ابھی تک پاکستانی طالبان کی عملداری کچھ قبائلی علاقوں تک محدود تھی۔ باقی پاکستان میں ان کی سرگرمیاں چھاپہ مار طریق جنگ کے تحت ہوا کرتی تھیں۔ یعنی وہ پاکستان کے اندر خفیہ طور پر چندے جمع کرتے۔ کمیونیکیشن نیٹ ورک چلاتے‘ جس کے ذریعے وہ مختلف علاقوں میں اپنے آپریشنز کے منصوبے بناتے ۔ ٹارگٹ کا انتخاب کرتے۔ اغوا برائے تاوان کا نظام چلاتے اور بھرتی کے لئے افرادی قوت حاصل کرتے۔ ان میں سے کوئی بھی کام ایسا نہیں تھا‘ جس سے پتہ چلتا کہ وہ پاکستان کے اندر اپنی تنظیم کو پھیلا رہے ہیں۔ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ مساجد اور مدرسوں کے ذریعے انہیں ایک بہت بڑا بیس کیمپ مل چکا ہے‘ جو خفیہ یا بالواسطہ طور پر ان کے لئے کام کرتا ہے۔ لیکن وہ خود پاکستان کی شہری اور سماجی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ لیکن کل کا ایک واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اب وہ پاکستان کی شہری اور عوامی زندگی میں دخل اندازی شروع کر چکے ہیں اور ہمارے گلی محلوں کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق بدلنے کی اہلیت ظاہر کرنے لگے ہیں۔ جس کی غالباً پہلی مثال یہ ہے کہ لاہور شہر کے ایک علاقے میں ایک مسجد کے قریب مرغی منڈی قائم ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ہماری ہر مارکیٹ‘ بازار اور تجارتی مراکز میں مساجد موجود ہیں اور جس علاقے میں جس قسم کا کاروبار ہوتا ہے‘ وہ مساجد کے اردگرد بھی جاری رہتا ہے اور بہت سی مسجدیں ایسی ہیں‘ جن کی نچلی منزل میں مارکیٹیں پائی جاتی ہیں اور اوپر کی منزل پر مساجد ہوتی ہیں۔ گویا ایک ہی عمارت کے اندر دکانیں بھی ہیں اور مسجد بھی ہے۔ جس مسجد کا میں نے ذکر کیا‘ وہاں مرغی منڈی ‘ مسجد کے احاطے سے باہر ہے۔ گزشتہ روز وہاں کے دکانداروں کو طالبان کی طرف سے حکم آیا کہ وہ اپنی دکانیں وہاں سے ہٹا دیں۔ کیونکہ ان کی وہاں موجودگی سے مسجد کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ بظاہر یہ معمولی واقعہ ہے۔ لیکن یہ سمندر کی تہہ میں چھپے ہوئے گلیشیئر کا صرف ایک کونہ ہے‘ جو سطح آب سے اوپر آ گیا۔ جو گلیشیئر ابھی نظروں سے پوشیدہ ہے‘ و ہ ہے طالبان کے حامیوں اور ان کے زیراثر کام کرنے والوں کی بھاری تعداد۔ پاکستان کے بیشتر شہروں حتیٰ کہ دیہات تک میں قبائلی علاقوں اور سوات سے تعلق رکھنے والے امام مسجد کثرت سے موجود ہیں۔ ان سب کے نظریات طالبان سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ان کی اکثریت طالبان کے تصورات کی قائل اور انہیں پھیلانے میں مصروف رہتی ہے۔ جمعہ کے خطبات میں عموماً انہی نظریات کا پرچار کیا جاتا ہے‘ جو طالبان کے ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستانی حکومت اور انتظامیہ کے خلاف کھل کر باتیں کی جاتی ہیں۔ بظاہران سارے لوگوں کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں۔ لیکن عملی طور پر وہ ایک منظم قوت کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ جب بھی کوئی اہم واقعہ ہوتا ہے‘ تو آپ پورے ملک کی مساجد میں ہونے والے خطبوں کا جائزہ لے کر دیکھ لیجئے‘ ایک ہی مسلک کی مساجد میں عموماً ایک ہی موضوع پر‘ ایک ہی جیسے خطبے دیئے جا رہے ہوتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی نادیدہ رابطہ کاری کا نظام یقینی طور پر کام کر رہا ہے۔ ایسی باتیں ازخود نہیں ہوا کرتیں۔ پاکستان کی انتظامیہ اور سیاسی قیادت نے ان عوامل اور محرکات کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ رکھا ہے‘ جو دہشت گردی اور انتہاپسندی کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اہلیت اور معیارکارکردگی ایک ہی جگہ پر ٹھہرا ہوا ہے۔ جبکہ طالبان روزبروز اپنی حمایت اور اہلیت میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ گوریلا جنگ کی نئی تکنیک اور عوامی رابطوں کا آن لائن استعمال‘ انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ بہتر بنا رہا ہے۔ جب سے آل پارٹیز کانفرنس نے طالبان کو سٹیک ہولڈرقرار دیتے ہوئے ‘ حکومت کے مقابل ایک فریق تسلیم کیا ہے‘ ان کی سودے بازی کی طاقت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ مذاکرات کے لئے جس طرح کی شرائط وہ سامنے لا رہے ہیں‘ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کو میدان جنگ میں اس کی کمزوری تصور کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سٹریٹجک برتری حاصل کرتے جا رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجوہ میں سے چند یہ ہیں۔ قبائلی علاقوں میں ان کے پاس محفوظ ٹھکانے موجود ہیں۔ جہاں وہ اپنے تربیتی کیمپ چلاتے ہیں اور پاکستانی فورسز ‘ ان کیمپوں کا صفایا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ گوریلا جنگ میں تیزرفتار حرکت اور مورچے بدلنے کی رفتار‘ تیز ہوتی ہے۔ جبکہ ریگولر فورسز کی نقل و حرکت ‘ اس کے بھاری اسلحہ اورٹرانسپورٹ کی بنا پر سست رفتار رہتی ہے۔ طالبان تیزرفتار نقل و حرکت کی وجہ سے‘ فورسز کو وسیع علاقے میں مصروف رکھتے ہیں۔ وہ جب اور جہاں چاہیں‘ نمودار ہو کے فورسز کو ایک جھڑپ میں مصروف کرتے ہیں اور تھوڑے ہی وقفے کے بعد کسی اور جگہ پہنچ کر محاذ کھول دیتے ہیں۔ اس طرزجنگ میں فورسز کا بہت بڑا حصہ برسرجنگ رہتا ہے۔ جبکہ طالبان تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود تیزرفتار نقل و حرکت کے زور پہ بہت بڑے علاقے میں کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ان کے پاس وسائل کی بھی کمی نہیں۔ پاک فوج کا ایک مقررہ بجٹ ہوتا ہے۔ فنڈز محدود ہوتے ہیں اور اسلحہ روایتی ہے۔ جبکہ دہشت گردوں کے پاس دولت کی فراوانی ہے۔ انہیں خلیج کی ریاستوں سے وافر سرمایہ پہنچتا ہے۔ مجرمانہ سرگرمیوں سے آمدنی ہوتی ہے۔ جیسے اغوا برائے تاوان اور افیون کی تجارت وغیرہ اور پاکستان کے مالدار طبقوں سے انہیں بھاری چندے ملتے ہیں۔ زکوٰۃ‘ فطرانہ اور قربانی کی کھالیں‘مختلف تنظیمیں جمع کرتی ہیں۔ لیکن آخر کار ان سب کا پیسہ کسی نہ کسی راستے سے ‘ طالبان تک پہنچ جاتا ہے۔ طالبان کے پاس جو اسلحہ ہے‘ وہ ہماری فوج کے مقابلے میں زیادہ جدید اور کارآمد ہے۔ وہ اپنے آپریشنز کے منصوبے زیادہ مہارت اور چالاکی سے تیار کرتے ہیں ۔ ان دونوںکا مظاہرہ ڈیرہ اسماعیل خان کے جیل آپریشن میں دیکھا گیا۔ وہاں انہوں نے راکٹ کے ذریعے ایسے گرنیڈ چلائے‘ جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بھاری ٹرکوں اور بکتر بند گاڑیوںکے پرخچے اڑا گئے۔ یہ گاڑیاں‘ جیل اتھارٹیز نے رکاوٹوں کے طور پر کھڑی کر رکھی تھیں۔ ریموٹ کنٹرول ‘دھماکہ خیز ڈیوائسز استعمال کی گئیں اور منی ایچر آئی ای ڈیز‘ جیل کے تالے توڑنے کے لئے استعمال کئے گئے۔ سول فورسز ‘عام جرائم جیسے چوری‘ ڈاکہ‘ قتل کے مجرموں کو پکڑنے کے لئے ہوتی ہیں۔ جبکہ طالبان ‘ تربیت یافتہ فوجیوں سے بھی زیادہ جدید ٹیکنیکس کے ماہر ہوتے ہیں اور انہیں چیچنیا‘ ازبکستان اور تاجکستان کے ماہر جنگجوئوں کی مدد بھی حاصل ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے انہیں‘ پاکستانی عوام کے ایک بڑے حصے کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے۔ خصوصاً فرقہ ورانہ نسبت سے۔ ایسی حمایت حکومت پاکستان اور اس کے احکام پر کام کرنے والے ملازمین کو حاصل نہیں ہوتی۔ ملک کے تعلیم یافتہ طبقوں میں بھی ان کے ہمدرد پائے جاتے ہیں۔ طالبان کے ٹارگٹ چھوٹے اور محدود ہوتے ہیں۔ وہ اپنے چنے ہوئے مقام پر حملہ کر کے نکل بھاگتے ہیں۔ جبکہ سیکورٹی فورسز کو ایک پھیلے ہوئے میدان جنگ میں کارروائی کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے اور اس کے پاس پہل کا موقع بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ طالبان کے ٹھکانے متحرک رہتے ہیں۔ پہل کا موقعہ ہمیشہ طالبان کو ملتا ہے اور سکیورٹی فورسز پر ہونے والا ہر حملہ اچانک ہوتا ہے۔ طالبان کے غیرملکی ساتھی صرف محاذوں پر حرکت میں آتے ہیں جبکہ پاکستانی طالبان ہماری آبادیوںمیں جہاں چاہیںقیام کرتے ہیں۔ عام لوگوں میں گھلے ملے رہتے ہیں۔ کوئی انہیں پہچان نہیں سکتا۔ پچھلے چند روز میں طالبان کو لاہور‘ کراچی‘ راولپنڈی اور ملتان میں پکڑا گیا‘ جہاں وہ اطمینان سے چھپے ہوئے تھے۔ حکومت پاکستان مذاکرات کی امید میں‘ جنگی تیاریوں پر توجہ مرکوز نہیں کر پائی۔ جبکہ طالبان مذاکرات کی شرائط اور طریقہ کار پر معاملات کو جہاں تک ہو سکا طول دیں گے اور اپنی تیاریوں میں اضافہ کرتے جائیں گے۔ اس دوران وہ پاکستان کے اندر بھی آپریشن شروع کرنے کے انتظامات کریں گے۔ ملک میں ضیاالحق کے زمانے سے جو مذہبی فضا بنائی گئی ہے‘ وہ طالبان کا ہتھیار ثابت ہو گی اور ہو سکتا ہے ‘ وہ عوامی حمایت حاصل کر کے‘ پاکستان پر اپنا کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ حکومت پاکستان کو حالات کی اس نوعیت کا شاید اندازہ نہیں۔ وہ ابھی تک طالبان سے مذاکرات میں کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے یا لڑائی کے ذریعے۔ تیسرا پہلو اس کی نظر میں نہیں۔ یہی فکرمندی کی بات ہے۔