گڈاولڈ لاہور

ادبی تہوارمنانے والوں کو مبارکبادلیکن اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایاجانا چاہیے نئی نسل اصل لاہوریا لاہور کی اصل سے بالکل واقف نہیں۔ یہ تو شاید مان ہی نہیں سکتی کہ لاہور کچھ دہائیاں پہلے تک برصغیر کی ثقافت اور تہذیب کی پہچان تھا۔ اگر میں اپنے نوجوان بچوں سے کہوں کہ تمہاری ماں پنجاب یونیورسٹی میں کتھک کی کلاس اٹینڈ کرتی تھی یا ہم کئی لڑکیاں شام کو آرٹس کونسل میں ستار اور گانے کی کلاسیں اٹینڈ کرنے جاتی تھیں‘ تو وہ سمجھیں گے میں کسی اور کرۂ ارض کا ذکر کررہی ہوں۔ اگر میں آج کے موبائل زدہ بچوں سے کہوں‘ لاہور میں فروری چڑھتے ہی جب ہرسوسرسوں کے کھیت لہلہاتے تھے اور بسنت کا شور مچتا تھا تو ہم ساری نوجوان لڑکیاں ململ کے بسنتی چنے ہوئے دوپٹے اوڑھتی اور بسنتی چوڑیاں پہنتی تھیں، لاہور کالج اور کنیئرڈ کالج فاروومن میں پتنگ بازی کے مقابلے ہوتے تھے تو وہ پھر بھی مجھے حواس باختگی سے دیکھیں گے۔ اگر میں بیکن ہائوس گرامر سکول کے انگریزی میں شاعری کرنے والے بچے سے کہوں کہ لاہور کا پاک ٹی ہائوس فیض احمد فیض ، سعادت حسن منٹو، ممتاز مفتی اور احمد بشیر جیسے لوگوں کی بیٹھک بھی تھا اور کمہار کا ایسا چکّا بھی جہاں سے بڑے بڑے تخلیق کار اترتے تھے‘ جہاں پھٹے گریبان والے تخلیق کار اور فیض احمد فیض جیسے نابغۂ روزگار ایک ہی جیسی ایک روپے کی چائے پیتے تھے‘ تو اول تو وہ سمجھیں گے پختہ عمری نے مجھے دیوانہ بنادیا ہے پھر غورسے اس ایک سوکے نوٹ کو دیکھیں گے، آج جو بمشکل دو چائے کی خالی پیالیاں خریدسکتا ہے۔ مجھ سے بھی کچھ پہلے لاہور، ہندوستان (غیر تقسیم شدہ ) کا بالی وڈ ہوا کرتا تھا۔ میری ماں نے اپنی زندگی کی پہلی فلم گل بکائولی لاہور میں ہی دیکھی تھی۔ ہاں قارئین آپ اسے میرا ناسٹالجیا کہہ سکتے ہیں لیکن میں مبالغہ نہیں کررہی یہاں فلم انڈسٹری مہکتی تھی۔ ریڈیوپاکستان کے صحن میں ہرمہینے کی پہلی تاریخ کو موسیقی کی فری محفل سجائی جاتی تھی۔ میں نے فتح علی، امانت علی خان صاحب کو زندگی میں پہلی بار وہاں ہی سنا تھا۔ نزاکت سلامت، اقبال بانو، فریدہ خانم ان محفلوں کی جان ہوا کرتے تھے اور ہم لوگ اپنے آپ کو سول سوسائٹی سمجھ کر بغیر ناغے کے خدا تعالیٰ کی ان نعمتوں سے جھولیاں بھرتے تھے۔ لڑکیوں کے گروہ ایک ساتھ مل کر میکلوڈ روڈ فلم دیکھنے جاتے تھے اور بلاخوف وخطر گھرواپس آجاتے تھے۔ شودھے گرسنہ نگاہ مرد تو تب بھی بہت تھے لیکن بُری طرح گُھورنے یا کوئی جملہ کسنے کے سوا برے واقعات کبھی نہیں ہوتے تھے یا بہت کم۔ جی‘ لاہور آرٹ اور کلچر کی ہری بھری کھیتی تھی۔ کہیں صادقین، کہیں شاکر علی، کہیں غلام حسین کتھک، کہیں حلقہ ارباب ذوق ، کہیں بڑے بڑے مشاعرے۔ پھر ضیا ء الحق ایک طوفان بن کر آیا اور ہماری نیہوں تک زہر گھول کر چلا گیا۔ مذاہب تو انسانوں کے پاس چارہزار برس سے ہی ہیں۔ اسلام بھی اب پونے دو ہزار صدیوں کا ہونے کو آیا۔ ایسی بربریت نہ کبھی پہلے سنی نہ دیکھی۔ جس مذہب کا نعرہ امن اور شانتی تھا‘ اب دوزخ کا بھانبھڑ بن گیا۔ ضیاء نے ہماری تاریخ میں بہت منفی کردار ادا کیا۔ ثقافت یا ہماری تاریخی پہچان کا گلا گھونٹا۔ ادب‘ موسیقی‘ مصوری سب کچھ پر فحاشی کا لیبل لگا دیا گیا‘ فلم اندسٹری گناہوں کی دعوت سمجھی جانے لگی اور سوائے مولا جٹ جیسی قتل وغارت پہ مبنی فلموں کے‘ لوسٹوری یا کومل بات اخلاقیات کے منافی ٹھہرائی گئی۔ بے چارے فقیر حسین ساگا‘ ناہید صدیقی جیسے عظیم فنکار ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔ زہریلا سپرے جب پیڑوں کی جڑوں میں چلا جائے تو وہ انسانوں کو لولا لنگڑا کرکے پھینک دیتا ہے۔ ہمارے حکمران‘ سوائے ضیاء الحق کے‘ زیادہ تر سیاسی چوگان کھیلنے میں مگن رہتے ہیں یا روپے کی لوٹ میں،لیکن ایسی اینٹی عورت‘ اینٹی فنون لطیفہ‘ اینٹی انسانیت حکومت نادر شاہ کے بعد شاید ہی کبھی آئی ہو۔ میرا دوسرا باب وہ لاہور ہے جو میں نے 23اور 24فروری کے ادبی تہوار میں دیکھا۔ اللہ کے گھر سے ناامید ہونا واقعی ناشکری ہے۔ ہم یہ بالکل نہیں جان پائے۔ بے گناہ انسانوں کی گرتی لاشوں ،ریپ اور قتل و غارت کے درمیان وہ کون جی دار ہیں جنہوں نے وینٹی لیٹر پہ لگے ہوئے ، کراچی اور لاہور کے پھیپھڑوں میں ادب اور آرٹ کی آکسیجن دوبارہ لگائی۔ 23فروری بارش کا دن تھا۔ 24کو الحمرا گئے تو یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے کہ وہاں خوبصورت چمکیلی دھوپ میں ایک طرف محمد حنیف ’’ایکسپلوڈنگ مینگوز‘‘ والے‘ سیڑھی پہ بیٹھے آنے جانے والوں کو مل رہے تھے‘ دوسری طرف محسن حامد، ہمارے عظیم انگریزی کے ناول نگار۔ ہال میں عائشہ جلال‘ دوسرے ہال میں بیسپوی سدھوا، معین الدین دانیال، اللہ اللہ! وقت کی پھر کی گھوم کر پیچھے چلی گئی اور ہماری عمر رسیدہ آنکھوں کے سامنے وہ البیلا‘ ارفع‘ جیتا جاگتا لاہور آن کھڑا ہوا جو ہمیں پیارا تھا‘ جس کی اپنی ایک شیریں آواز تھی‘ ایک کردار تھا‘ جس کے بارے میں لوگ ’لاہور لاہور اے‘ کہتے نہ تھکتے تھے۔ ہم اردو کے چھوٹے بڑے ادیب شاعر بھی خاصی تعداد میں وہاں موجود تھے لیکن اُن سکولوں کا شکریہ جنہوں نے ہمیں قدآور انگریزی کے ادیب دیئے۔ ہرکسی کی ایک خوشبو‘ ایک سرگم‘ سریلے لیکن ان کے سامنے اردو بولنے والے ادیب سکڑکر چھوٹی چھوٹی مکھیوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ میں بھی رینگ رینگ کرپانچ کتابیں لکھ چکی ہوں، نہ پبلشر کتاب نکالتے ہیں نہ کوئی پڑھتا ہے۔ انگریزی عظیم الشان وسیع ترزبان ہے لیکن ہمارے ہاں سکولوں میں اردو جتنی تھی اتنی بھی پاتال میں اُتاری جارہی ہے۔ شاید ہم تھوڑے سے آخری ادیب ہوں گے جو اردو میں لکھ رہے ہیں۔ بہرکیف یہ موضوع الگ ہے۔ ذکر تو اس فیسٹیول کا تھا جس نے ہمارے مردہ خون میں زندگی پیدا کی۔ ہمیں یقین ہے کہ جس بھی ارفع گروہ نے یہ عظیم تر تہوار منایا وہ شکر یے کا حق دار ہے۔ ادیبوں نے اپنے وطن کی مٹی سے محبت کا شدید اظہار کیا۔ مردہ شہر کو کچھ دیر کے لیے جلابخشی ۔ کیا کوئی اور ایسا گروہ ہوگا جو ہماری روحوں سے چرائی گئی کلاسیکی اور فوک موسیقی کا بھی کوئی تہوار منائے؟ ایک میوزک لور ، حیات محمد تھے۔ برستی تلواروں میں بھی اوپن ایئرتھیٹر میں موسیقی رچاتے تھے۔ ہماری مردہ روحوں میں زندگی پھونکتے تھے۔ یہ وہ مٹی ہے جس نے نورجہاں ، فریدہ خانم، مہدی حسن ، فتح علی خان، امانت علی خان ، شفقت امانت، حامد علی خان جیسے ستارے پیدا کیے، وہ ہمارا عظیم اثاثہ شفقت اور رستم علی خان جیسے بچے آج کہاں ہیں ۔ جھوٹی مذہبی دہشت گردی اور ظلم اور ناانصافی کا توڑ صرف اور صرف فنون لطیفہ ہے۔ ہم ادبی تہوار منانے والوں کو نہ صرف مبارکباد دینا چاہتے ہیں بلکہ استدعا کرتے ہیں کہ اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا جائے ورنہ دنیا بھر میں ہمارا خون آلودچہرہ جوں کا توں رہے گا۔ کیا لاہور آرٹس کونسل صرف پھکڑپنجابی تھیٹر کونسل بن چکی ہے۔ کیا ہماری پنجابی حکومت میں، میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا‘ کے علاوہ بھی کوئی راگ باقی بچ گیا ہے؟ دہلی میں ہم نے تان سین روڈ کا مشاہدہ کیا جہاں دو دو کمروں کی اکیڈیمیوں میں بچے کلاسیکی رقص اور راگداری سیکھتے تھے ۔ کیا امیر خسرو جنہوں نے طبلہ ایجاد کیا‘ نعوذ باللہ‘ مذہب کے خلاف تھے۔ ہم سول سوسائٹی (جہاں کہیں بھی ہے ) سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ آگے بڑھے اور اپنے فنون لطیفہ کو اجتماعی طورپر زندگی بخشے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں