فساد کی جڑ اور جڑ کا خاتمہ!

گزشتہ ایک ہفتہ پاکستان پر بہت بھاری گزرا۔ یکے بعد دیگرے ہونے والے کئی خودکش دھماکوں میںایک سو سے زیادہ شہری جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوگئے، دہشت گردی کے اِن واقعات نے پرامن منزل کی جانب جاتے پاکستان میں ایک بار پھر خوف اور دہشت کی لہر دوڑادی۔ ملک دشمن عناصر کی جانب سے دہشت گردی کی یہ نئی لہر بلاشبہ کھلی جنگ کے مترادف تھی، جس نے ملک کے کونے کونے میں غم و غصے کی لہر دوڑادی۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات اپنی نوعیت میں بالکل منفرد واقعات تھے کیونکہ جہاں ایک جانب مسلسل دعوے کیے جارہے تھے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے، وہاں اِس نوعیت کی دہشت گردی کی شدید لہر نے بہت سے سوالات کو بھی جنم دیا۔وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومتیں اگر ایک جانب یہ کہتی رہیں کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے وہ مکمل پرعزم ہیں تو دوسری جانب تواتر سے یہ بھی کہا جاتا رہا کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار کو تعاقب کرکے کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا، لیکن اس طرح کے اعلانات اور بیانات اُس وقت مضحکہ خیز صورتحال اختیار کرجاتے، جب پنجاب میں بڑے پیمانے پر آپریشن سے گریز کی پالیسی نظر آتی، یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی اس نئی لہر کے بعد پنجاب میں دہشت گردوں کی موجودگی کے الزامات کے باوجود رینجرز کے آپریشن سے گریز نے خود وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے خلاف تنقید کا طوفان کھڑا کردیا، جب ایپکس کمیٹی نے بھی پنجاب میں رینجرز کو اختیارات دینے کے سفارش کی تو پنجاب حکومت نے 60 روز کیلئے رینجرز کو خصوصی اختیارات دے کر پنجاب میں تعینات کرنے پر آمادگی ظاہر کرہی دی، اور یوںحکومت نے رینجرز کو پنجاب میں تعینات کرنے کا فیصلہ کرکے الزامات لگانے والوں کے منہ بھی ایک طرح سے بند کردیے۔
دوسری جانب ملک میں ایک ہفتے کے دوران دہشت گردی کی پے در پے کارروائیوں کے بعد ضروری ہوگیا تھا کہ ملک دشمن عناصر کو منہ توڑ جواب دیا جائے اور دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ یوں تو ملک میں ضربِ عضب کے نام سے پہلے ہی آپریشن جاری ہے، جس کا دائرہ کار ملک کے مخصوص حصوں یا علاقوں تک محدود تھا، البتہ ملک کے باقی حصوں میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائیاں اور ضروری اقدامات کیے جارہے تھے، لیکن یہ کارروائیاں اور اقدامات دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد ناکافی ثابت ہوئے، یہی وجہ ہے کہ معصوم شہریوں اور پولیس افسران کی شہادت کے بعد پاک فوج نے ایک اعلی سطح کے اجلاس میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف ''رد الفساد‘‘ کے نام سے ایک نیا سکیورٹی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ افواج پاکستان کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق آپریشن ''رداالفساد‘‘ کا مقصد ملک میں بچے کھچے دہشت گردوں کا بلاتفریق خاتمہ کرنا ہے ، آپریشن رد الفساد کا مقصد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنا بھی ہے۔ اس آپریشن میںملک کو اسلحے سے پاک کیا جائے گا اور آتشیں مادے پر کنٹرول حاصل کیا جائے گا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شروع ہونے والے اس آپریشن میں پاکستانی فضائیہ، بحریہ، سول فورسز اور دیگر سکیورٹی ادارے بھی حصہ لیں گے، جبکہ پنجاب میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں نیم فوجی دستے یعنی رینجرز حصہ لیں گے، جنہیں پہلے ہی 60 روز کے لیے پنجاب میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے اوروفاقی 
کابینہ پنجاب میں رینجرز کو انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں پولیس کی معاونت کے اختیارات دینے کی منظوری دے چکی ہے۔ آپریشن ردالفساد میں یقینا اب وہ سب کچھ کیا جائے گا جو پہلے نہیں کیا گیا تھا یا کیا نہ جا سکا تھا۔
اس نئے آپریشن کے بعد امید کی جانی چاہیے کہ ناصرف اندرون ملک امن قائم ہوگا بلکہ سرحد کی سیکیورٹی بھی یقینی بنائی جائے گی۔آپریشن ردالفساد کوئی پہلا فوجی آپریشن بھی نہیں ہے، ماضی کو دیکھیں یا حال کا جائزہ لیں تو پاک فوج مختلف علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف اِسی طرح کے آپریشنز کرتی رہی ہے۔مثال کے طور پر اس سے قبل دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پردہشت گردوں نے بے رحمانہ انداز میں حملہ کرکے معصوم بچوں کا قتل عام کیا تو جون 2014ء میں ملک کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میںشروع کیے جانے والے فوجی آپریشن ضربِ عضب کا دائرہ ملک کے دیگر علاقوں تک پھیلادیا گیا تھا۔ قبل ازیں 2007ء میں سوات میں آپریشن راہ حق ہوا اور پھر 
2009ء میں وادی کے بڑے علاقے پر شدت پسندوں کے قبضے کے بعد آپریشن راہ راست کیا گیا تھا۔ 2008ء میں باجوڑ ایجنسی میں آپریشن شیر دل بھی کیا گیا، جبکہ آپریشن راہ نجات اس کے علاوہ ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردوں اور انتہاپسندوں سے نمٹنے کیلئے بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان بھی تیار کیا گیاتھا، جس میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا گیاتھا لیکن دو برس گزر جانے کے باوجود سیاسی جماعتوں اور فوجی قیادت کی جانب سے اس منصوبے پر عملدرآمد کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جاتا رہا۔ان اقدامات کو سامنے رکھیں اور دہشت گردی کے واقعات کا جائزہ لیں تو رواں برس جنوری میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں 61 افراد اپنی جانوں سے گئے اور فروری میں اب تک دس دھماکوں میں ایک سو سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ یہ ہلاکتیں بھی کچھ کم نہیں ہیں لیکن اگر ان اعداد و شمار کا گزشتہ برس میں ہونے والے دھماکوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے، جب تقریباً 150 افراد ہر ماہ کی دہشت گردی کا نشانہ بن رہے تھے تو معاملات قدرے بہتری 
کی جانب جاتے محسوس ہوتے ہیں۔ اگرچہ دہشت گردی کے واقعہ میں ایک انسانی جان کا ضائع ہونا بھی تشویش کا باعث ہے، لیکن گزشتہ روز ڈیفنس لاہور میں ہونے والے بارودی مواد کے پلانٹڈ دھماکے سے ثابت ہوتا ہے کہ اب دہشت گردوں کو سہولت کاری اور خودکش حملوں میں استعمال کرنے کیلئے ''کچے ذہن‘‘ آسانی کے ساتھ دستیاب نہیں ہورہے۔ یہ حقیقت فساد پھیلانے والوں کی ناکامی اور فساد روکنے والوں کی کامیابی ہے۔ 
قارئین کرام!!جہاں فساد ہوگا، وہاں اگر آپ فساد کے خاتمے کیلئے نہیں اٹھیں گے تو آپ کا یہ عمل بھی فساد کی خاموش حمایت کے مترادف سمجھا جائے گا،ملک میں بالخصوص گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے جو فساد جاری ہے، اس کے خاتمے کیلئے ردالفساد ناگزیر ہوچکا تھا۔ ورنہ کب تک لاشیں اٹھائی جاسکتی ہیں؟ کب تک خاک و خون کے اس بھدے کھیل میں خاموشی اختیار کی جاسکتی ہے؟ اگر ہمیں ملک میں امن چاہیے اور دنیا میں فخر سے سر اٹھاکر چلنا ہے تو فساد کے بالمقابل کھڑا ہونا ہوگا۔ اب ردالسفاد کیلئے قوم کو قانون نافذ کرنے والوں کی حمایت میں اٹھنا ہوگا، ورنہ فساد کی جڑ کا خاتمہ ممکن نہ ہوگا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں