اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران‘ پاک امریکہ تعلقات میں جو سردمہری اور بیگانگی دکھائی دے رہی تھی‘ آج واشنگٹن کی فضا اس سے قطعی مختلف ہے۔ امریکی سفارتکار اور اعلیٰ عہدیدارریکارڈ پر آئے بغیر توقعات ظاہر کر رہے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف کے موجودہ دورہ واشنگٹن سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات جو 2011ء اور 2012ء میں سست روی اور بیگانگی کا شکار ہو گئے تھے‘ ان کی بحالی بڑی حد تک ممکن ہے۔2مئی 2011ء کو ایبٹ آباد آپریشن نے پاک امریکہ تعلقات میں دراڑیں ڈال دی تھیں، یہ آپریشن جسے امریکیوں نے اس وقت بہت بڑا کارنامہ قرار دے کر پاکستان کی فوجی قیادت کو مشکل میں ڈال دیا تھا پاکستانی معاشرہ اس حادثے کے بعد دہل کے رہ گیا تھا ۔جنرل کیانی کو خود اپنے رینکس کے اندر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک عالمی دہشت گرد کی پاکستان میں پراسرارموجودگی کا قصہ منظرعام پر آنے کے بعد‘ ہمارے ملک کی شدید بدنامی ہوئی۔ ان وجوہ کی بنا پر دوطرفہ تعلقات میں بدگمانی اور بدمزگی پیدا ہو گئی۔ اس کے بعد 26 نومبر 2011ء کو 2 امریکی ہیلی کاپٹروں نے پاکستان کی سلالہ چیک پوسٹ پر غیرمتوقع حملہ کر کے‘ ہمارے 24 افسروں اور جوانوں کو شہید کیا‘ اس کا ردعمل پاکستان میں بڑا شدید تھا ۔ مذکورہ دونوں واقعات کے نتیجے میں پاک امریکہ تعلقات کا معمول پر برقرار رہنا مشکل ہو گیا۔ دوسری طرف امریکہ نے بھی ضد اور ہٹ دھرمی پر اصرار شروع کر دیا۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بارے میں اب حقائق منظرعام پر آنے لگے ہیں۔ امریکہ کے انتہائی معتبر اور سینئر صحافی سیمور ہرش نے اپنی تازہ کتاب میں یہ انکشاف کر کے ہلچل پیدا کر دی ہے کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں موجود ہی نہیں تھا۔یہ سب اوباما انتظامیہ کا رچایا ہوا ڈرامہ تھا۔ حقیقت میں اسامہ بن لادن بہت پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا تھا ۔ امریکہ نے القاعدہ کے خلاف اپنی عالمی مہم کے اثرات سے جان چھڑانے کے لئے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی کہانی گھڑی۔ کیونکہ اس قصے کو مزید طول دینا بہت مشکل ہو گیا تھا۔اگر امریکی صحافی کا یہ انکشاف حقیقت پر مبنی ہے‘ تو پھر امریکہ کی ایبٹ آبادوالی واردات ایک دوست کے ساتھ بے رحمانہ دغا بازی قرار دی جا سکتی ہے۔ یہ دونوں زخم پاکستان کو لگے تھے۔ اس کے برعکس امریکہ ہٹ دھرمی سے پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزام تراشیاں کر کے‘ پاکستان کے ساتھ اپنی زیادتیوں کا جواز پیش کرتا رہا۔ بعد میں پیش آنے والے واقعات دوطرفہ بدمزگی میں مزید اضافے کا باعث بنے۔ امریکہ نے سلالہ چیک پوسٹ پر بے جواز حملے پر معذرت سے صاف انکار کر دیا اور حکومت پاکستان کے ساتھ اعلیٰ سطحی رابطے بھی غیراعلانیہ طور سے معطل کر دیئے۔کولیشن سپورٹ فنڈ میں ہمیں دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں جو اخراجات برداشت کرنا پڑتے تھے‘ ان اخراجات کاایک حصہ امریکہ بھی ادا کرنے کا پابند تھا۔ اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ پاکستان اپنے طور سے کارروائیوں پر ہونے والے اخراجات پورے کرتا اور بعد میں امریکہ سے اس کے حصے کی رقم مانگی جاتی۔ لیکن مذکورہ بالا دونوں واقعات کے بعد جن میں زیادتی بھی خود امریکہ کی تھی‘ اس نے پاکستان کو وہ رقوم دینے سے انکار کر دیا جو حقیقت میں پاکستان اپنے خزانے سے پہلے ہی خرچ کر چکا تھا۔ پاکستان کے لئے سکیورٹی کی مد میں امریکہ جو حصہ ڈالنے کے ارادے کر چکا تھا‘ اس سلسلے میں دی جانے والی امداد پر بھی پابندی لگا دی گئی اور صرف سول امداد کی مد میں 2سال کے اندر 85کروڑ ڈالر دیئے گئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہونے کی حیثیت سے جو کچھ پاکستان کے پلے پڑا وہ اصل اخراجات سے کئی دسیوں گنا کم تھا۔ پاک امریکہ تعلقات کے معاملے میں پاکستان ہمیشہ کی طرح ایک زخم خوردہ فریق ہے اور امریکہ اپنی طاقت کے تکبر میں ہماری جائز شکایات کو بھی خاطر میں لانے پر آمادہ نہیں ہوا۔ دوسری طرف وہ پاکستان کے دیرینہ حریف بھارت کے ساتھ ہمیشہ دوستانہ تعاون میں پیش پیش رہتا ہے۔ حال میں اس نے بھارت کے ساتھ مل کرایک نیا سمجھوتہ کیا ہے‘ جو صریحاً پاکستان کو مزید دبائو میں لانے کی نئی کوشش ہے۔ جن دو مبینہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مشترکہ اقدامات کے لئے سمجھوتہ کیا گیا‘ حقیقت میں ان کے خلاف پہلے ہی موثر کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ حقانی گروپ کے سوال پر پاکستان‘ بھارت اور امریکہ کے مابین متعدد مذاکراتی ادوار میں اس گروپ کی سرگرمیاں زیربحث آتی رہیں اور پاکستان اس حوالے سے متعدد ذمہ داریاں پوری بھی کر رہا ہے اور کالعدم لشکرطیبہ اور حافظ سعید کے خلاف نہ صرف امریکہ اپنے طور پر کام کر رہا ہے بلکہ اس میں اقوام متحدہ کو بھی ملوث کیا گیا اور خود پاکستان نے لشکر طیبہ کو غیرقانونی تنظیم قرار دے رکھا ہے اور حافظ سعید پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں پیش ہو کر‘ الزامات کی صفائی دے چکے ہیں اور عدلیہ نے انہیںعائد کردہ الزامات سے بری کر دیاہے۔ لیکن عین اس موقع پر جبکہ اتحادی افواج کی واپسی شروع ہونے لگی ہے‘ ان دونوں تنظیموں کے خلاف بھارت اور امریکہ کا اتحاد‘ فطری طور پر پاکستان کے لئے فکرمندی کا باعث ہے۔ آخر اس معاہدے کے لئے یہی موقع کیوں چنا گیا؟ آخراسی وقت لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیوں اور ان کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کی کوششوں کا مقصد کیا ہے؟ بھارتی وزیراعظم نے نیویارک کے حالیہ دورے کے دوران اپنی تقریر اور میڈیا بریفنگز میں پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور بھارتی وزیراعظم کی امریکہ میں موجودگی کے دوران‘ ہمارے وزیراعظم کو میڈیا اور میزبان امریکی حکومت نے‘ سفارتی معیار کے مطابق حیثیت اور رتبے کے مطابق مدارات کا مستحق نہیں سمجھا۔ اس کے برعکس بھارتی وزیراعظم کو خصوصی اہتمام سے وہائٹ ہائوس میں مدعو کیا گیا۔یہ امتیازی سلوک بھی امریکہ کی سردمہری کا تسلسل تھا۔ لیکن گزشتہ روز جب نوازشریف واشنگٹن پہنچے‘ تو اس موقع پر امریکی انتظامیہ کے طرزعمل میں تبدیلی آ چکی تھی۔ خصوصاً میڈیا جس نے نوازشریف کو جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران خاص اہمیت نہیں دی تھی‘ اب وہ بھی انہیں نمایاں کوریج دے رہا ہے اور اب یہ خوش گمانیاں بھی ظاہر کی جا رہی ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں سردمہری ختم کرنے کا وقت آ رہا ہے۔ واشنگٹن میں امریکہ اور جنوبی ایشیائی امور کے ماہرین کی رائے ہے کہ دونوں فریق باہمی اعتماد کی ازسرنوتعمیر کے خواہش مند ہیں اور ان تعلقات میں ایک نئے دور کی ابتدا کرنے کو تیار ہیں۔ دونوں ملکوں میں سے کوئی بھی تعلقات کے اس نچلے درجے پر واپس نہیں جانا چاہتا‘ جس پر2011ء میں دونوں چلے گئے تھے۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ ’’وہائٹ ہائوس‘ وزیراعظم نوازشریف کے استقبال میں گرمجوشی کا اظہار کرے گا۔ پاک امریکہ تعلقات میں ایک نئے آغاز کی کوشش ہو گی۔ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے پر غور ہو گا ۔ ‘‘ وزارت خارجہ کے ترجمانوں نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ‘ دونوں کی قیادتیں 2011ء اور 2012ء میں پیدا ہونے والے ماحول کو پیچھے چھوڑ دینا چاہتی ہیں۔واشنگٹن کے سیاسی حلقوں میں وثوق سے کہا جا رہا ہے کہ کہ امریکہ‘ پاکستان کے داخلی استحکام اور معیشت کی بحالی میں مدد دینے کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ خصوصاً توانائی کے شعبے میں بحران پر وہ فکرمند بھی ہے۔ امریکی انتظامیہ کی رائے ہے کہ اگر پاکستان بجلی کے بحران پر قابو نہ پا سکا‘ تو عوامی بے چینی شدید ہو سکتی ہے اور پاکستان کے اندر پیدا ہونے والا داخلی عدم استحکام پورے خطے میں منفی اثرات پھیلانے کا باعث ہو گا‘ جو امریکہ کے لئے انتہائی فکرمندی کی بات ہے۔ گویا طویل عرصے کے بعد امریکہ اور پاکستان کی اعلیٰ قیادت دیرینہ دوستوں میںباہمی تلخیوں کے دور کو خیرباد کہنے کی خواہش مند ہے۔ یہ خواہش کہاں تک مذاکرات کے نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے؟ اس کا آنے والے چند روز میں پتہ چل جائے گا۔ امید کی جا رہی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف ڈرون حملوں کے بارے میں امریکی قیادت کے موقف کو بھی غور سے سنیں گے اور ہو سکتا ہے ‘ اس سوال پر وہ افہام و تفہیم سے کام لینے پر آمادہ ہو جائیں۔دونوں لیڈروں کے مابین دو ڈاکٹر بھی زیربحث آ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل کے لئے کانگریس کا دبائو ہے اور ڈاکٹر عافیہ کے لئے پاکستانی رائے عامہ کا۔