"NNC" (space) message & send to 7575

خبر اور خبریں

چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم جناب نوازشریف کی ملاقات کی ایک تصویر شائع ہوئی ہے۔ اس کے کیپشن میں لکھا ہے کہ ''وزیراعظم اور راحیل شریف ملاقات کرتے ہوئے‘‘ اور جو خبر لگائی گئی ہے‘ اس کی سرخی ہے ''سیاسی و عسکری قیادت کا مجرموں کے خلاف آپریشن جاری رکھنے پر اتفاق۔‘‘ بظاہر تو سب کچھ سوفیصد درست ہو گا۔ لیکن اگر یہی تصویر ہم ماضی میں کئی مرتبہ دیکھ چکے ہوں‘ جس میں جناب وزیراعظم اور جناب چیف آف آرمی سٹاف دونوں اسی طرح تشریف فرما ہوں‘ پوز بھی کم و بیش یہی ہو اور سرخی بھی یہ ہو کہ مجرموں کے خلاف آپریشن جاری رکھنے پر اتفاق‘ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں خبریت کیا ہے؟ خبریت کا مطلب اس کا تازہ پن ہونا چاہیے۔ مثلاً سیاسی و عسکری قیادت کا مجرموں کے خلاف آپریشن جاری رکھنے پر اتفاق بہت عرصہ پہلے ہو گیا تھا اور پورے ایک سال کے دوران عدم اتفاق کبھی نہیں ہوا۔ نئی بات یہ ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف کی سرگرمیوں اور مصروفیات کی خبر اور تصویر آئی ایس پی آر بھی ضرور جاری کرتی ہے اور اس میں خبریت ہو تو یقینا یہی ادارہ چیف آف آرمی سٹاف کی خبریں جاری کرتا ہے۔ لیکن اس وقت جو تصویر اور خبر میرے سامنے ہے‘ اس کا رپورٹر خصوصی وقائع نگار ہے اور تصویر دینے والے کا کوئی حوالہ نہیں۔ کیا وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف نے ملاقات محض اس لئے کی تھی کہ مجرموں کے خلاف آپریشن جاری رکھنے پر اتفاق کیا جائے؟جہاں تک میرا خیال ہے‘ اس موضوع پر ایک نہیں‘ درجنوں مرتبہ دونوں میں اتفاق ہو چکا ہے۔ اسے بار بار دہرانے کا کوئی سبب یا وجہ نظر نہیں آتی۔ کوئی شک؟ اس وقت ملاقات اور تصویر معمول کی بات ہے۔ ان دونوں معزز شخصیتوں کی ملاقات کی تصویر اخباری فوٹو گرافر نہیں اتارتے۔ وزیراعظم ہائوس کا فوٹوگرافر اتارے گا یا آئی ایس پی آر کا اور پھر اسے اشاعت کے لئے جاری کیا جائے گا۔ آئی ایس پی آر نے یہ خبر اور تصویر ریلیز کی ہو‘ تو اس کا حوالہ ضرور ہوتا ہے۔ باقی صرف دو ذرائع ہو سکتے ہیں۔ میڈیا کے کسی فوٹو گرافر نے اتاری ہو یا وزیراعظم ہائوس کے فوٹو گرافر نے۔ یہ قیاس آرائی آپ کر سکتے ہیں کہ یہ تصویر کس نے چھپوائی؟ اس میں خبریت کیا ہے؟ میں تو صرف ایک ہی بات سمجھ پایا ہوں کہ اس تصویر کی اشاعت میں خبریت ضرور ہے‘ جسے میں نہیں سمجھ پایا۔
یہ کالم ابھی لکھ ہی رہا تھا کہ مجھے مختلف ٹی وی چینلز سے ٹیلی فون آنا شروع ہو گئے۔ جس خبر پر مجھ سے تبصرے کے لئے کہا گیا‘ میں بہت دنوں سے اس خبر کے انتظار میں تھا۔ یہ تو مجھے پتہ چل گیا تھا کہ بی بی سی ایک رپورٹ نشر کرنے والا ہے جس میں ایم کیو ایم پر الزامات لگائے گئے ہیں کہ اسے بھارت سے مالی مدد ملتی رہی ہے۔ اس کے کارکنوں کو اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دی گئی ہے۔ ایم کیو ایم کے دو رہنمائوں نے اپنے بیانات میں ان الزامات کی تصدیق کی ہے ۔ میں نے فوراً بی بی سی کی انٹرنیٹ سروس نکال کے پڑھا۔ اس طرح کی خبریں مجھے آٹھ دس روز پہلے ملنے لگی تھیں۔ جن میں یہ سب کچھ تھا مگر میرے نزدیک جو خبر تھی‘ وہ ابھی تک نشر نہیں ہوئی۔ جو مجھے بتایا گیا تھا‘ اس کے مطابق بی بی سی اپنی باقاعدہ نشریات میں الطاف حسین کا انٹرویو نشر کرے گا‘ جس میں ان کا اعتراف موجود ہو گا کہ انہوں نے بھارتی ایجنسی سے فنڈز وصول کئے ہیں اور ان کے کارکنوں کو فوجی تربیت دی گئی ہے۔ میری اطلاع کے مطابق اس انٹرویو میںوہ سارے الزامات کی تصدیق کریں گے۔ ابھی تک بی بی سی کی باقاعدہ نشریات میں یہ خبر نہیں آئی اور نہ امید ہے کہ آئے گی۔ انٹر نیٹ پر بی بی سی نیوز میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا بیشتر حصہ پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلز پر بتایا جا چکا ہے۔ نیٹ پر بھی خبر کا ذریعہ پاکستان کے موقر ذرائع کو ہی بتایا گیا ہے۔مثلاً یہ لکھا گیا ہے کہ برطانوی اتھارٹیز ‘ایم کیو ایم سے مبینہ منی لانڈرنگ پر تحقیقات کر رہی ہیں۔اسی طرح ایک پاکستانی اتھارٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا نے ایم کیو
ایم کے سینکڑوں دہشت گردوں کو دس سال تک تربیت دی ہے۔ساتھ ہی بی بی سی نے یہ بھی لکھا ہے کہ انڈین اتھارٹیز نے ان دعوئوں کو مکمل طور سے بے بنیاد بتایا ہے۔ ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرے گی۔ بی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنمائوں نے یہ انکشافات باضابطہ ریکارڈ کئے گئے انٹرویوز میں کئے جو انہوں نے برطانوی حکام کو دیئے۔ ایک اعلیٰ پاکستانی اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے سینکڑوں کارکنوں نے گذشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت کے شمالی اور شمال مشرقی علاقوں میں قائم کیمپوں سے گولہ بارود اور ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت بھی حاصل کی۔پاکستانی اہلکار کا کہنا ہے کہ 2006-2005ء سے قبل ایم کیو ایم کے چند درمیانی درجے کے ارکان کو تربیت دی گئی جبکہ حالیہ برسوں میں جماعت کے مزید جونیئر ارکان کو تربیت دی گئی ہے۔یہ دعوے کراچی پولیس کے ایک سینئر افسر کی جانب سے دو ماہ قبل کی گئی اس پریس کانفرنس کے بعد سامنے آئے ہیں ‘جس میں ایس ایس پی راؤ انوار نے بھارت پر متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں کو عسکری تربیت فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور حکومت سے درخواست کی تھی کہ متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی عائد کی جائے۔اس پریس کانفرنس میں راؤ انوار نے بتایا تھا کہ کیسے حراست میں لیے جانے والے دو افراد تھائی لینڈ کے راستے بھارت گئے تاکہ انھیں بھارتی خفیہ ادارہ 'را‘ تربیت دے سکے۔برطانوی حکام نے ایم کیو ایم کے خلاف 2010ء میں اس وقت تحقیقات شروع کی تھیں جب جماعت کے ایک سینئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو شمالی لندن میں ان کی رہائش گاہ کے قریب چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔انہی تحقیقات کے دوران پولیس کو لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر اور جماعت کے قائد الطاف حسین کے گھر سے پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم ملی تھی‘ جس کے بعد منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کر دی گئی تھیں۔پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق تحقیقات کے دوران برطانوی حکام کو ایم کیو ایم کی ایک عمارت سے ہتھیاروں کی ایک فہرست بھی ملی تھی‘ جس میں مارٹر گولوں اور بموں کا ذکر تھا اور ان کی قیمت بھی درج تھی۔جب ایم کیو ایم ہڑتال کا اعلان کرتی ہے تو کراچی کی سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں اور تمام شہر ایک جگہ تھم کر رہ جاتا ہے۔2011 ء میں ایک جج نے سیاسی پناہ کے ایک مقدمے کے دوران دریافت کیا کہ ''ایم کیو ایم نے کراچی میں اپنے مخالف 200 سے زائد پولیس افسران کو قتل کیا ہے۔‘‘ایم کیو ایم پر پاکستان کے اندر بھی دباؤ ہے۔ مارچ میں ملک کی سکیورٹی فورسز نے کراچی میں ایم کیو ایم کے صدر دفتر پر چھاپہ مارا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہاں سے بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ پولیس اسلحہ چھپا کر وہاں لے گئی تھی اور یہ ظاہر کیا کہ یہ وہاں سے برآمد ہوا ہے۔الطاف حسین سمیت ایم کیو ایم کے کئی سینئر حکام کو کالے دھن کو سفید کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ‘ لیکن کسی پر فردِ جرم عائد نہیں کی گئی۔ جماعت کا اصرار ہے کہ اس کی رقوم قانونی ہیں اور ان کا بڑا حصہ کراچی کے عطیہ کنندگان اور تاجر برادری کی جانب سے وصول ہوتا ہے۔ایم کیو ایم کے خلاف مقدمے میں حالیہ پیش رفت سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان ‘بھارت کے الزامات کا جواب یہ کہہ کر دے گا کہ بھارت کراچی میں متشدد عناصر کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لے۔
میں نے خبر کے بنیادی نکات دہرا دیئے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ‘ جس میں خبریت موجود ہو۔ یہ پوری کی پوری خبر وہ ہے‘ جسے ہم ڈیسک نیوز کہتے ہیں۔ کوئی ثبوت نہیں۔ کوئی دلیل نہیں۔ کوئی واقعاتی ثبوت نہیں۔ اس طرح کی خبریں ایم کیو ایم کے بارے میں بارہا نشر اور شائع ہوئی ہیں۔ جن کے جواب میں ایم کیو ایم نے ہمیشہ الزامات کی تردید کی۔ جواب میں کوئی ثبوت نہیں دیا جا سکا۔ اسی لئے میں چینلزکے اینکرز خواتین و حضرات سے کہتا رہا کہ جب تک بی بی سی باقاعدہ انٹرویوز کے ساتھ خبر نشر نہیں کرتی‘ تب تک اسے ڈیسک نیوز ہی سمجھنا چاہیے۔ یہ میں بہت دنوں سے سن رہا ہوں کہ بی بی سی الطاف حسین کا ایک انٹرویو نشر کرے گی۔ جس دن یہ انٹرویو نشر ہوا‘ شاید آج ہی ہو جائے‘ تو خبر مصدقہ ہو جائے گی۔ ایک اور بات ذہن میں آ رہی ہے کہ وزیرداخلہ چوہدری نثار نے ایم کیو ایم کے بارے میں ایک مثبت جملہ کہا ہے کہ عمران فاروق قتل کیس میںانہوں نے الطاف حسین کو ملوث نہیں کیا۔ ہو سکتا ہے اس مثبت جملے سے بھارتی ایجنسیوں کو تکلیف ہوئی ہو اور وہ حکومت پاکستان اور الطاف حسین میں بہتر تعلقات کااندازہ لگا کر منفی مہم کو تیز ِکرنے والی ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں