ہمارے پرانے دوستوں میں سے ایک فلم ساز بھی تھے‘ اور ان کے دوسینما گوجرانوالہ میں تھے۔ شناسائی جامعہ پنجاب میں طالب علمی کے زمانے میں ہوئی۔ اس وقت لاہور کے ثقافتی رنگوں اور ہماری اپنی دلچسپیوں کے اعتبار سے وہ ہر لحاظ سے نہایت اچھے دوست تھے۔ ہم اور ہمارے دیگر دوست جب بھی فرمائش کرتے کسی انڈین فلم کا ہمارے لیے خصوصی انتظام ہوتااور پھر گوجرانوالہ کے تکے بھی بہت مشہور تھے۔ لکشمی چوک میں جہاں آج کل اُلو بولتے ہیں‘ فلم سازوں کے دفاتر ہوا کرتے تھے۔ ہم اکثر لکشمی چوک میں ایسے دفتروں کا چکر کبھی کبھار لگاتے‘ دیگر فلم سازوں‘ کہانی نویسوں‘ ہدایت کاروں اور اس شعبے سے وابستہ دوسرے تیسرے درجے کے لوگوں سے ملتے تو خود کو بہت ممتاز خیال کرتے تھے۔ اس زمانے میں فلم بینی کا ایسا چسکا تھا کہ کوئی فلم ایسی نہ تھی جو ہم نے نہ دیکھی ہو۔ شوق اب بھی ہے‘ مگر وہ ماحول کہاں‘ وہ تعلقات کہاں‘ وہ لوگ کہاں اور وہ رونقیں کہاں‘ نہ جانے کیوں ہمارے اچھے بھلے ملک کو کسی کی نظر لگ گئی۔ آج کل ہم فطرت پر بنی دستاویزی‘ تاریخی شخصیات اور پھر ہالی ووڈ کی کلاسیک کے علاوہ ہر آنے والی فلم فرصت میں ریموٹ ہاتھ میں لیے چائے‘ کافی کا کپ ساتھ رکھے دیکھتے ہیں۔ فلمیں بے معنی نہیں ہوتیں مگر ہر ایک میں معنی تلاش کرنابھی اپنے آپ کے ساتھ مذاق ہوگا۔ اس شعبے کا تعلق تماشے اور تفریح سے ہے‘ کہ تھکے ماندے ہوں‘ دیگر کاموں اور مصروفیات کا بوجھ ذہن پر ہو‘ تو اسے ہلکا کرنے کے لیے ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ تر و تازگی اور جسم اور رُوح کو فرحت بخشنے کے لیے کوئی ورزش کر لیں‘ سیر کو نکل جائیں‘ کسی جنگل اور پہاڑ کا رُخ کریں‘ تالاب یا نہر میں ڈبکی لگائیں یا پھر گھر کے ہی ہو کر رہ گئے ہیں تو موسیقی اور فلم بینی سے تھکاوٹ دور کرسکتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ کچھ اور بھی ہے کہ تماش بینی سے زیادہ ہم فلموں کی کہانی کے فلسفے اور اس نوع کی تفریح کے پیچھے پیچھے کسی پیغام‘ ادبی اور ثقافتی تحریک کی کوئی جھلک بھی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فلم دیکھنا کتاب پڑھنا تو نہیں مگر اس اسلوب کا اپنا رنگ ہے۔ آپ آج سے نصف صدی پہلی والی فلمیں دیکھیں‘ اگر اپ نے نہیں دیکھیں توپھر آپ پیدا ہی نہیں ہوئے۔ اور آج کل کی دیکھنے کا موقع ملا ہو‘ اورمیں بات فی الحال ہالی وڈ کی کر رہا ہوں‘ تو آپ کو معاشروں کی صنعتی‘ سماجی اور سیاسی شکل نظر آئے گی۔
ہمارے اس فلم ساز دوست نے فلم بنائی ''مجرم کون‘‘۔نصف صدی گزرنے کے بعد یہ فلم نہ جانے کیوں یاد آ رہی ہے۔ سوچا موجودہ سیاسی حالات پر کچھ کہنا یا لکھنا ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اتنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ فلموں پر ہی بات کرتے ہیں۔ جب فلم کی کاسٹ کے لیے مشورہ ہونے لگا کہ ہیرو کسے کاسٹ کیا جائے‘ تو سب کا ووٹ ضیا محی الدین (مرحوم )کے حق میں گیا۔ ہمارے دوست اپنی مخصوص دنیا کے جمہوریت پسند آدمی تھے‘ اور وہ زمانہ بھی عوامی راج کے شروع کے سالوں کا تھا۔ انہوں نے ووٹ کو عزت دی اور ضیا محی الدین ہیرو کاسٹ کر لیے گئے۔ فلم بن گئی۔ ملک بھر میں نشر کی گئی اور لاہور کی نجی اور سرکاری عمارتوں کا تو برا ہی حال تھا۔ہر دیوار پر'' مجرم کون‘‘کا اشتہار لگا ہوا تھا۔ تصویر میں ضیامحی الدین کالے سوٹ میں ملبوس‘ مافیااور جاسوسوں والی ٹوپی پہنے‘پستول ہاتھ میں‘سنسنی خیز انداز میں کسی کونے میں کھڑے اپنے شکار کے انتظار میں نظر آ رہے تھے۔ مجھے اب اس فلم کی کہانی کی ہر بات تو یاد نہیں مگر جرائم میں ملوث کئی اور لوگ تھے مگر دھر ضیا محی الدین لیے گئے۔ آخر میں پتہ چلا کہ مجرم وہ نہیں کوئی اور تھا۔ ہمارے دوست کو تو ہمارے ساتھ بیٹھے دل کا دورہ پڑتے پڑتے رہ گیا کیونکہ وقفے سے پہلے بوتلیں بجنے لگیں اور ہر طرف'' ٹھنڈی بوتل‘‘ کی آوازیں آنے لگیں۔آدھے سے زیادہ ہا ل خالی ہوچکا تھا۔ لوگوں کو فلم پسند نہ آئی‘ فلاپ ہوگئی اور دوست کو اتنا خسارہ ہوا کہ فلم سازی سے توبہ کرلی۔
میں ملکی سیاست سے جُڑے واقعات کو ایک چلتی فلم کے انداز میں دیکھتا آیا ہوں۔ اس لیے ''مجرم کون‘‘ کا مستند چشم دید حوالہ آپ کی نذرکیا ہے۔ آپ بھی دیکھ رہے ہیں‘ مگر مجھے دیکھتے ہوئے ساٹھ سال سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ جس دن ایوب خاں صاحب نے مارشل لاء لگایاتھا‘ وہ دن کل کے واقعات کی طرح ذہن میں تازہ ہے۔ پتہ نہیں آپ میں سے کتنے اس کی گواہی دے سکتے ہیں۔ یہ فلم ہمیں زبردستی دکھائی جاتی ہے۔ دیکھنے کا کسی کو شوق نہیں۔ کردار وہی ہیں‘ کہانی ہی گھسی پٹی‘ وہی بے رنگ اور بے کیف واقعات اور حالات کٹھ پتلی تماشے کی طرح رونما ہوتے ہیں۔ کون صاحبِ ذوق ہوگا جو اس فلم کو بار بار دیکھنا گوارا کرے گا۔ پاکستان کی سیاسی فلم بھی اسی لیے فلاپ ہوئی کہ ہم ابھی تک ''مجرم کون‘‘ تلاش کررہے ہیں جو اتنی بڑی تاریخی لوٹ مار کے بعد بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ الگ بات کہ جتنے ارب ڈالر ملک پر داخلی اور بیرونی قرضے چڑھے ہوئے ہیں ان سے کہیں زیادہ ہمارے حکمرانوں اور طاقتور اشرافیہ نے دیگر ممالک کو منتقل کردیے ہیں۔ ہم چونکہ ابھی تک ایسے مجرموں کا تعین نہیں کرسکے‘ اس لیے بدعنوانی کا لفظ استعمال کرنے سے شعوری طور پر گریز کیا ہے۔ اپنے گھر کی چار دیواری یا جامعہ سے جونہی باہر کی دنیا پر نظر پڑتی ہے‘ کرتب ہی کرتب دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی مجرم نہیں۔ اس ایک سیاسی فلم کی ہزار کہانیوں کو باخبر صحافی اور دانشور ایسے جانتے ہیں جیسے ہم پانچ کا پہاڑا جو چوتھی جماعت میں ازبر کیا تھا۔
ہمیشہ کی طرح کل بھی شہر ملتان کی گلیوں میں گم ہو گیا۔ آتے جاتے تقریباََ چار دفعہ ایسا ہو چکا ہے کہ ہمارے دوست کے گھر کے سامنے کوئی کہکشاں نہیں۔ ہر سڑک ٹوٹی ہوئی‘ سڑکوں کے باہر کچرے کے ڈھیر‘ بدبو‘ گندگی‘ مگر کوئی مجرم نہیں۔ اس شہر پر اربوں روپے لگائے‘ پتہ نہیں کتنے لگے اور کتنے کھائے گئے۔ کوئی جرم ابھی تک کسی کے خلاف ثابت نہیں۔ پھر گلیاں اتنی تنگ‘ آبادی کا دباؤ اور نجانے کون ہیں جو دیگر شہروں کی طرح اس تاریخی شہر کی رونقیں لوٹ کر لے گئے۔پرسوں ان گلیوں سے تنگ و پریشان کسی صورت باہر نکلا‘ راستے میں سوچنے لگا کہ یہ سڑکوں‘ پلوں اور ہر چھوٹے بڑے منصوبے کو کھا جانے والے آخر کوئی باہر کے دشمن تو نہیں‘ یہیں کہیں کے ہوں گے‘ مگر نام لیں گے تو آپ کے خلاف قانون حرکت میں آجائے گا۔جونہی سخت گرمی میں اپنے آبائی گھر پہنچا‘ لوڈ شیڈنگ نے استقبال کیا۔ بس پھر مایوسی نے ذہن پر حملہ کر دیا‘ مگر جونہی سامان رکھا تو ہمارے صحافی دوست احمد اعجاز کا فون آیا کہ ملک کا سب سے بڑا مجرم پکڑا گیا ہے۔ اسلام آباد کی ایک عدالت نے آخر کار وہ کر دکھایا جس کا ہمیں انتظار تھا‘ کہ انصاف نہ صرف ہو گا بلکہ ہوتا ہوا دکھائی بھی دے۔ ساری تھکاوٹ اور پاکستانی فلم کی بے رنگ یکسانیت اور اس کو دیکھنے کے جبر کی سب کلفت رُفو ہو گئی۔ کبھی چالیس ڈگری کی گرمی اور حبس میں لوڈشیڈنگ میں اتنی پرسکون نیند زندگی بھر نہیں سو سکا۔ بس سکون ہی آگیا کہ توشہ خانے کے بڑے مجرم کو سزا ہوگئی۔ مجرم گرفتار ہوگیا اور اب سزا کاٹے گا۔ و ہ جو طارق عزیر صاحب جواب درست ہونے پر کہتے تھے‘ ''تالیاں‘‘۔ اب تالیاں بجائیں کہ'' مجرم کون‘‘کے مخمصے سے قوم کو نکال دیا۔ یہ استحکام‘ انصاف اور قانون کی حکمرانی مبارک ہو۔