آخر کار وزیراعظم نوازشریف نے‘ امن یا دہشت گردی کو مزید ایک چانس دینے کا اعلان کر دیا۔ مذاکرات کی کہانی ہم گزشتہ سال ستمبر سے سن رہے ہیں اور وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس کہانی میں اتنی بوریت بھر دی ہے کہ دلچسپی کا عنصر شاید ہی باقی رہ گیا ہو۔ اس پامال کہانی میں‘ وزیراعظم نے ایک کمیٹی نامزد کر کے جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرے فریق یا فریقوں کا ابتدائی ردعمل‘ نہ تو زیادہ امید افزا ہے اور نہ ہی مایوس کن۔ امید افزا اس لئے نہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے نام سے‘ جو مسلح گروہ سرگرم عمل ہیں‘ ان کی تعداد 38 سے 60 تک بتائی جاتی ہے۔ سارے دہشت گرد گروہ صرف قبائلی علاقوں تک محدود نہیں۔ وہ پاک افغان سرحدوں کے دونوں طرف موجود ہیں۔ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ان ساری دہشت گرد تنظیموں کا مرکز ‘شمالی وزیرستان ہے۔ لیکن یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ وہ جنوبی پنجاب اور سندھ‘ خصوصاً کراچی میں بھی موجود ہیں اور ان کے چند غیرمتحرک سیل بلوچستان میںحسب ضرورت ایکشن کے لئے دستیاب رہیں گے۔ تحریک کے امیر ملافضل اللہ‘ اپنے پورے گروپ کے ساتھ افغانستان میں پناہ گزین ہیں اور انہیں امریکہ اور کرزئی حکومت کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔
وزیراعظم کی پیش کش کا فوری اور مثبت ردعمل‘ پنجابی طالبان کے لیڈر عصمت اللہ معاویہ کی طرف سے آیا۔ انہوں نے کہا ''تحریک طالبان پاکستان اور ملا فضل اللہ کا ردعمل ہم سے مختلف نہیں ہو گا۔ لیکن ہم اپنے قول و فعل کے ذمہ دار ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا ''اس پراپیگنڈے میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ تحریک طالبان کے امیر فضل اللہ‘ حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں۔ تحریک طالبان کے تمام حلقے‘ امیر کی امارت اور قیادت میں متحد اور یکجا ہیں۔ تمام امور میں ان کے فیصلوں کی مکمل اطاعت کرتے ہیں۔ تحریک طالبان کی مجلس شوریٰ‘ حکومت کے فیصلے کا باریک بینی سے جائزہ لے کر چند دنوں میں اپنے موقف سے آگاہ کرے گی۔‘‘ عصمت اللہ معاویہ نے وزیراعظم کی نامزد کمیٹی کے ارکان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اس کمیٹی کے چاروں اراکین‘ طالبان کی تمام دہشت گردیوں کے باجود اپنے ذہن میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ تین اراکین کسی نہ کسی طرح قبائلی عمائدین اور تحریک طالبان کے مختلف گروپوں کے کچھ اصحاب کے ساتھ نجی رابطوں میں بھی ہیں۔ اگر کمیٹی میں سلیم صافی کا اضافہ کر دیا جاتا‘ تو یہ مزید موثر ہو سکتی تھی۔ وزیراعظم‘ ان کے ساتھ رابطے میں بھی رہے ہیں۔ جب ان کی نامزد کمیٹی میں سلیم صافی کا نام نظر نہیں آیا‘ توزمینی حقائق پر نظر رکھنے والوں کو حیرت ہوئی۔ طالبان کی طرف سے امن کمیٹی کے بارے میں جو کچھ کہا گیا‘ وہ ٹی ٹی پی کی طے شدہ پالیسی نہیں۔ پالیسی کا اعلان کرنے کے مجاز‘ صرف شاہد اللہ شاہد ہیں اور وہ شوریٰ میں پالیسی طے ہونے کے بعد ہی‘ اس کا باضابطہ اعلان کریں گے۔ ملا فضل اللہ کے علاوہ بیشتر گروہوں کی مرکزی قیادت ‘ قبائلی علاقوں میں موجود ہے اور اس کے آپس میں بہت قریبی رابطے ہیں۔ جب باہمی مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کیا گیا‘ تو عصمت اللہ معاویہ کے مطابق ''تمام گروہ اس کی پابندی کریں گے۔‘‘ یہ آخری بات امن پسندوں کے لئے حوصلہ افزا ہے۔
ٹی ٹی پی میں شامل تمام گروہ ایک دوسرے کے ہم خیال نہیں ہیں۔ ان میں سے بیشتر القاعدہ کی نظریاتی بنیادوں پر یقین رکھتے ہیں۔ امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق کم از کم پانچ تنظیمیںباضابطہ القاعدہ سے منسلک ہیں۔ پاکستان کے اندر القاعدہ کا براہ راست کوئی تنظیمی سیٹ اپ موجود نہیں۔ لیکن اس کے حامی گروہ‘ القاعدہ کی مرکزی قیادت کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ القاعدہ سے منسلک تنظیمیں 12ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یمن میں اس کی شاخ کافی منظم اور طاقتور ہے اور امریکہ کے خلاف حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شام میں موجود القاعدہ کا جارحیت پسند گروپ ‘ امریکہ کے خلاف کارروائیوں کے لئے بے چین ہے اور امریکی ایجنسیوں کے مطابق شام میں جو نئی فورس تیار ہو رہی ہے‘ اس میں شامل ہونے والے جنگجوزیادہ جنگی مہار ت رکھنے والے اور خطرناک ہیں۔ انہیں القاعدہ کے زیر انتظام کیمپوں میں تربیت دی جاتی ہے‘ جو اپنے اپنے ملکوں میں واپس جا کر دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ کریں گے۔ شام میں انتہائی خطرناک نوعیت کی دہشت گردی ہو رہی ہے۔ جس میں 26 ہزار دہشت گرد حصہ لیتے ہیں۔ ان میں 7 ہزار غیر ملکی ہیں‘ جو 50مختلف ملکوں سے آئے ہیں۔ ان میں یورپ سے تعلق رکھنے والے بھی شامل ہیں۔ القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے مابین بڑی حد تک نظریاتی ہم آہنگی موجود ہے۔ مگر وہ اپنے زیراثر جغرافیائی خطوں میں ‘ اپنا کنٹرول قائم ہونے پر کیسا نظام نافذ کریں گے؟ اس پر اتفاق رائے موجود نہیں۔ ملا فضل اللہ جو ٹی ٹی پی کے نئے امیر چنے گئے ہیں‘ وہ ٹی ٹی پی میں شامل دیگر گرہوں کے مقابلے میں زیادہ انتہاپسند اور القاعدہ کے قریب ہیں۔ یہی وہ مسئلہ ہے جو آگے چل کر مفاہمت یا مصالحت کے امکانات پر اثر انداز ہو گا۔ ابھی تک جو اطلاعات سامنے آئی ہیں‘ ان کے مطابق طالبان کے کئی گروہ‘ پاکستان کے ساتھ مفاہمت یا مصالحت کے حق میں ہیں۔ لیکن وہ القاعدہ اور اس کے زیراثر گروہوں کی حمایت اور تعاون حاصل نہیں کر سکیں گے۔
القاعدہ کا اپنا ایجنڈا ہے۔ جس کے تحت وہ تمام مسلم ممالک میں اپنی تحریک کا کنٹرول قائم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ القاعدہ کی قیادت کے منصوبوں اور خیالات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے جغرافیائی عزائم میں‘ پاکستان مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ نہ صرف مرحلہ وار پاکستان میں مختلف علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتی ہے بلکہ مکمل غلبہ حاصل کر کے‘ پاکستان کے سٹریٹجک اثاثوں پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی خواہش مند ہے۔ یہی وہ امکان ہے‘ جس کی وجہ سے ہمارے پڑوسی اور عالمی طاقتیں‘ سب کے سب خوفزدہ ہیں۔ اس خوف کی نشاندہی ''نیویارک ٹائمز‘‘ کے ایک حالیہ مضمون میں کی گئی۔ ''دنیا‘‘ میںاس مضمون کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔انتہائی تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ مختلف مقامات پر‘ اپنے اتحادیوں سمیت ‘امریکہ اور القاعدہ ایک دوسرے سے عملی تعاون بھی کرتے ہیں۔ لبیا‘ شام اور اب عراق ‘ اس کی واضح مثالیں ہیں۔ شام میں برسرپیکار غیر ملکی دہشت گردوںمیں پاکستانی بھی شامل ہیں اور غیر ملکی جنگجوئوں کے ساتھ مل کر لڑتے ہوئے‘ ان کے باہمی رابطے تقویت پا رہے ہیں۔
افغانستان میں چند روز پہلے تک القاعدہ‘ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف لڑتی رہی ہے۔ اندازہ کیا جا رہا ہے کہ افغانستان کے میدان جنگ سے امریکی اور اتحادی فوجوں کے انخلا کے بعد‘ القاعدہ کے اہداف پاکستان کے علاقے اور زنجیانگ ہوں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ پاک امریکہ تعلقات میں بہتری اور گرمجوشی بحال کرنے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں‘ وہ زیادہ بارآور ہوں گی۔ امریکہ اور پاکستان میں طاقت کے مراکز کے مابین خطے کے مستقبل کے بارے میں اتفاق رائے اور باہمی تعاون کی زیادہ امید نہیں رکھنا چاہیے۔ امریکہ خود پاکستان کے بارے میں ہم سے مختلف عزائم رکھتا ہے۔ آئندہ بھی اس صورتحال میں بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مذاکرات سے ہم‘ جو زیادہ سے زیادہ توقعات قائم کر سکتے ہیں‘ وہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالبان کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ ہے۔ مثلاً پنجابی طالبان نے جس طرح وزیراعظم کے منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے‘ اس میں پاکستان کے لئے خوشگوار امیدوں کی گنجائش ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ ایسا کرنا پنجابی اور ان کے حامی طالبان کے لئے آسان نہیں ہو گا۔ وسیع تر مفہوم میں تمام طالبان گروہ اور القاعدہ ایک ہی نظریاتی منزل کے مسافر ہیں۔ ہماری کمیٹی کو سب سے پہلے چند بنیادی مطالبات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خصوصاً جیلوں میں بند طالبان قیدیوں کی رہائی‘ قبائلی علاقوں سے پاکستانی فورسز کی واپسی اور ڈرون حملوں کا خاتمہ۔ بظاہر ان معصوم سے مطالبوں کے اندر جو خوفناک امکانات موجود ہیں‘ ان پر پاکستان دوسرے فریق کے لئے قابل عمل تجاویز پیش نہیں کر پائے گا۔ قبائلی علاقوں کا کنٹرول چھوڑنے کا مطلب ‘ وہاں طالبان کا حق اور اقتدار تسلیم کرنا ہے۔ قیدیوں کی رہائی ایک ضمانت پر ممکن ہو گی کہ وہ پاکستان کی ریاست اور آئین کو تسلیم کر کے‘ دہشت گردی سے تائب ہونے کا اعلان کریں۔جہاں تک ڈرون حملے بند کرانے کا تعلق ہے‘ یہ ہمارے اختیار میں ہی نہیں۔ مجھے افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ مذاکرات کا نتیجہ‘ ہماری خواہشات اور توقعات کے مطابق نہیں ہو گا اور نہ ہی طالبان جو کچھ مذاکرات سے حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ وہ کر پائیں گے۔جس دن وزیراعظم نے امن کو چانس دینے کے لئے مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کیا‘ اسی دن کراچی میں رینجرز پر حملہ کر کے‘ دو جوان شہید کئے گئے اور طالبان نے اس سانحہ کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔آج بھی امن قائم ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ مذاکرات شروع بھی ہوئے‘ تو آنے والے دنوں میں ٹاک ٹاک۔ فائٹ فائٹ کی کیفیت رہے گی اور مشرق و مغرب کے بادشاہ کا ''سیاپاڈیپارٹمنٹ‘‘ چلتا رہے گا۔