60ء کے عشرے میںکراچی سے نوجوان طالب علموں کی جو طوفانی لہر اٹھی تھی‘ اس کے سرکردہ لیڈروں میں معراج محمد خان نمایاں تھے۔ جتنے بھی طالب علم لیڈر نمایاں ہوئے‘ ان میں معراج محمد خان بہترین مقرر ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سرفہرست رہتے۔ وہ جو کہا کرتے ہیں ''شعلہ بیاں مقرر‘‘ معراج پر یہ تعریف ہر اعتبارسے صادق آتی ہے۔ میں 1958ء میں کراچی گیا تھا۔ اس دور میں ترقی پسند شاعروںکا دم چھلا بن کرخوب سر اٹھا کے چلا کرتا۔ لاہور میں انجمن ترقی پسند مصنفین اور حلقہ ارباب ذوق کی محفلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا اور کراچی جا کر حلقہ ارباب ذوق کی تنقیدی محفلوں میں نمایاں حصہ لینے لگا‘ جس کے کرتا دھرتا ضیاجالندھری مرحوم تھے۔ میں ان دنوں روزنامہ انجام میں فلم ایڈیشن کا انچارج تھا۔ ساتھ ہی ادبی صفحہ بھی مرتب کیا کرتا۔ یہ تھا کراچی کا تہذیبی اور سیاسی ماحول‘ جس میں ہر شعبے کے سرگرم نوجوانوں سے تعلقات استوار ہوئے۔ علی مختار رضوی‘ نفیس صدیقی‘ جوہر حسین‘ معراج محمد خان‘ حسین نقی اور بہت سے دوست جن کے نام اب یاد نہیں آ رہے‘ دن رات کے ساتھی ہوا کرتے تھے۔ معراج محمد خان سے قریبی تعلقات تب استوار ہوئے‘ جب ان کی بیگم روزنامہ ''انجام‘‘ کے دفتر میں اس غرض سے تشریف لائیں کہ جیل میں ان کی ملاقات معراج محمد خان سے کرائی جائے۔ میں ایسے کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہا کرتا تھا۔ بھابی کو رکشے میں ساتھ بٹھا کر جیل پہنچا۔ ان دنوں میں سوشل فیچر بھی لکھا کرتا تھا‘ جس کی وجہ سے جیل کے عملے کے ساتھ سلام دعا رہتی۔ جلد ہی میں نے جیل کی ڈیوڑھی میں‘معراج محمد خان اور ان کی بیگم کی خصوصی ملاقات کرا دی۔ مجھے آج تک یاد ہے‘ بیگم معراج محمد خان‘ ان دنوں ''مشت استخواں‘‘ تھیں اور نسواری رنگ کی ساڑھی پہن کر تو ان کا حدود اربعہ‘ مٹھی بھر ہڈیوں سے بھی کم دکھائی دیتا۔
معراج محمد خان کے تین اور بھائی تھے‘ جن میں سے منہاج برنا اور دکھی پریم نگری سے بھی میری یاد اللہ تھی۔منہاج برنا شعبہ صحافت میں تھے اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں قائدانہ حصہ لیا کرتے تھے۔ عبداللہ ملک اور منہاج برنا دونوں کو جو سزا ملتی‘ اس پر ہم سب کارکن صحافی رشک کیا کرتے۔ ان دنوں صحافیوں کی تنخواہیں بہت کم تھیںاور لندن یا امریکہ جانا‘ ہمارے لئے خواب وخیال کی بات ہوا کرتی۔ لیکن برنا اور عبداللہ ملک کی خوش نصیبی دیکھئے کہ انہیں جب بھی سزا دینا ہوتی‘ ادارہ ان کا تبادلہ لندن کر دیتا۔ دکھی پریم نگری البتہ اسم بامسمٰی تھے۔ یعنی دکھی بھی تھے اور پریم نگری بھی۔ چھوٹی چھوٹی تنخواہوں پر‘ چھوٹے چھوٹے فلمی رسالوں میں کام کر کے‘ روزی روٹی کماتے۔ کچھ عرصہ میں بھی کراچی میں دکھی صاحب کے نقش قدم پر چلتا رہا ہوں۔ یعنی مختلف فلمی رسالوں میں 20روپے ہفتہ کے معاوضے پر کام کر کے‘ 60 یا 80 روپے ماہانہ کما لیتا۔ یہ اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی اور جب مجھے باقاعدہ گریڈ کے مطابق 320 روپے تنخواہ ملی‘ تو میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ کئی ہفتے جشن منایا۔
بھٹو صاحب سے میری ملاقات اتفاقیہ اور دلچسپ تھی۔ ہم دونوں نصف شب کو ایکسیلسیئر سے باہر جا رہے تھے کہ لفٹ میں یکجا ہو گئے۔ وہیں پر رسمی سلام دعا ہوئی۔ یہ غالباً ایک یا ڈیڑھ منزل کی بلندی تھی۔ لفٹ فوراً ہی گرائونڈ فلور پر آ گئی۔ فرانس کے وزیراعظم پمپیدو‘ پاکستان آئے ہوئے تھے اور اگلی شام فریئر ہال میں ان کا استقبالیہ تھا۔ بھٹو صاحب وزیرخارجہ تھے۔ میں نے ان سے اس تقریب میں شرکت کی درخواست کی۔ بھٹو صاحب نے انتہائی خوش اخلاقی سے ‘مجھے گاڑی تک ساتھ چلنے کا کہا اور وہاں اپنے پی اے کو آرڈر دیا کہ مجھے بھی فرانس کے وزیراعظم کی تقریب میں مدعو کر لیا جائے۔ ایسے مواقع پر تکاخوب لگتا ہے۔ بھٹو صاحب نے جب مجھے دعوت دینے کا آرڈر دیا‘ تو پی اے نے وی آئی پی سمجھ کر معززین میں بٹھا دیا۔ کیا شاندار تقریب تھی؟ اور وہاں میرا جو موڈ بنا‘ وہ اس تقریب سے بھی زیادہ شاندار تھا۔ بھٹو صاحب کا حافظہ غضب کا تھا۔ بھرے جلسے میں بھی وہ کسی کی شکل دیکھ لیتے‘ تو ہفتوں بلکہ مہینوں بعد اسے دیکھ کر پہچان لیا کرتے۔ میں جب اخبارخواتین کے لئے بیگم نصرت بھٹو کا انٹرویو لینے ‘بھٹو صاحب کے گھر پہنچا‘ تو وہ اپنی لائبریری میں بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ بیگم صاحبہ اپنے مہمان کو (یعنی مجھے) لے کر لائبریری میں گئیں‘ تو بھٹو صاحب فوراً پہچان گئے اور مجھے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر‘ انٹرویو لینے کے لئے کہا۔
مولانا کوثر نیازی کے ساتھ میرے تعلقات کافی اچھے تھے۔ ان کا ویکلی ''شہاب‘‘ میں نے بطور ایڈیٹر چلایا‘ تو ضرورت سے زیادہ ہی چل گیا۔ ''شہاب‘‘ کے ساتھ مولانا کی لیڈری بھی چل گئی اور ان کا اتنا ٹھاٹ ہو گیا کہ بھٹو صاحب نے خود مولانا کو اپنی پارٹی میں شرکت کی دعوت دی۔ یہاں سے پیپلزپارٹی میں دو شخصیتوں کا ٹکرائو شروع ہو گیا۔ ایک گروپ معراج محمد خان کا تھا اور دوسرا مولانا کوثر نیازی کا۔ لیکن یہ گروپ بندی ظاہری تھی۔ ذاتی تعلقات میں معراج محمد خان اور مولانا کوثر نیازی ‘ دونوں ہی بہترین دوستوں کی طرح ملا کرتے۔ دونوں کی نظریاتی شناخت ان کی مجبوری تھی ۔ پارٹی کے اندر ترقی پسندوں کا جو چھوٹا سا گروپ تھا‘ معراج محمد خان اس کے لیڈر کہلانے لگے اور نام نہاددائیں بازو کے لیڈر مولانا کوثر نیازی بن گئے۔ لیکن آج میں یاد کرتا ہوں‘ تو اس دور کی ساری نظریاتی شناختیں ‘ ہیولے دکھائی دیتی ہیں۔ مثلاً دائیں بازو کے نمایاں ترین لیڈر مولانا مودودی تھے۔ لیکن ان پر سب سے کڑی تنقید مولانا کوثر نیازی کیا کرتے اور سوشلسٹوں کے سرکردہ لیڈر معراج محمد خان تھے۔ لیکن پارٹی کے اندر اصلی سوشلسٹ‘ جیسے خورشید حسن میر‘ شیخ محمدرشید‘ ملک معراج خالد جیسے لوگ‘ معراج محمد خان کو اصلی سوشلسٹ نہیں مانتے تھے۔عبداللہ ملک‘ معراج محمد خان سے زیادہ بھٹو صاحب کے قریب تھے۔ بلکہ یوں کہوں تو شاید بے جا نہ ہو کہ معراج کے مقابلے میں عبداللہ ملک کی بھٹو صاحب سے‘ زیادہ قربت بلکہ بے تکلفی تھی۔ معراج محمد خان ترقی پسندوں کی چینی لابی کا حصہ سمجھے جاتے تھے۔ جبکہ عبداللہ ملک سوویت لابی میں نمایاں تھے۔ معراج محمد خان کو عبداللہ ملک سے کم اہمیت ملنے کی واحد وجہ ''گھر کی مرغی دال برابر‘‘ کے مثل تھی۔ یعنی پارٹی کا حصہ ہونے کی وجہ سے بھٹو صاحب‘ معراج محمد خان کے لیڈر تھے۔ جبکہ عبداللہ ملک کو بھٹو صاحب کے دوست کا درجہ حاصل تھا۔ معراج محمد خان کو پارٹی کی طرف سے وفاقی مشیر اور وزیر بھی بنایا گیا۔ لیکن کابینہ میں انہیں وہ مقام نہ ملا‘ جس کے وہ مستحق تھے۔ میں چونکہ مولاناکوثر نیازی اور معراج محمد خان دونوں کی ذاتی قربتوں کو جانتا تھا‘ اس لئے مجھے یہ لکھنے میں کوئی تامل نہیں کہ کسی حد تک‘ عبداللہ ملک اور معراج محمد خان کی چپقلش ‘ ان کی سیاسی وابستگیوں کی وجہ بنی۔ معراج محمد خان چینی لابی سے زیادہ قریب ہو گئے اور عبداللہ ملک تو ایک طرح سے تو ماسکو لابی کے بانی تھے۔
آخر میں ایک دلچسپ واقعہ بھی لکھ دیتا ہوں۔ بھٹو صاحب نے جو پہلی کابینہ بنائی‘ اس میں مولانا کوثر نیازی اور معراج محمد خان‘ دونوں کے نام نہیں تھے۔ جس پر دونوں بہت ناراض تھے۔ دونوں کو بھٹو صاحب نے راولپنڈی بلا کر پنجاب ہائوس میں ٹھہرایا۔ حنیف رامے صاحب جو کہ ''مساوات‘‘ کے ایڈیٹر تھے‘ انہیں پنجاب کی کابینہ میں شامل کرنے کا فیصلہ ہونا تھا۔ لہٰذا ان کا جانشین بنانے کے لئے مجھے بھی راولپنڈی بلا لیا گیا تھا۔ مولانا کو ابتدا میں مشیراطلاعات و نشریات بنایا گیا جبکہ معراج محمد خان کا محکمہ مجھے یاد نہیں بہرحال انہیں مشیر بنایا گیا تھا اور یہ دونوں ہی اپنی اپنی تقرری پر خوش نہیں تھے۔ مولانا کی قسمت اچھی تھی کہ پی ٹی وی پر ڈھاکہ کا ایک ایسا منظر دکھا دیا گیا‘ جسے باقی ماندہ پاکستان کے لوگوں نے پسند نہیں کیا۔ ردعمل اتنا شدید تھا کہ بھٹو صاحب نے فوراً ہی پیرزادہ کی وزارت واپس لے کر‘ مولانا کے سپرد کر دی‘ جو انہیں اتنی راس آئی کہ کابینہ کے سب سے اہم وزیر بن گئے۔ جبکہ معراج محمد خان اپنی افتاد طبع کی وجہ سے‘ بطور وزیربھٹو صاحب کے زیادہ قریب نہ ہو سکے اور کھسکتے کھسکتے پارٹی سے ہی باہر چلے گئے۔ لیکن معراج کے وزارت چھوڑنے کا سبب مولانا نہیں ‘ حفیظ پیرزادہ تھے۔ اب تو کم و بیش یہ سارے ہی کردار اپنی ابدی خوابگاہوں میں جا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت کرے۔