کتابت کا فن اپنے آغاز سے اب تک بہت سے دور دیکھ چکا ہے، لیکن گزشتہ تین دہائیوں میں بالخصوص جب کتابت عام قلم سے کمپیوٹر میں منتقل ہوئی تو شروع میں کسی کو گمان بھی نہیں تھا کہ قلم کا جادو کبھی ختم بھی ہوسکتا ہے۔ اُس وقت کتابیں اور عام اخبارات کی تحریریں اور سرخیاں قلم سے اتنے خوشنما انداز میں لکھی جاتی تھیں کہ کاتبوں کی مشاقی پر عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اچھے کاتب کو محض کاتب کی بجائے ''خوش نویس‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ایک زمانے میں دنیا کی ہر زبان کے اخبارات میں قلم اور سیاہی کا دور تھا۔ کاتب خبروں کو لکھتے اور آخری وقت میں خبروں میں تبدیلی اگر مقصود ہوتی تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوجاتا تھا۔ اُس دور میں کاتب صحافیوں سے بالاتر سمجھے جاتے تھے، کیونکہ اگر کاتب لکھنے سے انکار کردیتے تو اخبار شائع کرنا ممکن نہ رہتا تھا۔ لیکن جدید ٹیکنالوجی بالخصوص کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے اخباری دنیا میں کاتبوں کی بالا دستی ختم کر دی۔ وہ کام جو پہلے کاتب گھنٹوں میں بڑے ناز اور نخروں کے ساتھ کرتے تھے، اب وہی کام ایک کمپوزر منٹوں میں کردیتا ہے۔ کتابت کا ''کمپیوٹری‘‘ سفر شروع ہوا تو پھر اِس نے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیا۔ ایک سے بڑھ کر ایک سافٹ سامنے آتا چلا گیا اور قلم سے کتابت پس منظر میں چلی گئی۔ ابھی چند برس پہلے ایک ہندوستانی مسلمان سید منظر کی کمپنی نے ایک ایسا سافٹ ویئرتیار کیا جس سے خطاطی میں کمپیوٹر پر ہی کشش لائی جا سکتی ہے۔ اِسی کمپنی نے اردو کے پہلے کمپیوٹر سافٹ ویئر ''اِن پیچ‘‘ بنانے کے علاوہ لاہوری نستعلیق اور دیگر چالیس غیر نستعلیق ''خط‘‘ بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس سافٹ ویئر سے پہلے یہی سمجھا جاتا تھا کہ ایک کاتب ہی تحریر کو پرکشش بنا سکتا ہے لیکن اس سافٹ ویئر کی مدد سے کوئی بھی شخص حروف کی خطاطی کا اسلوب تبدیل کر سکتا ہے۔اس سافٹ ویئر کے بعد یہ سوال اُٹھا کہ کیا کمپیوٹر نے فن خطاطی کو مات دے دی ؟کیونکہ پہلے اخبارات، پھر کتابیں کمپیوٹر پر شائع ہونے لگیں اور اب قرآن شریف کا ہند و پاک نسخ کشش کے ساتھ ورڈ کی فائل میں قدم رکھنا اس خدشے کو جنم دے رہا تھا کہ اب کاتبین کو اپنی قلم اور سیاہی کا ساتھ چھوڑنا ہو گا۔اگرچہ یہ سوال اُس وقت سے درپیش تھا جب سے کمپیوٹر نے ورڈ کی فائل بنائی اور پھر ان پیچ وجود میں آیاتھا لیکن نت نئے سافٹ ویئرز سے یہ خدشہ مزید بڑھتا چلا گیا۔
کمپیوٹر سافٹ ویئرز نے یقینا کتابت اور خطاطی کو نئی جہت بخشی، جس کے بعد کہا جانے لگا کہ اب قلم سے لکھنے والے پروفیشنل خطاط گھر بیٹھ جائیں گے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اخبارات کے بعد جب کتابوں کی کتابت بھی کمپیوٹر پر ہونے لگی تو پروفیشنل کاتبوں اور خطاط کو اپنی روزی روٹی خطرے میں نظر آئی جس کے بعد انہوں نے اسلامی خطاطی کی جانب لوٹنا ہی مناسب سمجھا۔جس سے اِس فن کو دوبارہ جلا ملنا شروع ہوئی۔انسان نے کمپیوٹر کے ذریعے چاہے جتنی مرضی ترقی کرلی، لیکن ہاتھ سے کیے ہوئے کام کی آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ مانگ ہے، یہی حال فن خطاطی کا بھی ہے کیونکہ خطاطی کا فن کمپیوٹر کے دماغ میں نہیں بلکہ ایک ماہر مشاق کاتب اور خطاط کے ذہن اور اس کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔اِنہی ہاتھوں کے بنانے ہوئے فن خطاطی کے ایسے نادر و نایاب نسخے دنیا بھر کے عجائب گھروں میں موجود ہیں جن کا مقابلہ کوئی کمپیوٹر نہیں کر سکتا ہے۔
فن خطاطی کمپیوٹر کی کتابت سے کتنی ممتاز ہے؟ اِس کا ایک ثبوت گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہونے والی اسلامی خطاطی کی کانفرنس اور نمائش میں بھی دیکھنے کو ملا۔ یہ کانفرنس اور نمائش دراصل وزارت قومی تاریخ و ادبی ورثہ کے روح رواںاور وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی کے زرخیز ذہن کی تخلیق تھی۔ پاکستان بھر سے آنے والے خطاط حضرات نے اپنے فن پارے اور شاہکار اس نمائش میں پیش کیے تھے، جنہیں دیکھ کر واقعی یقینا کرنے کو جی چاہتا تھا کہ یہ عام انسانی ہاتھوں نے تیار نہیں کیے اور یہ کہ واقعی خطاطی کا فن کمپیوٹر کے دماغ میں نہیں بلکہ ایک ماہر اور مشاق کاتب اور خطاط کے ذہن اور اس کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ان فن پاروں کی خطاطی میں کہیں کوئی لوچ تھا، نہ کوئی سقم تھا اور نہ ہی کہیں کوئی خامی دکھائی دیتی تھی۔ اسی نمائش کے دوران ملاقات میں پتہ چلا کہ قومی سلامتی کے لیے وزیر اعظم کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ صرف بندوق چلانا ہی نہیں جانتے بلکہ قلم چلانا بھی جانتے ہیں اور بہت اچھے خطاط ہیں۔پاکستانی بہت جلد جنرل ناصر کی خطاطی کے فن پارے بھی دیکھ سکیں گے۔
نمائش سے پتہ چلا کہ اس وقت اسلامی خطاطی کے کم و بیش چالیس خط رائج ہیں، جن میں اسلوب، اسیر، نستعلیق، نوری نستعلیق، لاہوری نستعلیق، دیوانی، صدف،اسود، بتول، بریدہ، محقق، رقاع ، غالب، کنیز، نسخ اور دیگر خط اپنی مثال آپ سمجھے جاتے ہیں۔ نمائش میں موجود فن پاروں کو دیکھ کر ثابت ہوتا ہے کہ خطاطی ایک ایسا فن ہے جس میں حروف کو منفرد اور دلکش انداز میں لکھا جاتا ہے، مگر خطاطی کے خوبصورت نمونے دیکھنے والوں کو اس بات کا اندازہ شاید ہی ہو کہ اس کے پیچھے کتنی محنت اور مسلسل ریاضت کارفرما ہوتی ہے؟فن خطاطی میں حروف تہجی کی ریاضیاتی پیمائش ایک ایسا منفرد فن ہے جس میں مہارت حاصل کرنے والوں نے اپنی عمریں صَرف کی ہیں، جو انتہائی لگن اور توجہ مانگتا ہے۔پاکستان کے علاوہ ایران، ترکی اور مصر کے خطاط بھی اس شعبے میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ ایران میں بھی خطاطی کا فن بہت ترقی پاچکا ہے، جہاں خط نستعلیق میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی کرائی جارہی ہے۔ مگر پاکستان میں اس فن کو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اتنی پذیرائی نہیں مل پا رہی جس کا یہ شعبہ حقدار ہے۔
قارئین کرام!!اگرچہ کمپیوٹر نے خطاطوں سے کتابت کا بنیادی ذریعہ چھین لیا لیکن خطاطی کا ہنر نہیں چھین سکا۔ اسلامی تاریخ کا یہ عظیم فن آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اسلامی خطاطی کا فن کبھی مرنہیں سکتا، اس لیے فن خطاطی دنیا سے کبھی ختم نہیں ہو گا کیونکہ دیگر تہذیبوں کے مقابلے میں خطاطی اسلامی تہذیب کا ایک جزو لاینفک ہے۔ خاص طورپر قرآنی آیات کی خطاطی ، مساجد اور دیگر عمارتوں میں اس کے نمونے نظر نہ آئیں تو اسلامی دنیا میں کوئی بڑی عمارت مکمل ہی نہیں ہوتی، لیکن اگر حکومت اس شعبے کی باقاعدہ سرپرستی شروع کردے تو خطرات اور خدشات میں گھرا یہ عظیم اسلامی ورثہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوجائے گا۔