براعظم ایشیاء میں ساڑھے چار ارب کے لگ بھگ دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی موجود ہے۔ اتنی بڑی آبادی ‘ قدرتی ماحول‘ آب و ہوا‘کلچر اور وسائل سے مالا مال اس خطے پر دنیا کی بڑی طاقتوں کی نظر رہی ہے۔ہر دور میں کوششیں کی گئیں کہ ان وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے حاصل شدہ معاشی فوائد کو اپنے خطوں تک پہنچایا جاسکے۔ایشیاء میں دنیا کی قدیم اقوام آباد ہیں۔مجموعی طور پر چار کروڑ 45 لاکھ اناسی ہزار سکوائر کلو میٹر رقبے پر پھیلا ہے۔ اس جغرافیائی قافلے میں خطے کے55 ممالک شامل ہیں۔چین اور بھارت اس خطے میں دو بڑے آبادی رکھنے والے ممالک ہیں ‘جبکہ وسائل کے اعتبار سے چین سب پر حاوی ہے۔ خطے میں اپنا اثر و رسوخ رکھتا ہے‘ اور ایشیائی ممالک میں مختلف طریقوں سے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے پالیسیاں ترتیب دیتارہتا ہے‘ یعنی چھوٹے و کمزور ممالک کو مالی امداد‘ قرضے‘ ٹیکنالوجی و ترقیاتی منصوبے اور فوجی امداد فراہم کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔انہی پالیسیوں کی بدولت اسے خطے میں سب سے زیادہ سیاسی حمایت حاصل ہے۔
چین نے اپنے ون بیلٹ ون روڈ کے تحت بہت سے ممالک کواس نظام کی تعمیر کے لیے قرضوں کی شکل میں غیرملکی امداد مہیا کی۔ بی آر آئی منصوبے میں 175 معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ 90 ارب ڈالر کے منصوبوں پر عمل ہوچکا ہے‘ جبکہ انفرااسٹرکچر منصوبوں پر ایک ہزار ارب ڈالرز خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ۔ بی آر آئی منصوبوں کی فنڈنگ میں باضابطہ غیر چینی مالی ذرائع اور نجی مالیاتی شعبے کی شمولیت سے مذکورہ سرمایہ کاری میں اضافے کا امکان بھی ظاہرکیا جا رہاہے۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل معیشت اور ای کامرس جیسے اشتراکی فورمز کی شمولیت اور اس کے ساتھ بی آر سٹیڈیز نیٹ ورک سے وابستہ تھنک ٹینک کا قیام ضروری سمجھا جا رہا ہے۔امریکا نے بی آر آئی پر اپنی مخالفت واضح کی اور ترقی پذیر ممالک اور اپنے اتحادیوں کو اس منصوبے میں شمولیت کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے سیاسی اور میڈیا مہم کی سرپرستی بھی کی۔ امریکا اور مغرب کی جانب سے بڑھا چڑھا کر پیش کی جانے والی چین کی قرضے میں پھانسنے کی حکمت عملی سے بچنے کی تلقین‘ کرپشن اور ناکام منصوبوں کی کہانیاں باربار دہرائی گئیں‘ ایسی رپورٹس کو متعلقہ فریقین بے بنیاد قرار دے چکے ہیں۔ امداد وصول کرنے والے بہت سے ممالک بڑے پرجوش اور خوش دکھائی دئیے‘اس میں کوئی شک نہیں کہ چین ابھرتی ہوئی معیشت ہے ‘جس کا مستقبل روشن دکھائی دیتا ہے‘ جبکہ بڑی طاقتیں درحقیقت دن بدن تنزلی کا شکار ہیں ۔
سفارتی حلقوں میں غیرملکی امداد مقبول ہے‘ نیک ارادوں کے حامل ‘ ایک باخبرغیرملکی حکومت کو امداد وصول کرنے والے ملک کی بدعنوان حکمرانوںسے بھی نمٹنا ہوتا ہے‘ نیزاس امداد کو عام شہری کے لیے رحمت کے بجائے زحمت بننے سے بھی بچانا ہوتا ہے۔مختلف حالات میں امداد کو سیاسی اصلاح پسندوں کے ساتھ تعاون کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے یا امداد کو غیر ضروری اشیاء کی خریداری پر صرف کیا جاسکتا ہے‘ تاکہ اس کے ذریعے بدعنوان حکمرانوں کا تحفظ کیا جاسکے۔ لاطینی امریکا کے ممالک 1970ء اور1980ء کے عشروں میں اسی قسم کے تجربات سے گزرے تھے۔سیاسی پہلو سے ‘اگر بات کی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ عملی شکل اختیار کرنے والی غیرملکی امداد بالعموم سیاسی مقاصد میںاستعمال ہونے سے ضرر رساں ہی ثابت ہوئی ہے۔ یہ قطعاً نہیں کہا جا سکتاکہ شہریوں کو اپنی غربت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے‘ مگر ایک اہم بات یہ ہے کہ جو امداد‘ جن مقاصد کے لیے لی گئی ہو‘انہی پر صرف ہونی چاہیے۔پہلی اور فطری بات تو یہ کہ کرپشن کا خاتمہ ہو۔غیرملکی امداد مشروط ہویا بلاشرائط‘ کسی بھی صورت میں اس کے استعمال پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ حقیقی کاموں میں لگی یا نہیں۔اس ضمن میں بہت سے اقدامات اپنی نوعیت کے اعتبار سے سیاسی ہیں۔ ماضی میں اور موجودہ دور میں بھی سیاست دانوں پر امداد میں خرد برد کے الزامات لگ رہے ہیں۔ہمیں دیگر ممالک کی طرح بدعنوانی پر مبنی قواعد وضوابط سے جڑے مسائل سے نمٹنے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ان کے حل کے لیے بھاری مقدار میں غیرملکی سرمائے کی ترسیل کی ضرورت بھی نہیں ۔ہمیں اس بات کا ادراک کرناہوگا کہ روزگار اور کاروبار سے متعلق لائسنسوں کے اجرا کے لیے کڑی شرائط‘ غیر متعین سرخ لکیر یا غیر منطقی اور بلا امتیاز ٹیکسوں کے نفاذ کا مسئلہ بنیادی طور پر داخلی سطح پر حل کرنا ہوگا۔
کوئی دو رائے نہیں کہ بہت سے ترقی پذیر ممالک میں شہری مقہور اور بے بس دکھائی دیتے ہیں اور انہین مطلوبہ اصلاحات کو شروع کرنے کا کوئی موقع دستیاب نہیں ۔غیرملکی امداد کی بہترین شکل درحقیقت غیرملکی سرمایہ ہے‘امداد نہیں ہے۔ اسے سرمایہ داروں کی جانب سے رضا کارانہ طور پر دی جانے والی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری قرار دیا جا سکتا ہے ۔ میکسیکو میں گزشتہ پچیس سال کے دوران معاشی تجربات کیے گئے ۔ بلند معیارِ زندگی کا حامل شمالی امریکہ ‘آزاد تجارت کے سمجھوتے کی چھتری تلے امریکہ کی جانب سے سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے۔ امریکہ نے اس عرصے کے دوران میں اربوں ڈالرز امداد کی شکل میں تقسیم کیے تھے‘ لیکن اس سے حاصل وصول کچھ نہیں ہوا تھا‘پھر معاشی پالیسیاں ماضی کے واقعات سے سیکھتے ہوئے تبدیل کی گئیں۔ہمیں بھی اپنی پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔