دعائے خیر

’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘ زندگی کے طویل تجربے کے بعد سمجھ آئی کہ یہ بے حد بچگانہ شعر یا سبق ہے۔ باتیں تو دل کی تہہ سے سینکڑوں نکلتی ہیں ،پوری ہوتی ہیں یا نہیں ،یہ قابلِ بحث ہے۔ میں تو یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ میرے دلِ ناداں سے نکلنے والی باتیں پانی کے بلبلے کی طرح نکلتے ہی ٹُھس ہوجاتی ہیں لیکن آج میں آپ سب اپنوں کے سامنے دل سے نکلنے والی بات کا ذکر بھی کرتی ہوں اور دعا بھی کرتی ہوں۔ کچھ عرصے بعد آپ خود ہی جان جائیں گے کہ میری خواہش یا دعا کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ میں بطور محب وطن پاکستانی دعا کرتی ہوں کہ ایک بار پھر ہمیں اس بھوکی ننگی کُھرلی میں منہ نہ ڈالنا پڑے جہاں اتحاد کی تُوڑی پڑی ہو اور ہمیں جمہوریت بچانے کے سانٹے کھا کر جینا پڑے یا مرجانے کی دعا کرنا پڑے۔ اور ہم اتحادیوں کو ایک دوسرے کی بدمعاشی اور لوٹ پر پردے ڈالتے دیکھ کر جمہوریت کی خاطر تالیاں بجائیں۔ راجہ صاحب ،وزیر پٹرولیم نوید قمر،صدر محترم او ریس باس ،یس باس کرنے والی اپوزیشن بھی اسی نام نہاد جمہوریت کی دین تھی۔ الیکشن کی میوزیکل چیئر میں اگر دائیں والے بائیں جا بیٹھے اور بائیں والے دائیں تو ہمارا صرف رب ہی مالک ہوگا۔ پانچ سالہ جمہوریت کے بارے میں میری بیزاری سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں مارشل لا کو بہتر سمجھتی ہوں ۔ناممکن ،قانون کی برتری پر یقین رکھنے والی ہوں ۔ایسے نظام کو کیسے سراہ سکتی ہوں جو خلافِ منشور ہے اور قانون میں جس کی کوئی گنجائش نہیں ۔پھر تاریخ چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ آج ہم جہاں کھڑے ہیں ،جس اندھے کنوئیں میں ٹامک ٹو ئیاں مارہے ہیں ،اس کی تعمیر میں مارشل لائوں کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا وڈیروں اور گدی نشینوں کا۔ اے خدا ہمیں مشرف جیسے کوتاہ اندیش خود پرست جرنیلوں سے بچا۔ ہمارے ہاں کے مارشل لا اور جمہوریت ایک ہی ماں کے جڑواں بچے ہیں۔ آمریت اور فسطائیت کا دودھ پی کر پلے ہوئے ۔ کبھی لگتا ہے یہ وہ دوسروں والا عجیب الخلقت بچہ ہے جس کی شباہت بھی خوفناک اور حرکات بھی۔ جی میں ایک کم علم گھریلو عورت ہوں آج کی دنیا میں کسی تیسرے نظام کو نہیں سمجھتی۔ اگر مغرب نے ترقی کی تمام منزلیں جمہوری نظام تلے طے کی ہیں تو یقینا یہ کوئی قابل قدر نظام ہوگا لیکن جو نمونہ اس نظام کا اپنے ہاں دیکھا وہ کسی آمریت سے کم نہیں تھا۔ یہ سوچ کر دل بھی کانپتا ہے اور جگر بھی کہ چند ہفتوں بعد اتحادی حکومت دوبارہ قائم ہوگی، اب کی بار اکثریت کی گوٹی نواز لیگ کی کُھتی میں گرے گی ۔وہی اللے تللے ہوں گے ۔وہی لام لشکر ۔پندرہ لاکھ ،روز وزیراعظم کے کچن کا ،چالیس لاکھ روزانہ باہر کے دوروں کا ، وزراء اور مشیران کی فوج ظفر موج با ادب ،باملاحظہ ہوشیار۔ وی آئی پی کار کے آگے پیچھے سو سوحفاظتی جیپوں کے کارواں، ٹریفک بند ، ایمبولینس میں کسی کا بیٹا مرے یا رکشا میں عورت بچہ پیدا کردے۔ جب تک ملک کی شکستہ کشتی کو ڈبونے والے ناخدائوں کی سواریاں گزر نہ جائیں راستے کھل نہیں سکتے۔ بھٹو سے لے کر ابھی تک جو میرے مکمل شعور کا زمانہ تھا بار بار کی فوجی آمریت اور بار بار کی جمہوریت کا لیبل لگاکر آنے والی حکومتوں کو دیکھا۔ سب حکمرانوں نے شرطیں باندھ کر ملک کی بربادی میں حصہ ڈالا اور مردہ قوم بٹربٹر دیکھتی رہی۔ جرنیل آئیں تو وہ بھی مغل اعظم بن جاتے ہیں اور ہمارے جانے مانے خاندان آئیں تو ان کا ٹولہ عوام کی گردنوں میں پنجے گاڑ دیتا ہے۔ شہباز شریف کے اندر کا شیرشاہ سوری پنجابی شہروں کانک سک درست کرتا ہے لیکن عوام کے لیے روزمرہ کی زندگی میں کوئی سہولت یا بہتری پیدا نہیں کی جاسکی۔ پُلوں کے ساتھ ساتھ اگر وہ ترکی یا سعودیہ کی مدد سے پنجاب میں ،جو بجلی کی محرومی کی وجہ سے سولی پر ٹنگا ہوا ہے ،کچھ کردکھاتا تو لوگ کھل کر سانس لینے لگتے اور انڈسٹری پھر سے زندہ ہوجاتی۔ سیاست کی مکمل سائنس نہ سمجھنے کی وجہ سے کوئی حکومتی فارمولا تو سمجھ میں نہیں آتا۔ لیکن مقابلتاً بہتر لوگوں کی نگران حکومت دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اگر پارلیمنٹ بغیر صندوقچیوں اور پرچیوں کے اسی طرح چنیدہ اور شفاف لوگوں کو چن کر بنالی جائے تو شاید وہ عوام پر کچھ رحم کرسکیں۔ لیکن میں جانتی ہوں قارئین میری بات کو بچگانہ سمجھیں گے۔ لیکن نگران حکومتوں میں کچھ تعلیم یافتہ صاف ستھرے لوگ دیکھ کر پارلیمنٹ کے خلاف نفرت کے اُبال اٹھنا بند ہوگئے ہیں اور اس پر یہ خوشی کہ قوم کے ناخدا قانون کی گرفت کے سامنے کس طرح بے بس ہیں بے مثال ہے۔ کاش کہیں کوئی آئین میں یہ ترمیم بھی کر جاتاکہ ایک خاندان کا صرف ایک ممبراسمبلی میں بیٹھ سکتا ہے۔ طاقت اور دولت کا کھیل جوئے کی مشین سے ملتا جلتا ہے جس میں ایک نمبر گھمانے سے کئی سکے برسنے لگتے ہیں۔ ہمارے مشہورومعروف سکہ بند سربراہان نے ،جو جرنیلی حکومتوں کے متبادل راج کرتے ہیں، راج گیری کو موروثی جاگیرداری بنادیا ہے۔ ان کی جواولادیں بلوغت کے سال پورے کرتی ہیں قوم کے لیڈروں کے طورپر میدان میں اتاردی جاتی ہیں۔ پھر بادشاہت اور جمہوریت میں فرق کہاں ہے ؟ ان لوگوں کے پاس اتھاہ سرمایہ اور بے لگام طاقت ہے۔ ناخواندہ قوم، بے شعور اور کوتاہ اندیش ہے ۔اس کے فہم میں یہ بات نہیں آسکتی کہ حکمران خاندانوں کا پورا قبیلہ لیڈر نہیں ہوتا، بیٹیاں بیٹے ،داماد، سالے ،بہنیں ،بھائی، کزن، منہ بولے بھائی۔ کہیں حدمقرر نہیں ۔جو ان مقتدروں سے چھوگیا ،پارس بن گیا۔ چین ، جاپان ، فرانس ،برطانیہ ، جرمنی ، آسٹریلیا، سپین اور پوری دنیا میں ایسی جمہوریت کبھی نہیں دیکھی جہاں شاہ کا بیٹا بھی شاہ ہو۔ بھٹو صاحب نے اپنی بیٹی کو اپنی وارث بنایا ۔پھر خاوند، نند اور اب بیٹا کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں، رونا تو اسی بات کا ہے کہ قوم کسی تبدیلی کے لیے تیار نہیں اور سمجھ بھی نہیں سکتی۔ وڈیروں اور پیروں کی بگڑی ہوئی اولادیں ان کی رہنما ہیں اور وہ اپنے رہنمائوں سے منہ نہیں موڑ سکتی۔ نہ ہی ابھی تک بوجوہ ہمارے ہاں برادری اور قبائل کا نظام کمزور پڑا ہے۔ جو کسی ایک برادری کے بڑے نے فیصلہ کردیا اس پر پورے گائوں نے لبیک کی آواز دے دی۔ تیسری قوت کو بڑے شہر تو قبول لیں گے گائوں کا سب کچھ صدیوں سے جاگیردار ہے اور تب تک رہے گا جب تک بیس ایکڑ سے زیادہ زمین کا کوئی مالک نہ ہو۔ کیا لندن، ڈنمارک ، ہالینڈ کی طرح ایسا کبھی ہوگا کہ ان کے شاہ اور وزیراعظم کی طرح آپ کو اپنے کرپٹ وزیر کسی باغ یا بازار میں گھومتے ہوئے مل جائیں۔ اب تو یہ طالبان کے خوف سے فولادی قلعوں میں رہتے ہیں ۔ہم نے تو ساٹھ برسوں میں ہر شاہ اور اس کے حواریوں کوآمریت کا چولا پہنے ہوئے ہی دیکھا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں