انتخابی مہم کے دوران کیسے کیسے نعرے سامنے آئے؟ ہر جماعت کسی نہ کسی انداز میں تبدیلی کی خبریں سنا رہی تھی۔ تحریک انصاف نے تو نعرہ ہی تبدیلی کو بنا لیا تھا۔ عوام اپنا فیصلہ دے چکے۔ مگر وہ فیصلہ تھا کیا؟ اور کہاں گیا؟ اس کا کچھ پتہ نہیں چل پایا۔ یہی جستجو‘ نئے جمہوری دور کی بنیادوں میں رکھے گئے بارود کا کام دے گی۔ یہ کام کب لیا جائے گا؟ مجھے اس کا ہرگز اندازہ نہیں۔ جیسے میں یہ اندازہ بھی نہیں کر پایا کہ وہ کونسا نسخہ کیمیا ہے؟ جس کے زیراثر ہر جماعت نتائج کو تسلیم بھی کر رہی ہے اور دھاندلی کا شور بھی مچا رہی ہے۔ اگر تمام شور مچانے والوں کے الزامات کو درست تسلیم کر لیا جائے‘ تو حالیہ انتخابات میں اس سے کہیں زیادہ دھاندلی ہوئی ہے‘ جس کا 1977ء میں الزام لگایا گیا تھا۔ یاددہانی کے لئے عرض ہے کہ تب ابتدا میں صرف 21 نشستوں پر انتخابی نتائج قبول نہیں کئے گئے تھے۔ لیکن بڑھتے بڑھتے بات ازسرنو انتخابات تک جا پہنچی۔ تمام سیاسی جماعتوں میں اس پر اتفاق ہو گیا کہ انتخابات دوبارہ منعقد کرائے جائیں گے۔ اس کے باوجود جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد ہم ابھی تک اس بااختیار جمہوریت کو دوبارہ نہیں دیکھ پائے‘ جو ہم نے 1977ء میں گنوا دی تھی۔ حالیہ انتخابی نتائج حاصل کرنے کا نقشہ‘ جس نے بھی تیار کیا‘ اس کی ذہانت کی داد دینا پڑتی ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کا جس طرح ریٹرننگ افسروں کے دفاتر میں مضحکہ اڑایا گیا‘ ان سے پول کھولنے والے سوالات کئے گئے اور نجی نوعیت کی باتیں پوچھی گئیں‘ وہ اتفاقیہ نہیں تھیں۔ ان میں یہ مقصد پنہاں تھا کہ جو لوگ بڑے معزز بن کر منتخب اداروں میں قانون سازی اور حکومت کرنے کے لئے جا رہے ہیں‘ ان کی وقعت کیا ہے؟ چند ایک ممتاز شخصیات کو چھوڑ کر‘ ہر ممکنہ رکن اسمبلی کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا۔ یہ سب کچھ اتنے اہتمام سے ہوا کہ اسے غیرارادی کہنا سادگی ہو گا۔ ایسے کام غیری ارادی طور پہ نہیں کئے جاتے۔ سچی بات ہے میرا ماتھا اسی وقت ٹھنک گیا تھا کہ یہ جمہوریت کی خدمت نہیں ہو رہی‘ اس کی بے آبروئی کی جا رہی ہے اور اس کے بعد الیکشن والے دن جو کچھ ہوا‘ اسے بھی اتفاقیہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کراچی جیسے شہر میں پولنگ ایجنٹس اور بیلٹ پیپرز کے پیکٹ وقت پر نہ پہنچائے جا سکیں؟ 21ویں صدی میں جدیدترین سہولیات سے لیس‘ الیکشن کمیشن متعدد پولنگ اسٹیشنوں پر چھ چھ گھنٹے ووٹنگ شروع نہ کراسکے۔ جو نتائج برآمد ہوں‘ ان پر شکوک و شبہات کی گنجائشیں اتنی زیادہ ہوں کہ محض غلطی سے یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا۔ غلطیاں کہیں کہیں اور کبھی کبھار ہوتی ہیں۔ انتخابی نتائج پورے ملک میں آٹھ دس یا بیس حلقوں میں متنازعہ ہو سکتے ہیں۔ یہاں تو ہر جماعت درجنوں حلقوں میں انتخابی نتائج کو متنازعہ قرار دے رہی ہے۔صرف تحریک انصاف 25 حلقوں میں دھاندلی کا الزام لگاتی ہے۔ پیپلزپارٹی پورے ملک میں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے۔ امرواقع بھی یہ ہے کہ اس کے بعض ایسے امیدوار شکست سے دوچار ہوئے ‘ جن کا ہارنا مخالفین کے لئے بھی باعث حیرت ہے۔ ثمینہ خالد گھرکی کے بارے میں خود ن لیگ کے لیڈر بھی مانتے تھے کہ انہیں ہرایا نہیں جا سکتا۔قمرزمان کائرہ‘ نذر گوندل‘ ندیم افضل چن ہارنے والے امیدواروں میں نہیں گنے جاتے تھے۔ اسی طرح بلوچستان کے انتخابی نتائج پر تو سبھی کو اعتراض ہے۔ قومی اسمبلی کے اراکین سینکڑوں میں ووٹ لے کر منتخب ہو گئے۔ یہ سارا کھیل تماشا‘ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے نہیں‘ اس کی بنیادوں میں بارود رکھنے کے لئے رچایا گیا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ دھاندلی کا شور بھی سب مچا رہے ہیں‘ اس کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا بھی کوئی نام نہیں لے رہا۔ یوں لگتا ہے‘ سب کو ڈرا دیا گیا ہے۔ کچھ زیادہ ہی ڈر گئے‘ جو پیپلزپارٹی کی طرح دم سادھے بیٹھے ہیں۔ دبی زبان میں دھاندلی دھاندلی کی سرگوشیاں ضرور کر رہے ہیں لیکن احتجاج کے لئے نکلنے سے گریزاں ہیں۔ عمران خان بہادر لیڈر گنے جاتے ہیں۔ لیکن 25نشستوں پر دھاندلی کا الزام لگا کر بھی‘ وہ کر کیا رہے ہیں؟ 5 حلقوں میں انتخابی عذرداریاں۔ وہ بھی نمونے کے طور پر اس شرط کے ساتھ کہ اگر ان پانچوں میں دھاندلی کے الزامات درست ہو گئے‘ تو پھر باقی 20 حلقوں میں بھی دوبارہ ووٹ شماری کرائی جائے۔ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات دیکھ کر تصدیق کی جائے کہ ووٹ ڈالنے والا اصلی تھا یا جعلی؟ ادھر تصدیقی عمل کا ریٹ اتنا کر دیا گیا ہے کہ کوئی بھی امیدوار‘ جو اسمبلی میں جا کر لوٹ مار کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو‘ جیب سے اتنی رقم خرچ نہیں کر سکتا۔ خصوصاً عمران خان کی پارٹی کے لوگ یہ جوا کھیلنے پر تیار نہیں ہوں گے۔ تحریک انصاف کی قیادت میں کم و بیش اس امر پہ اتفاق ہے کہ ان کے ساتھ بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ جاویدہاشمی نے تو یہاں تک کہا کہ’’ اگر میں ریٹرننگ افسر کے کمرے میں نہ بیٹھا رہتا‘ تو مجھے بھی ہرا دیا جاتا۔‘‘ فاٹا‘ بلوچستان اور کراچی میں استعمال شدہ اور سادہ بیلٹ پیپرز‘ کوڑے کے ڈھیروں میں پڑے دکھائی دیئے اور یہ سب کچھ میڈیا پر آبھی گیا۔ ایسے ایسے مناظر دیکھنے میں آئے کہ بیلٹ پیپرز کی پوری پوری بک پر‘ دھڑا دھڑ ٹھپے لگائے جا رہے تھے۔ کہیں فرش پر بیٹھے رضاکار‘ بیلٹ پیپرز پر مہریں لگاتے دکھائے گئے۔ یہ سارے مناظر ریکارڈ کاحصہ بن چکے ہیں۔ یہی وہ بارود کا ڈھیر ہے‘ جسے بوقت ضرورت چنگاری دکھائی جائے گی۔ وہ چنگاری دکھانے کا وقت کب آئے گا؟ اس کا فیصلہ وہی قوتیں کریں گی‘ جنہوں نے یہ سارا انتظام کیا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ جمہوریت مستحکم ہونے جا رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت اس مرتبہ جس طرح شاخ نازک پہ بیٹھی ہے‘ ایسے کبھی نہیں تھی۔ گزشتہ روز میں نے ڈاکٹرمبشرحسن کا حوالہ دیتے ہوئے یونہی نہیں لکھ دیا تھا کہ نوازشریف کو وزیراعظم نہیں بننا چاہیے۔ ان کے سامنے ایسے پیچیدہ مسائل ہیں‘ جنہیں حل کرنے کے لئے نہ وسائل دستیاب ہیں اور نہ امکانات نظر آ رہے ہیں۔ مالی وسائل اندرون ملک قابو سے باہر ہیں۔ جن طاقتور لوگوں نے کالادھن سمیٹ رکھا ہے‘ ریاست کی طاقت‘ ان کے سامنے بے بس ہے۔ ہر دور میں ریاست نے کالے دھن پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی اور ناکام رہی۔ کبھی بھرپور عوامی مینڈیٹ رکھنے والی حکومت نے کارروائی کی‘ تو کبھی مسلح افواج کی طاقت کے ساتھ کالے دھن پر ہاتھ ڈالا۔ لیکن ناکامی ہر ایک کا مقدر بنی۔ نوازشریف کے پاس ایسی نئی طاقت کونسی آ گئی ہے؟ جسے استعمال کر کے‘ وہ داخلی طور پر مطلوبہ سرمایہ اکٹھا کر لیں گے؟ پیسہ انہیں بہرحال عالمی مالیاتی اداروں سے مانگنا پڑے گا۔ حد یہ ہے کہ سعودی عرب جس کے بارے میں ہمیں خوش گمانی ہے کہ وہ نوازشریف کی وجہ سے پاکستان کو خصوصی مراعات مہیا کر دے گا‘ وہ بھی ڈالر اور ریال یونہی نہیں پھینکتا پھرتا۔ وہ کہیں بھی سرمایہ لگانے سے پہلے مطلوبہ تحفظات کا بندوبست کرتا ہے۔ پاکستان کو کچھ بھی دینے سے پہلے وہ عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹ ضرور مانگے گا اور اس رپورٹ یا رپورٹوں میں کیا لکھا ہو گا؟ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ دہشت گردوں کی سرگرمیاں روکنے کا مسئلہ بھی اسی طرح کا ہے۔ نوازشریف ‘ ان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ پاک فوج ان کے ہاتھوں بھاری نقصانات اٹھا چکی ہے۔ فوج کے افسر اور جوان‘ اپنے خون کو نہیں بھولتے اور نہ ہی دنیا کی کوئی فوج ایسا کر سکتی ہے کہ جس دشمن نے ‘ اس کے جوانوں کی گردنیں کاٹی ہوں‘ اس کے ساتھ صلح کے مذاکرات کئے جائیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ دنیا بھر میں کہیں بھی مذاکرات سے ختم نہیں ہوئی۔ اس میں صرف فتح ہوتی ہے یا مسلسل تباہی۔ بھارت میں نکسلی 35 سال سے لڑ رہے ہیں۔ بھارت اپنی تمام تر فوجی طاقت کے باوجود فتح حاصل نہیں کر سکا اور نہ ہی کبھی مذاکرات کامیاب ہوئے ہیں۔ جنگ ہے جو مسلسل جاری ہے۔ سری لنکا کی جنگ ‘دہشت گردوں کی مکمل شکست پر ختم ہوئی۔ سعودی عرب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کے امن حاصل کیا۔ روس ابھی تک چیچنیا میں لڑ رہا ہے۔ اس جنگ کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا۔ امن جب بھی ہو گا‘ دہشت گردوں کی مکمل شکست کے بعد ہو گا۔ (جاری)