پاکستان اور بھارت آج 69سال پورے کرنے کے قریب آ گئے ہیں۔ ابھی تک مذاکرات کے ذریعے اپنا کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکے۔ حد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی جغرافیائی ضرورتیں پوری کرنے کا طریقہ بھی نہیں ڈھونڈ پائے۔ بھارت کی ضرورت واہگہ سے افغانستان تک راستہ لینا ہے اور جب ہمارا ملک پاکستان ثابت و سالم تھا‘ ہمیں اپنے ملک کے دوسرے حصے یعنی مشرقی پاکستان تک جانے کے لئے براستہ بھارت ‘راستہ نہیں مل سکا۔ یہاں تک کہ تاریخ نے خون کے دریا بہاتے ہوئے ‘خود ہی یہ مسئلہ حل کر دیا اور مشرقی پاکستان‘ بنگلہ دیش بن گیا۔ اگر ہماری صلاحیتوں کا یہی عالم رہا‘ تو خاکم بدہن ہمارے دیگر مسائل بھی تاریخ کے ہاتھوں حل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ابھی تک جو مسائل حل طلب چلے آ رہے ہیں‘ ان میں سرفہرست اور انتہائی پیچیدہ‘ ریاست جموں و کشمیر کا تنازعہ ہے۔ سیاچن کا مسئلہ تو ایک لطیفے سے کم نہیں۔ آزادی کے بعدہم نے اپنے ملکی نقشے پرسرحدوں کی پوری نشاندہی بھی نہیں کی تھی۔ گلیشیئر بھی ایک ایسا ہی علاقہ تھا۔آج بھی ہم اپنے جغرافیائی ماہرین کی ٹیمیں بنا کر‘ یہ جاننا چاہیں کہ سیاچن کا پورا علاقہ کس کی حدود میں آتا ہے؟ تو ہم کوئی نتیجہ نہیں نکال پائیں گے۔ 1986ء تک یہ حالت تھی کہ دنیا بھر کے کوہ پیما سیاچن گلیشیئر پر پاکستان کی طرف سے جایا کرتے تھے اور اس گلیشیئر کو عملاً پاکستان کا حصہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ 1985ء تک یہی حالت رہی۔ غالباً یہی سال تھا‘ جب جاپانی کوہ پیمائوں کا ایک گروپ ‘معمول کے مطابق پاکستان کی طرف سے سیاچن گلیشیئر پر چڑھ گیا۔ اوپر جا کر انہوں نے دیکھا کہ گلیشیئر پر بھارتی جھنڈا لہرا رہا ہے اور کوہ پیمائوں کو بھارتی فوجیوں نے آگے بڑھنے سے روک دیا۔
یہ قصہ ایک دوست فاروق مرزا نے مجھے سنایا۔ وہ خود کوہ پیمائی کے شوقین تھے اور اکثر اوقات بیرونی ممالک کی ‘کسی نہ کسی ٹیم کے ساتھ کوہ پیمائی کے لئے نکل جایا کرتے تھے۔ میں نے اپنے طور سے سروے آف پاکستان کے ذرائع سے ‘سیاچن کی پوزیشن معلوم کی‘ تو پتہ چلا کہ سیاچن باضابطہ طور پر پاکستان کے نقشے میں شامل نہیں۔ لیکن ہم نے تصور کر رکھا ہے کہ یہ ہمارا علاقہ ہے۔ بھارت کی طرف سے اس گلیشیئر پر چڑھنے کا راستہ ہی موجود نہیں تھا۔ بھارت نے خود بھی کبھی اس گلیشیئر پر اپنی ملکیت کا دعویٰ نہیں کیا اور ہم بھی اسے اپنا حصہ تصور کرتے رہے۔ میں نے یہ خبر روزنامہ ''جنگ‘‘ میں دی‘ جو لاہور ایڈیشن میں تو شائع ہونے سے رہ گئی لیکن کراچی میں سنگل کالم چھپ گئی۔ اس کے بعد بھی پاکستان کے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور جب زیادہ شور برپا ہوا‘ تو جنرل ضیاالحق نے ایک سوال کے جواب میں کہا ''سیاچن بھی کوئی مسئلہ ہے؟ اس پر تو گھاس تک نہیں اگتی۔‘‘ اس وقت تک ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ اس گلیشیئر کے ایک
بڑے حصے پر بھارت قابض ہو چکا ہے ۔ ہم نے جوابی کارروائی میں گلیشیئر کے ایک حصے پرقبضہ کیا اور اب دنیا کے سب سے بلند میدان جنگ میں ہم اپنے اپنے قبضے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اگر اس جنگ کے اخراجات کا اندازہ لگایا جائے‘ توعقل سر پیٹ لیتی ہے۔ جنرل ضیا کو جب ذرائع ابلاغ سے بھارتیوں کی موجودگی کا پتہ چلا‘ تو انہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں جس قدر ممکن ہو سکا‘ سیاچن کے اس حصے پر پاک فوج کو بھیج دیا اور دنیا کی بلندترین جنگ شروع ہو گئی۔ انہی دنوں پاک فوج کے ایک جونیئر افسر کا ایک خط میرے ہاتھ لگا اور میں نے ''نوائے وقت‘‘ میں اپنے کالم میں ‘وہ دردناک خط شائع کر دیا‘ جو اس نے شہادت سے پہلے اہل خاندان کو لکھا تھا۔جنرل ضیا‘ حسن ابدال کی ایک تقریب میں شہید کے خط سے‘ اقتباسات پڑھتے ہوئے رو پڑے۔ آئی ایس پی آر کے ریکارڈ میں اگر یہ خط کہیں موجود ہے‘ تو اسے دوبارہ شائع کرنا چاہیے۔ اس جونیئر افسر کا نام اقبال تھا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ امور میں سیاچن کا نام پڑھ کر کچھ یادیں تازہ ہو گئیں اور سچی بات ہے‘ پاک بھارت تنازعات میںوقوع پذیر ہونے والے انگنت المیوں کی‘ ہمارے پاس یادیں ہی رہ گئی ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمیں سویلین یا فوجی‘ کوئی ایسا حکمران نصیب نہیں ہوا‘ جس نے بطور پاکستانی‘ ہمیں فخر اور سربلندی کے ‘ایک لمحے سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع دیا ہو۔ ہمارے فی کس دفاعی اخراجات ‘ دنیا کی بیشتر قوموں سے زیادہ ہیں۔ اس امتیاز کے ساتھ بھی ہم نے جغرافیائی اعتبار سے کوئی کامیابی حاصل نہیں کی۔ کشمیر ‘جو تقسیم کے بنیادی فارمولے کے مطابق ہمارے حصے میں آنا تھا‘ ہماری اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے ‘اس کے بہترین حصے پر ‘بھارت نے قبضہ جما لیا۔ کشمیر کا المیہ بھی انتہائی دردناک ہے۔ ریاستی حکمران پر لازم تھا کہ وہ پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرتا کیونکہ ریاست کی اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ بجائے اس کے کہ ہم عالمی اداروں سے مدد لے کر‘ مہاراجہ کو پاکستان میں شمولیت کے اعلان پر مجبور کرتے‘ ہم نے خود ہی کشمیر میں نیم فوجی مداخلت کر کے‘ فوج کشی کا الزام اپنے سر لے لیا۔ بھارت نے اسے بہانہ بنا کر‘ کشمیر پر باقاعدہ فوج کشی کر دی۔المناک حقیقت یہ ہے کہ وہاں قابض بھارتی افواج سے ‘لڑنے کے لئے ہمارے
پاس مطلوبہ اسلحہ اور جنگی سازوسامان موجود نہیں تھا۔ بھارتی فوج نے وادی کشمیر پر قبضہ کرنے کے بعد‘ اپنی پیش قدمی روک دی اور جہاں بھارتی فوجیں رکیں‘ وہیں پر جنگ بندی کر دی گئی۔ بھارت نے خود اقوام متحدہ میں جا کر ‘ پاکستانی فوج پر الزام لگا دیا کہ اس نے کشمیر پر فوج کشی کر کے‘ تقسیم کے اصول کی خلاف ورزی کی۔ اگر ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے ہمارے چند‘ فوجی افسروں نے‘ بھارتیوں کوکشمیر پر فوجی کشی کا بہانہ مہیا نہ کیا ہوتا‘ تو بھارت کے پاس فوج کشی کا کوئی جواز نہیں تھا۔پاکستان میں جو چند افراد‘ فاتحین آزاد کشمیر بن کر‘ سیاسی فائدے اٹھاتے رہے ہیں‘ ان کی فتوحات کا اندازہ‘ بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو کے جواب سے کیا جاسکتا ہے‘ جو انہوں نے ایک سوال پر دیا۔پنڈت نہرو سے پوچھا گیا تھا کہ انہوں نے کشمیر کے باقی حصے پر قبضہ کیوں نہ کیا؟ اس پر پنڈت نہرو نے جواب دیا ''وہاں کی زیادہ آبادی پنجابیوں پر مشتمل ہے‘ ہم وہاں اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔‘‘ بھارت کے ساتھ دیگر تنازعات میں سرکریک‘ وولر بیراج وغیرہ شامل ہیں لیکن بھارت جب تنازعات کی فہرست بناتا ہے‘ تو اس میں دہشت گردی اور سرحدی خلاف ورزیوں کے الزامات زیادہ ہوتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو بھارت ‘ہم پر جو الزامات لگاتا ہے‘ ان کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں۔ نہ دہشت گردی کرنے والے ہمارے کنٹرول میں ہیں‘ نہ ہم مقبوضہ کشمیر کو فوجی طاقت سے آزاد کرا سکتے ہیں۔ نہ سرکریک پر اپنے دعوے کے مطابق قبضہ کر پائے ہیں۔پاک بھارت مذاکرات کا سلسلہ بڑا طویل ہے اور ہر نیا رائونڈ شروع ہونے سے پہلے ‘آٹھ دس برس کا عرصہ گزر جاتا ہے اور اس دوران پاکستان کسی نئے مسئلے میں الجھ چکا ہوتا ہے۔ دونوںملکوں میں مذاکرات کا آخری دور قریباً آٹھ نو سال پہلے ہوا تھا۔ اس وقت دہشت گرد‘ پاکستان کے خلاف سرگرم نہیں تھے۔ اب نئے دور کے آغاز سے امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے ‘ کیا ہم واجپائی کے آخری دورہ پاکستان کے بعد ‘زیادہ طاقتور ہیں یا پہلے سے زیادہ مسائل میں گھرے ہیں؟ کراچی سندھ‘ بلوچستان اور فاٹا کے حالات ہمارے لئے پریشان کن ہیں۔ وفاق اور صوبوں کے مابین اعتماد کا رشتہ پہلے سے کمزور پڑ چکا ہے۔ بھارت مذاکرات کو بار بار معطل کر کے‘ انہیں کئی سال بعد بحال کرتا ہے اور معطلی کے عرصے میں پاکستان کے مسائل مزید بڑھ چکے ہوتے ہیں۔حکومت اور عوام کے رشتوں میں مزید دراڑیں آ چکی ہوتی ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ مذاکرات کی ٹائمنگ کرتے وقت‘ بھارت پاکستان کے اندرونی مسائل کا تجزیہ کرتا ہے؟ بھارت نے اب تک ہم سے جتنے بھی معاہدے کئے‘ کم و بیش سارے اس کے مفاد میں ہوتے ہیں۔ہم نے بھارت کے ساتھ کسی معاہدے میں ‘اپنے مفادات حاصل کئے ہوں‘ تو ازراہ کرم مجھے بتا دیجئے۔