ان دنوں حکومت اور اراکین پارلیمنٹ کی حالت قابل دید ہے۔ جلدی میں جو مثال ذہن میں آ رہی ہے‘ اس بنئے کی ہے‘ جو درخت سے ‘شیر کے اوپر آن گرا۔ جان بچانے کے لئے‘ اس کی گردن کے بال پکڑ لئے۔ گرنے کی صورت میں ڈر تھا کہ شیر کھا جائے گا اور بیٹھے رہنے کی صورت میں بھوک پیاس سے مرنے کا خطرہ تھا اور ساتھ ہی یہ ڈر بھی کہ کہیں جان خوف کی وجہ سے ہی نہ نکل جائے۔اوپر سے لطیفہ یہ تھا کہ جنگل کے راستے میں اسے جوکوئی دیکھتا‘ تعریفی انداز میں آواز لگاتا ''واہ! لالہ جی واہ! شیر کی سواری ہو رہی ہے؟‘‘ یہ تو سوار کا دل ہی جانتا تھا کہ سواری ہو رہی ہے یا دھوتی گیلی؟ حکومت پاکستان کی حالت بھی‘ ان دنوں کچھ اسی طرح کی ہو رہی ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد‘ حکومت پر ہر طرف سے شدید دبائو شروع ہو گیا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ کرے۔ مقابلے کی تیاریوں کے لئے‘ متعدد اجلاس منعقد کئے گئے‘ جن میں پارلیمانی سیاستدانوں کے علاوہ فوجی قیادت بھی موجود تھی۔ اجلاس کے دوران یہ مسئلہ زیربحث آ گیا کہ عام عدالتوں کے جج‘ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ دینے سے کنی کتراتے ہیں۔ جن جج صاحبان نے دہشت گردوں کے مقدمے سننے کی ہمت کی‘ انہیں ایسی ایسی خوفناک دھمکیاں آئیں کہ یا تو طبیعت سچ مچ خراب ہو گئی یا چھٹی کی درخواست میںلکھنا پڑا کہ ''پیٹ میں شدید درد ہے۔‘‘ اجلاس میں شریک چند حضرات نے تجویز دی کہ دہشت گردوں پر مقدمات چلانے کے لئے‘ فوجی عدالتیں بنا دی جائیں۔ تجویز تو آگئی۔ اہل سیاست کے دل بیٹھنے لگے کہ فوجی عدالتیں بن گئیں‘ تو ہمارا کیا ہو گا؟ سامنے جرنیل بیٹھے تھے۔ انکار کون کرتا؟اقرار کرنے میں بھی خطرہ تھا۔ سب ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے۔ یہی کیفیت جاری تھی کہ چیف آف آرمی سٹاف نے بولنا شروع کیا۔ انکار کون کرتا؟ سب کو پیٹ میں جاری گڑ بڑ پر قابو پاتے ہوئے‘ اقرار کرنا پڑا '' بالکل! جی بالکل! ہم دہشت گردوں سے فیصلہ کن جنگ کریں گے‘ جوآخری دہشت گرد تک جاری رہے گی۔‘‘
اجلاس ختم ہو گیا۔ کپکپی ختم نہ ہوئی۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں سوچنے لگا کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے انکار بھی مشکل ہے۔اگر وہ بن گئیں تو ہمارا کیا بنے گا؟ عجیب مخمصہ تھا۔فوجی عدالتیں بناتے ہیں‘ تو مشکل۔ انکار کرتے ہیں‘ تو مزید مشکل۔سیاستدان آخر سیاستدان ہوتا ہے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی جگہ دائو پیچ سوچنا شروع کر دیئے۔ کسی کو خیال آیا کہ عدالتوں کے لئے قوانین ہی ایسے بنا دیئے جائیں کہ وہ اقراری دہشت گرد کے سوا‘کسی کے خلاف استعمال نہ ہو سکیں۔جس طرح تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات میں‘ حکومت نے دھاندلی کی تعریف پر پھڈا ڈال رکھا ہے‘ سیاستدان سوچ رہے ہیں کہ دھاندلی کی طرح‘ دہشت گردی کی تعریف کا دائرہ تنگ سے تنگ کر دیا جائے۔ دھاندلی کا قصہ تو آپ کو معلوم ہو گاکہ جوڈیشل کمیشن کی‘ ٹرمز آف ریفرنس میں حکومت یہ چاہتی ہے کہ دھاندلی کا مفہوم اتنا تنگ کر دیا جائے کہ کمیشن کے لئے‘ اسے ثابت کرنا ممکن ہی نہ رہے۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ دھاندلی کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ اور جو بالغ ہیں‘ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ انتخابی دھاندلی کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ میں نے ایک ٹی وی شو میں کہا تھا کہ دھاندلی کا مطلب جاننے کے لئے زیادہ بحث کی کیا ضرورت ہے؟ کسی بھی راہ چلتے شخص کو روک کر پوچھ لیں۔ دھاندلی کا مطلب فوراً بتا دے گا۔ ادھر یہ حالت ہے کہ مذاکرات کرتے کرتے‘ ہفتوں گزر گئے۔ یہی طے نہیں ہو پا رہا کہ دھاندلی کی تعریف کیا ہے؟ ابھی دھاندلی سے جان نہیں چھوٹ رہی کہ اوپر سے فوجی عدالتوں کی مصیبت آن پڑی۔ ہر وزیر اور پارلیمنٹ کا ہر رکن‘ جسے آئینی ترمیم پر ووٹ دینا ہے‘ اس کی راتوں کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں۔ ہاتھوں کے توتے بھی اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ اس وقت کو یاد کر کے‘ رو رہے ہیں‘جب انہوں نے بھری مجلس میں فوجی عدالتوں کی تجویز قبول کی۔ بعض تو چھپ چھپ کر سسکیاں لیتے ہیں۔ کچھ برسرمحفل خوف ظاہر کرنے کا بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ لیکن پیپلزپارٹی کے قائم مقام چیئرمین‘ آصف زرداری کی بہادری کی داد دینا پڑتی ہے۔ انہوں نے بھرے جلسے میں دل کا ڈر نکال کر‘ ڈنکے کی چوٹ پر عوام کے سامنے رکھ دیا۔ فرمایا ''ایسا نہ ہو‘ فوجی عدالتوں سے میں اور نواز پھر جیل میں ہوں۔‘‘ آخر دل کی بات زبان پر آ ہی گئی۔ انہیں ڈرنا ہی چاہیے۔ 9سال جیل میں قید کاٹی۔ 5سال ایوان صدر میں قید رہے۔ صرف ڈیڑھ سال کے قریب‘ آزادی کے دن دیکھنا نصیب ہوئے کہ سر پہ فوجی عدالتوں کی تلوار لٹکتی دکھائی دینے لگی اور ساتھ پچھتاوا بھی کہ ''بلاّ ہماری باتیں مان لیتا‘ تو سانحہ پشاور نہ ہوتا۔‘‘چونکہ انہوں نے سانحہ کارساز کا حوالہ دیتے ہوئے بلّے کا ذکر کیا‘ اس لئے یہی سمجھنا پڑے گا کہ بلاّ سے ان کی مراد پرویزمشرف ہیں۔ پرویزمشرف‘ زرداری صاحب کی بات مان لیتے‘ تو سانحہ پشاور سے کیسے بچا جا سکتا تھا؟ یہ بات میری سمجھ میں تو نہیں آ رہی۔ ماسوا اس کے کہ وہ چاہتے تو سانحہ پشاور روک سکتے تھے لیکن پرویزمشرف نے ایسی کون سی حرکت کر دی کہ انہیں مجبوراً سانحہ پشاور کا انتظام کرنا پڑا؟کیا آپ کو لگتا نہیں کہ زرداری صاحب‘ کچھ ان مل بے جوڑ سی باتیں کرنے لگے ہیں؟ اس خوف کی وجہ کیا ہے؟ بیٹے کی ناراضی؟بھٹو خاندان کے افراد میں صلح صفائی کی خبر؟ کیونکہ سننے میں آ رہا ہے کہ بھٹو خاندان مسلسل اور گہرے صدمے برداشت کرنے کے بعد‘ اب باہمی صلح صفائی کے راستے پر چل نکلا ہے۔ بلاول بھٹو اپنی ممانی غنویٰ بھٹو اور ان کے بچوں سے میل ملاپ شروع کر چکے ہیں۔ صنم بھٹو سے پہلے ہی صلح صفائی چل رہی ہے۔ اگر باقی ماندہ پورا بھٹو خاندان یکجا ہو گیا‘ تواس میں بھی نیندیں اڑانے کا سامان موجود ہے، کیونکہ جوراز غنویٰ بھٹو کے سینے میں دفن ہیں‘ وہ کسی نہ کسی وقت بلاول بھٹو اور ان کی بہنوں پر افشا ہو جائیں گے۔ ان حالات میں فوجی عدالتوں کی باتیں کرنا سراسر ناانصافی ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ زرداری صاحب کی اس بات پر ‘ جناب نوازشریف نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، ورنہ وہ کہہ سکتے تھے کہ ''جناب! فوجی عدالتوں سے آپ کو ڈر ہو گا۔ مجھے جیل جانے کا کوئی ڈر نہیں۔‘‘ زرداری صاحب کے بیان کو دو دن گزر چکے۔ میاں صاحب بالکل خاموش ہیں۔اس کا مطلب یہ تو نہیں؟ کہ ''خاموشی نیم رضا است‘‘۔ انہیں فوجی عدالتوں سے کوئی نہ کوئی ڈر ضرور ہو گا۔ ایک طرف وہ دہشت گردوں کو کھلا چیلنج دے بیٹھے ہیں، دوسری طرف فوجی عدالتیں بنتی دکھائی دے رہی ہیں۔''پھس گئی جان شکنجے اندر‘ جیوں ویلن وچ گناّ‘‘(جان شکنجے میں آ گئی ہے‘ جیسے بیلنے میں گنا)۔ پارلیمنٹ کے اراکین کی حالت بھی اپنے لیڈروں سے مختلف نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب آرڈی نینس اور آئینی ترمیم کے مسودے تیار کرتے ہوئے‘ دہشت گردی کی اصطلاح کا نیا مطلب گھڑنا ہو گا۔ دھاندلی کے مطلب پر‘ تحریک انصاف کے ساتھ پھڈا ڈال کر تو وقت نکالا جا سکتا ہے، مگر وہ جو فوجی عدالتوں میں بیٹھے ہوں گے‘ ان کا کوئی کیا کرے؟ آئینی ترمیم میں ‘ دہشت گردی کا جو مطلب بھی متعین کر دیا جائے‘ آخر کار اس کی تشریح فوجی عدالت کا سربراہ ہی کرے گا۔ اس وقت نوازلیگ اقتدارمیں ہے۔وہ دھاندلی کے مروجہ مفہوم کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کر رہی ہے اور ضد باندھ رکھی ہے کہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے‘ حکومت دھاندلی کا وہ مطلب ہرگز نہیں مانے گی‘ جو ڈکشنری میں لکھایا عوام میں سمجھا جاتا ہے۔ اگر حکومت دھونس دے کرایک لفظ پر اپنے مطلب کا مفہوم مسلط کرنے پر بضد ہے‘ تو فوجی عدالت کا سربراہ ایسا کیوں نہیں کر سکے گا؟ دہشت گرد کیا کرتا ہے؟ بم یا گولیاں چلا کر‘ وہ بے گناہ انسانوں کی جان لیتا ہے، لیکن وہ لوگ‘ جو عوام کو بھوکا مار کے‘ ان کی جان لیتے ہیں‘ کیا انہیں دہشت گرد نہیں کہا جا سکتا؟مریض ہسپتال میں جا کر علاج اور دوائوں سے محروم رہ کر مر جاتا ہے‘ تو اس کے ساتھ دہشت گردی کس نے کی؟ بازار میں جعلی دوائوں کی فروخت روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟ اور جعلی دوا کھا کر اگر کوئی مر جاتا ہے‘ تو کیا وہ دہشت گردی کا شکار نہیں بنا؟ جن بے بس لوگوں کو تھانوں میں سفاکانہ تشدد کر کے ہلاک کر دیا جاتا ہے‘ کیا ان کے قاتل حاکمان وقت نہیں ہوتے؟فوجی عدالتوں میں ایسے متعدد کیس آئیں گے‘ جن میں انہیں فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ناگہانی موت کا شکار ہونے والوں پر تشدد کس نے کیا؟ جو ان کی موت کا باعث بنا؟ کوئی بلاوجہ نہیں ڈرتا۔ فوجی عدالتوں کی تجویز مان لینے کے بعد‘ اب ان کے قیام کا وقت قریب آ رہا ہے‘ تو کپکپیاں کیوں لگ رہی ہیں؟ دل کیوں دھک دھک کرنے لگے ہیں؟ دھڑکے کیوں لگے ہوئے ہیں؟ نئی نئی حجتیں کیوں کی جا رہی ہیں؟ طرح طرح کے خدشے کیوں ظاہر کئے جا رہے ہیں؟ کہیں چور کی داڑھی میں تنکے والی بات تو نہیں؟ ماضی میں فوج خود اقتدار پر قبضہ کر کے پھنس جاتی تھی۔ اس بار فوجی عدالتیں بنانے کی ذمہ داری سیاستدانوں پر آ پڑی ہے۔ اب فوج پر الزام لگانا مشکل ہو گا۔ منتخب حکومت خود ہی‘ فوجی عدالتیں قائم کرے گی۔کیسی ستم ظریفی ہے؟ اپنے پھندے بھی آپ ہی بنائو۔ یہ بات میں نہیں کہتا کہ فوجی عدالتیں‘ سیاستدانوں کے لئے خطرہ ہوں گی۔ یہ بات سیاستدان خود کہہ رہے ہیں۔ خدشے کا اظہار میں نہیں کر رہا۔ سیاستدان کر رہے ہیں۔جناب زرداری نے تو لگی لپٹی بھی نہیں رکھی۔ صاف کہہ دیا ''ایسا نہ ہو ‘ فوجی عدالتوں سے میں اور نواز‘ پھر جیل میں ہوں۔‘‘یہ خدشہ بلا وجہ بھی نہیں۔ جن سے فوجی عدالتوں کا قانون منظور کروایا جا رہا ہے‘ ان میں سے کئی ایسے ہیں‘ جن پر دہشت گردی کے مقدمات پہلے ہی سے درج ہیں۔ قانون بننے سے پہلے پہلے یہ مقدمے خارج بھی کر دیئے گئے اور انہیں دوبارہ کھولنے کا راستہ نکال لیا گیا‘ تو؟