ تو انہوں نے اپنے ایک صحافی دوست کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر پہ چند سینئرصحافیوں کو جمع کرے اور انہیں اس موضوع پر دعوت سخن دے کہ ’’مولانا وزیراعظم کیوں نہیں بن سکتے؟‘‘ مولانا کی نیازمندی میں‘ اس دوست نے حکم کی تعمیل کی اور اسلام آباد کے سینئر صحافیوں کو اپنے گھر مدعو کر لیا۔ رسمی گفتگو کے بعد میزبان نے حاضرین کے سامنے سوال رکھا کہ ’’مولانا وزیراعظم کیوں نہیں بن سکتے؟‘‘ جب یہ سوال مولانا کی طرف سرکایا گیا‘ تو وہ کچھ زیادہ ہی بھرے ہوئے نظر آئے اور پھر تاریخ‘ جغرافیہ‘ حساب‘ معاشیات‘ طبعیات‘ عمرانیات‘ الجبرا‘ فلسفہ‘ منطق‘ تاریخ‘ غرض جتنے بھی علوم کی مدد وہ لے سکتے تھے‘ ان سب سے استفادہ کرتے ہوئے ‘ انہوں نے دلائل کے انبار لگا دیئے۔ علم کے ہر ذخیرے کی چھان بین سے وہ‘ دلائل کے جو موتی ڈھونڈ کے لاتے‘ ان کی چکاچوند سب کو خیرہ کر دیتی۔ علم و منطق کی پے درپے یلغاروں کے سامنے صحافی حضرات لاجواب ہو گئے اور سب کو قائل ہونا پڑا کہ ’’مولانا یقینا وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ سیاسی سُوجھ بُوجھ میں اس وقت ہمارے درمیان ان کی ٹکر کا کوئی لیڈر موجود نہیں۔ معاملات کو سمجھنے‘ ان کا تجزیہ کرنے اور ٹھنڈے دل و دماغ سے فیصلے کرنے کی جو صلاحیت مولانا میں ہے‘ وہ کسی دوسرے میں نہیں۔ صرف ان کی وضع قطع اور لباس کو دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ مولانا وزیراعظم نہیں بن سکتے۔‘‘ ایسے ماحول میں جب ہر کوئی اپنا اپنا وزیراعظم لے کر سیاست کے بازار مصر میں نکلا ہوا ہے‘ میں بھی نہایت عاجزی اور ادب کے ساتھ اپنا وزیراعظم پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں اور میرے وزیراعظم ہیں مولانا فضل الرحمن خان۔ جمہوریت میں کوئی بھی عہدہ موروثی نہیں ہوتا اور نہ ہی انتخابی نتائج کی پیش گوئی کرنا آسان ہوتا ہے۔ جب بی جے پی 1998ء میں زیادہ نشستوں پر جیت گئی اور اسے نظر آیا کہ وہ مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اور اس کے پاس واجپائی جیسی شخصیت بھی موجود ہے‘ جس کے لئے حمایت حاصل کرنا مشکل نہیں‘ تو وہ حکومت سازی کی دوڑ میں شامل ہو گئی۔ واجپائی ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیراعظم بن گئے۔ پاکستان میں ایسا کوئی واقعہ مجھے یاد نہیں۔ آئندہ انتخابات ہو گئے‘ تو یہ بات سب مانتے ہیں کہ کوئی ایک پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی۔ دو بڑی پارٹیاں جو مل کر حکومت کرنے کے قابل ہو سکتی ہیں‘ ان میں وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہیں ہو سکتا اور تیسری کوئی جماعت ایسی نہیں‘ جو وزارتِ عظمیٰ کے لئے درکار ممبروں میں اتنا حصّہ ڈال سکے‘ جو وزارتِ عظمیٰ حاصل کرنے کے لئے کافی ہو۔ ایسی صورت میں وہی لیڈر وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ سکتا ہے‘ جو سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مولانا فضل الرحمن نے آج ثابت کر دکھایا کہ وہ تمام جماعتی سربراہوں کو اپنی دعوت پر یکجا کر سکتے ہیں۔ ان کی بلائی ہوئی کانفرنس میں دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہ یعنی نوازشریف اور مخدوم امین فہیم موجود تھے۔ اے این پی کی صف اول کی قیادت بھی آئی ہوئی تھی۔ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ بھی موجود تھے۔ جماعتِ اسلامی کے قائدین بھی نظر آ رہے تھے اور اگر آپ ریزگاری کی طرف جائیں‘ تو ہمارے محترم شیخ رشید صاحب بھی قہقہے بکھیرتے نظر آ رہے تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی رونق افروز تھے۔ میں نے ابھی ابھی ٹی وی پر آل پارٹیز کانفرنس کی ایک جھلک دیکھتے ہوئے‘ جتنے چہرے یاد رکھ سکا ان کے نام لکھ دیے ہیں‘ باقی نام کل کے اخبار میں پڑھ لیجیے۔ میں اپنے امیدوار کے حق میں درحقیقت یہ دلیل دینا چاہتا ہوں کہ مولانا کے گھر پہ کسی کے لئے یہ نہیں لکھا کہ ’’داخلہ ممنوع ہے‘‘۔ وہ سب سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے ہیں۔ سب کی سنتے ہیں۔ سب کو جواب دیتے ہیں اور کسی بات پر مشتعل نہیں ہوتے اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اراکینِ اسمبلی کو خوش کرنے کی ساری ترکیبیں جانتے ہیں۔ کیونکہ انہیں مخلوط حکومت میں رہنے کا تجربہ ہے اور انہیں علم ہے کہ کولیشن میں اتحادیوں کو خوش کس طرح رکھا جا سکتا ہے؟ جہاں تک دو بڑی پارٹیوں کا تعلق ہے‘ ان میں آصف زرداری نے اگر ضرورت سمجھی‘ تو وہ مولانا کی وزارتِ عظمیٰ پر بلاجھجک اتفاق کر لیں گے۔جس لیڈر کو اپنی جماعت سے دو وزرائے اعظم چُننے کا تجربہ ہے‘ وہ اپنی پارٹی میں سے نیا وزیراعظم منتخب کرتے ہوئے ہزار مرتبہ سوچے گا۔ رہ گئے نوازشریف‘ تو ان کے لئے یہ فیصلہ ذرا کٹھن ہو گا۔ مگر ان کے مزاج کو دیکھا جائے‘ تو امید پیدا ہوتی ہے کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ اپنے گھر آتی دکھائی نہ دی تو وہ بھی مولانا فضل الرحمن کی حمایت پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ نوازشریف کولیشن حکومت کی سربراہی نہیں کر سکتے اور اپنے گھر میں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لئے انہوں نے جس کا انتخاب کر رکھا ہے‘ فی الحال اس کا وزیراعلیٰ بننا ہی کافی ہو گا۔ روایت کو دیکھیں‘ تو بے نظیربھٹو 36 سال کی عمر میں وزیراعظم بن گئی تھیں۔ جس امیدوار کو مسلم لیگ (ن)‘ ق لیگ‘ پیپلزپارٹی‘ اے این پی اور جھونگے میں شیخ رشید کی حمایت مل جائے‘ اسے وزیراعظم بننے سے کون روک سکتا ہے؟ رہ گئی ایم کیو ایم‘ تو اس کے لیے ہر کابینہ میں دو چار کرسیاں لگ جاتی ہیں۔مجھ سے یہ مت پوچھیے کہ میں نے مولانا کو وزارت عظمیٰ کے لئے کیوں پسند کیا؟ یہ جو گلی گلی ‘ اپنے اپنے چھابے میں وزیراعظم اُٹھائے پھر رہے ہیں‘ ان سے کسی نے پوچھا؟