"RBC" (space) message & send to 7575

پنجاب کدھر جارہا ہے؟

مختصر جواب تو یہ ہے کہ وزیر ِاعلیٰ عثمان بزدار کے ہوتے ہوئے کہیں نہیں جارہا۔ وہیں کھڑا ہے جہاں شہباز شریف اور اُن کی وزارت چھوڑ کر گئی تھی ‘ بلکہ اُس وقت صوبے میں حکومتی سطح پر گرم جوشی تھی‘ ترقیاتی منصوبوں‘ غلط ‘ الٹے سیدھے‘ جیسے بھی تھے ‘ کو مکمل کرنے کی سرگرمی دکھائی دیتی تھی ۔ شہباز شریف اور اُن کی ٹیم فعال تھے ‘ اگرچہ انہوں نے کرپشن کا بازار گرم کررکھا تھا۔ اس کے باوجود پنجاب کے لوگوں کا (ن) لیگی حکومت پر اعتمادقائم رہا۔ اس نے پنجاب سے تحریک ِ انصاف کی نسبت زیادہ نشستیں جیتی تھیں۔ اگر پارلیمانی جمہوریت کی روایات کو ملحوظ ِ خاطر رکھا جاتا تو حکومت سازی کا پہلا حق (ن) لیگ کا تھا۔دوسری طرف تحریک ِ انصاف پنجاب میں ہر صورت حکومت بنانے پر کمر بستہ تھی ۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت تبدیلی کے نظریے کی اولین سیاسی ضرورت تھی ۔ اس کے لیے جانے پہچانے حربے استعمال ہوئے جو ماضی کے حکمرانوں کے آزمائے ہوئے تھے۔ رابطے‘ دبائو‘ چمک اورترغیب سے اراکین ِاسمبلی تحریک ِ انصاف کی صفوں میں آگئے ۔ عمران خان صاحب کے لیے وفاق اور دوصوبوں میں بیک وقت حکومت سازی کو ایک بڑی سیاسی کامیابی قرار دیا گیا ۔ گزشتہ دس سالہ جمہوری دور کو دیکھیں تو وزیر ِاعظم عمران خان کے حصے میں باقیوں کی نسبت زیادہ اقتدار آیاہے ؛ چنانچہ وہ سیاسی طاقت کی کمی کا کوئی بہانہ یا جواز نہیں رکھتے ۔ 
مبصرین اور سیاسی ناقدین نے پنجاب پر نظریں جما رکھی ہیں۔ یہ وہ صوبہ ہے جس سے تحریک ِا نصاف کا سیاسی مستقبل وابستہ ہے ۔ دیگر صوبوں میں جو کچھ ہور ہاہے ‘ یا نہیں ہورہا‘ وہ ایک الگ مسئلہ ہے ۔ کم از کم اس کا مرکز میں اقتدار کے حصول پر زیادہ اثر نہیں پڑتا۔ صرف اُس صورت ہر اکائی کا وزن بڑھے گا جب پنجاب کا ووٹر دو یا دوسے زیادہ سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہوگا۔ گزشتہ انتخابات نے دو سیاسی حقیقتیں واضح کردی ہیں‘ ایک یہ ہے کہ تحریک ِ انصاف ابھرتی اور پھیلتی ہوئی سیاسی طاقت ہے ‘ اس نے ایک ایسے صوبے میں اپنی جگہ بنائی ہے‘ جہاں (ن) لیگ نے کئی دہائیوں سے پنجے گاڑے ہوئے تھے ۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی تیسری شفٹ ہے ‘ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی‘ پھر(ن )لیگ اور اب تحریک ِ انصاف۔ دوسری حقیقت کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔ (ن) لیگ کے حامی دھڑے اور خصوصاً مرکزی پنجاب کے علاقوں میں عوامی سطح پر نواز شریف ابھی تک مقبول نظر آتے ہیں۔ اُن کا بیانیہ کم از کم (ن) لیگ کے حامی حلقوں میں مقبول ہے ۔ 
پنجاب کی سیاست میں دو متضاد بیانیے میڈیا ‘ خاص طور پر سوشل میڈیا پر جاری ہیں۔ تحریک ِ انصاف کے دھڑے شریف خاندان اور (ن) لیگ کو ملک کی معاشی تباہی اور پروان چڑھنے والی منظم کرپشن کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ دوسری طرف (ن) لیگ کے حامی عمران خان اور تحریک ِ انصاف کے خلاف طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں۔ اس حکمت ِعملی کا مقصد عوام کی توجہ شریف خاندان کی کرپشن اور بدعنوانی سے ہٹانا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں حریف جماعتوں نے گزشتہ سال انتخابات کے بعد سے ہی نئے انتخابات کی تیاری شروع کردی ہے ۔ سب کو معلوم ہے کہ پنجاب کا سیاسی میدان ہی تعین کرے گا کہ اقتدار کا تاج کس کے سر سجے گا۔ 
میرا خیال تھا ‘اور اب بھی ہے ‘ کہ تحریک ِ انصاف اپنے تبدیلی کے منشور کو پنجاب میں شد ومد‘اور پورے خلوص کے ساتھ نافذ کرے گی۔ عرصہ دراز سے بگاڑ کے شکار پنجاب میں مثبت اصلاحات کا نفاذ ہوگا‘ پولیس کلچر بدلے گا‘ انصاف کا حصول آسان ہوگا‘ نوکر شاہی کرپٹ افسروں سے پاک کی جائے گی‘ تعلیمی نظام اور شفا خانے درست ہوں گے اور پنجاب میں زرعی شعبے میں انقلاب برپا ہوگا۔ یہ خواہش اور توقعات ہم نے سب حکومتوں سے باندھی تھیں‘ مگر پنجاب کے نوجوانوں میں عمران خان نے جو اعتماد پیدا کیا‘ اُس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔ یہ صرف پنجاب کی بات نہیں‘ بلکہ سارے پاکستان میں عمران خان نے مایوس نوجوان نسل ‘ جو روایتی طور پر سیاست اور سیاسی عمل سے بددل ہوچکی تھی‘ کو سیاسی شعور بخشا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر وہ اپنے منشور اور وعدوں پر عمل کرنے میں اسی طرح کوتاہی برتتے رہے‘ جیسا کہ وہ اب پنجاب میں کررہے ہیں‘ تو امیدکے چراغ کب تک روشن رہیں گے؟
ہر گزرتے دن کے ساتھ پنجاب میں دو تاثرات تقویت پارہے ہیں۔ ایک یہ کہ بزدار صاحب میں اس صوبے کو چلانے کی نہ ہمت ہے اور نہ صلاحیت۔ وہ اس قابل بھی نہیں کہ کچھ سوچ بچار کے بعد وفاق یا اپنے وزیروں اور مشیروں کی جانب سے جو اچھے فیصلے اور اقدامات اُن کے حوالے کیے جائیں‘ اُن پر من وعن عمل کرا سکیں۔ اُن کے بارے میں عوامی رائے ‘ سیاسی حلقوں اور میڈیا میں جو تاثر قائم ہوچکا ‘ اسے رد کرنا اب ناممکن لگتا ہے ۔ پنجاب میں اگر مایوسی کی فضا ختم کرنی ہے تو اس کا حل یہ نہیں کہ کچھ مشیروں کو رخصت کردیا جائے‘ بلکہ بزدار کو رخصت کرنا ہوگا۔ پہلے دن سے ہی یہ تاثر تقویت پانے لگا تھا کہ وہ اس عہدے کے اہل نہیں۔ اب تک بزدار صاحب اس تاثر کو ثابت کرچکے ہیں۔ 
اُن پر تنقید کرنے والے درست ہیں۔ عمران خان اور تحریک ِ انصاف اُن کا امیج بہتر کرنے سے قاصر ہے ‘ لیکن تحریک انصا ف کو اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پنجاب کے وزیر ِاعلیٰ کو تبدیل کیا جائے ۔ سیاست نام ہی عملیت پسندی اور فعالیت کا ہے ۔ فعال وزیر ِاعلیٰ وہ نہیں جو کیمروں کے سامنے ہر جگہ نظر آئے ‘ میڈیا پر چھایا ہوا ہو‘ ہمہ وقت خبروں میں رہے‘ بلکہ خاموشی سے کام کرنا بہتر ہے ۔ بزدار صاحب یہی کچھ کریں۔ یہ پوزیشن ہی ایسی ہے کہ آپ کچھ کریں یا نہ کریں‘ خبروں میں رہیں گے۔ بزدار صاحب یقینا خبروں میں ہیں‘ لیکن یہ خبریں اچھی نہیں۔بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ اگر عمران خان اپنی ضد پر اڑے رہے کہ پنجاب کو عثمان بزدار ہی چلائیں گے تو تحریک ِ انصاف سیاسی طور پر منقسم ‘ اور ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اقتدار کھو بیٹھے گی ۔کچھ تو دکھائیں جس کی بنا پر ہم کہہ سکیں کہ پنجاب میں (ن) لیگ کی نسبت اب بہتر قیادت میسر آئی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ بزدار صاحب کی وزارت پنجاب میں سب سے بڑا سیاسی مذاق بن چکی ہے ۔ ابھی تک ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عمران خان نے اُن میں کون سی پوشیدہ صلاحیتیں دیکھ لیں جو اُنہیں ایک روشن صبح بنی گالہ بلایااور پنجاب کا حکمران بنا کر روانہ کردیا۔ ایک بار نہیںکئی بار کہہ چکے ہیں کہ انتظار کرو‘ صبر سے کام لو‘ پنجاب میں آپ کو ہر طرف تبدیلی نظر آئے گی۔ اب تو تبدیلی کے انتظار میں آنکھیں پتھرانا شروع ہوگئی ہیں۔ 
پنجاب کے مختلف اضلاع میں جا کر دیکھیں۔ جنوبی پنجاب میرا آبائی خطہ ہے ۔ میرا اپنامشاہدہ ہے کہ ہر جگہ پہلے سے زیادہ بدتر صورتحال ہے ۔ اوپر سے نیچے تک‘ منظم طریقے سے رشوت خوری کا بازا ر گرم ہے ۔ میرے اپنے ضلع راجن پور میں جو افسران تعینات کیے گئے ہیں‘ انہوںنے بدعنوانی کے سارے ریکارڈ توڑڈالے ہیں۔ سب کے سامنے سرکاری خزانے کو لوٹا جارہا ہے ‘ کسی کو پروا نہیں۔ پنجاب کی نوکر شاہی ایک دوسرے کا نہ صرف دفاع کرتی ہے ‘ بلکہ جو کچھ اضلاع میں ہورہا ہے ‘ اس کا حصہ بھی وصول کرتی ہے ۔ جب سب کو گھر بیٹھے اپنا حصہ مل رہا ہو تو ایکشن کون لے گا؟ ہوسکتا ہے کہ ہماری سول اور فوجی انٹیلی جنس کے ادارے کرپشن کے بارے میں رپورٹس تیار کررہے ہوں‘ کرنی بھی چاہئیں۔ گمان ہے کہ اُن رپورٹس کو وزیر ِاعظم صاحب دیکھ لیں گے ۔ کیا وزیر ِاعلیٰ بزدار کو معلوم نہیں کہ صوبے میں کیا ہورہا ہے ؟ پولیس گردی کے حالیہ واقعات‘ شہروں میں گندگی کے انبار‘ ہسپتالوں کی وہی خستہ حالی‘ اور ترقیاتی کاموں کے بہانے نوکرشاہی کی چاندی۔ اب یہ چیزیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ 
پرانے کارکن مایوس دکھائی دیتے ہیں‘ تحریک ِ انصاف کی صفیں کمزور ہونے کا تاثر تقویت پارہا ہے ۔ سیاسی گھوڑے ‘ جو اقتدار کی ہوس میں دیگر پارٹیاں چھوڑ کر تحریک ِ انصاف میں آئے تھے ‘ اب وہ بھی نئی چراگاہوں کی تلاش میں ادھراُدھر دیکھیں گے۔ ساکھ بحال کرنی ہے تو پنجاب میں بھی یوٹرن لینا ہوگا۔ یہ صوبہ ہاتھ سے نکل گیا تو تحریک ِ انصاف کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں