کم و بیش ایک سال پہلے کی بات ہے جب پاکستان اور دوست ممالک کے درمیان تعاون کی نئی جہتیں تلاش کرنے کیلئے اہم پیش رفت ہوئی۔ یہ اہم ترین پیش رفت مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے حوالے سے ہوئی تھی، جس میں پاکستان فریق نہ ہونے کے باوجود اہم ''کردار‘‘ کا حامل ہونے کے طور پر کسی نہ کسی حوالے سے گزشتہ ایک صدی سے اپنا وجود رکھتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف 39ملکی اسلامی فوجی اتحاد کے سلسلے میں پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے پہلے سعودی وزیر خاجہ پاکستان آئے اور پھر سعودی وزیر دفاع نے پاکستان آکر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتوں میں اہم مشاورت کی۔ اعلیٰ سطح کی سعودی قیادت کی پاکستان آمد سے صرف یہ نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی دوستانہ اور برادرانہ روابط کی عکاسی ہوتی تھی بلکہ مشرق وسطیٰ کے معاملات میں اسلامی دنیا کے اہم قائد کے طور پر بھی ابھرتے پاکستان کے قد کاٹھ میں مزید اضافہ ہواتھا۔ دراصل مشرق وسطیٰ کے معاملات میں نہ صرف پاکستان کے سب سے مخلص اور مشکل وقت کے ساتھی سعودی عرب کی امیدیں پاکستان سے وابستہ تھیں بلکہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک اور برادر پڑوسی ملک ایران کی نظریں بھی پاکستان پر لگی تھیں۔ ایک جانب عرب ممالک خطے میں خطرات بھانپتے ہوئے خود کو محفوظ بنانے کیلئے پاکستان سے فوجی مدد مانگتے نظر آرہے تھے تو دوسری جانب ایران بھی صورتحال کا بغور جائزہ لیتے ہوئے پاکستان کے پڑوسی ہونے کے فوائد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ یہ تھی وہ صورتحال جس نے یقینا ایک جانب پاکستان کی اہمیت اور کردار کی فعالیت کو بہت زیادہ بڑھا دیا تھا اور دوسری جانب سعودی ایران کشمکش کی وجہ سے پاکستان کو ایک راستے پر ڈال دیا تھا جو تلوار سے بھی تیز دھار تھا۔
جنوبی ایشیائی خطے سے باہر دوسرے خطوں میں پاکستان کی اہمیت کا بڑھنا یقینا پاکستان کی ایک بڑی کامیابی تھی اور اس کامیابی کے پیچھے بلاشبہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا اتحادواتفاق کارفرما تھا۔ لیکن جیسا کہ سامنے کے حقائق کے باوجود بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں بالخصوص پاکستان میں سال کے 365دن افواہوں کا بازار گرم رہتا ہے، اِنہی افواہوں میں ایک افواہ آج کل بھی بہت زیادہ بکتی نظر آتی ہے اور وہ افواہ یہ ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر نہیں۔ لیکن حقائق ہمیشہ کچھ اور ہی بتاتے رہے ہیں کہ کم و بیش تمام معاملات میں حکومت اور فوج نہ صرف ایک صفحے پر رہی ہیں بلکہ داخلی و خارجی پالیسیوں اور اُن پالیسیوں پر عملدرآمد کے معاملے میں بھی دونوں کی سوچ اور عمل میں مکمل یکسانیت رہی ہے، مگر حقائق سے دور ایسے لوگوں کا کیا کیا جائے جنہیں افواہوں کے سوا دوسرا کوئی ''کاروبار‘‘ آتا ہی نہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے معاملے میں بھی یہی صورتحال نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی قیادت ہو یا ایرانی قیادت دونوں کی پاکستان آمد پر پاکستان کی صرف سیاسی قیادت سے ہی ملاقاتیں نہیں ہوتی رہیں بلکہ اہم اسٹریٹیجک معاملات پر ملاقاتوں اور مشاورت کا عمل عسکری قیادت کے ساتھ بھی کیا جاتا رہا ہے۔
یمن اور سعودی عرب کے تنازع پر جب سعودی عرب نے پاکستان سے فوجی مدد مانگی تھی تو پاکستان میں ایک مخصوص لابی نے آسمان سر پر اٹھالیا تھا، حالانکہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کا پہلے دن سے ہی موقف تھا کہ وہ ایسا کوئی اقدام نہیں کریں گے، جس سے پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سال پہلے سعودی عرب اور ایران کا موقف جان کر اس اہم صورتحال سے نمٹنے کی باری آئی تو بھی پاکستان کے سوا دوسرا کوئی ایسا اسلامی ملک(حد تو یہ ہے کہ کوئی عالمی طاقت بھی اس پوزیشن میں نہیں تھی، جو مقام
اور کردار قدرت نے اس معاملے میں پاکستان کو دے رکھا ہے)نہیں تھا جو دونوں ممالک کے درمیان مصالحت کراسکتا ہو۔پہلے بھی لکھا تھا کہ پاکستان کا اسلامی دنیا اور عالمی برادری میں اِس وقت جو مقام ہے اُس کے حوالے سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ماضی میں اگر پاکستان میں سیاسی میدان میں بے جا اکھاڑ پچھاڑ کا عمل جاری نہ رہتا تو قدرت کب کی پاکستان کو اِس کے جائز اور ممتاز مقام سے نواز چکی ہوتی۔بہرحال دیر آید، درست آید کے مصداق بلاشبہ پاکستان اس مقام پر ہے کہ خطے میں امن کیلئے ایسا روڈ میپ دے سکتا ہے ، جو ناصرف قابل عمل ہو بلکہ اس کے انتہائی مثبت نتائج بھی برآمد ہوں۔خیر اصل بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشمکش نے شدت اختیار کی تو اس اہم علاقائی اور عالمی کردار کو کسی بھی تنازع یا افواہوں کی گرد تلے دبنے سے بچانے کیلئے وزیراعظم نواز شریف نے انتہائی صائب اقدام یہ کیا کہ جب سعودی عرب اور ایران کے دورہ پر روانہ ہوئے تو اُس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف بھی میاں نواز شریف نے ہمراہ تھے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کے ایک ساتھ پہلے سعودی عرب اور پھر ایران جانے سے ناصرف اس دورے کی اہمیت بڑھ گئی تھی بلکہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاملات اور گفتگو بھی نتیجہ خیز اور موثر رہی۔ صرف یہی نہیں ہوا بلکہ میڈیا میں اُڑنے والی افواہیں اور جھوٹی خبریں بھی جڑ پکڑنے سے پہلے ہی دم توڑگئیں۔ یہی وہ وقت تھا جب یہ باقاعدہ طے ہوگیا تھا کہ
آرمی چیف جنرل راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے فوری بعد اس 39 ملکی اسلامی فوجی اتحاد کی کمان سنبھالیں گے جو دہشت گردی کے خلاف لڑنے کیلئے تشکیل دیا جارہا تھا۔
قارئین کرام!!کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف نے جس وقت پاک فوج کی کمان سنبھالی تھی تو اس وقت ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر تھی۔ دہشت گرد ملک میں دندناتے پھرتے تھے، بم دھماکوں میں معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کے جنازے اُٹھ رہے تھے، پشاور اور کراچی جیسے بڑے شہر جل رہے تھے اور دہشت گردوں کی کمین گاہ قبائیلی علاقوں میں کسی کو گھسنے کی ہمت نہ تھی۔ اِن حالات میں یہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف ہی تھے جنہوں نے دہشت گردوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور بالخصوص سانحہ پشاور کے بعد تمام ملک دشمن قوتوں کے خلاف بلا تفریق کارروائیوں کا آغاز کردیا، جس کے بعد ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر اور کراچی میں امن قائم ہونے لگا۔ امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے سے جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف ناصرف ملک کے اندر ایک مقبول آرمی چیف کی حیثیت سے ابھرے بلکہ ملک سے باہر بھی ان کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوا۔اب دہشت گردی کے خلاف لڑنے کیلئے اگر 39 اسلامی ممالک جنرل راحیل شریف کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو پاکستان میں ایک مخصوص لابی کو کیا تکلیف ہے؟ جنرل راحیل شریف کی اس نئی اسائنمنٹ کی مخالفت کرنے والے کہیں دنیا میں دہشت گردی کو پھلتا پھولتا تو نہیں دیکھنا چاہتے؟