اگر مذاق نہیں تو پھر یہ سندیں برائے فروخت کے اشتہارات ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے سے ہی دنیا کے دیگر ممالک نے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ مغرب ہو یا ہمارا اپنا خطہ اور ملک‘ ہر معیاری قومی جامعہ کی اپنی تاریخ ہے۔ اس کی بنیاد کوئی فلسفہ ہے یا اس کے بانی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں علم کے فروغ کے لیے صرف کیں۔ جامعہ پنجاب‘ جو ہماری مادرِ علمی ہے‘ گورنمنٹ کالج لاہور اور فارمن کرسچن کالج‘ یہ کمال کے ادارے تھے۔ پہلے دو تو نام ہی رہ گئے ہیں لیکن ایف سی کالج کو جب سے اس کے حقیقی مالکوں کے حوالے کیا گیا ہے‘ اس کا رنگ ڈھنگ ہی بدل گیا ہے۔ ہمارے بہت سے ایسے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اشراکیت کے جنون نے تباہ کیا تھا۔ جب ہم جامعہ پنجاب میں آئے تو اس وقت تمام صوبے میں ایک جنرل یونیوسٹی تھی۔ عوامی دور آیا تو ملتان میں یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ ہزاروں ایکڑ زمین الاٹ ہوئی اور بہت بڑے اور شان دار کیمپس بننے لگے۔ ان جامعات کو دیکھیں تو ظاہری خدو خال کے اعتبار سے کم از کم جامعات ضرور لگتی ہیں۔ بھٹوصاحب کے زمانے میں جو جوش و جذبہ ان جامعات کو چلانے اور اعلیٰ درجے کے استاد کا تقرر کرنے کے لیے پیدا ہوا‘ اس سے کم از کم ایک دو نسلوں تک زبردست معیار قائم رہا۔ ہر آنے والی حکومت نے ضرورت کے مطابق اور پھیلتی ہوئی آبادی اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے وقتاً فوقتاً جامعات قائم کیں۔ ضیا الحق صاحب کا زمانہ آیا تو نجی شعبے کی جامعات کی بنیاد رکھنے کے لیے دروازے کھلے مگر صرف اور صرف فلاحی مقاصد کے لیے اور وہ بھی بلامنافع۔ جس جامعہ میں ہمارا گزشتہ 22سال سے ٹھکانہ ہے‘ یہ اسی زمانے میں قائم ہوئی تھی۔ انہی برسوں میں آغا خان یونیورسٹی بھی بنی تھی۔
یہ لکھتے ہوئے مجھے اچھا تو نہیں لگتا مگر یہ ذاتی مشہوری کے لیے ہر گز نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ چلو اب ان امریکی جامعات کا نام نہیں لکھتا جہاں علمی سفر کی مسافت میں مختلف اوقات میں ہم نے دس سال گزارے۔ یہ دنیا ہی الگ ہے اور ہم خوش قسمت ہیں گزشتہ نصف صدی سے ہم اس کے شہری ہیں۔ ایک دفعہ وہاں کوئی بس جائے تو پھر نکلنے کو کسی کا جی نہیں چاہتا مگر وقت کا دھارا اپنے ابال کے ساتھ سب کو باہر نکال کر نئے آنے والوں کے لیے راہ فراہم کرتا رہتا ہے۔ مغرب میں جامعات ریاست یا مخیر‘ امیر اور عالم فاضل لوگوں نے قائم کی ہیں۔ امرا نے دولت بنانے کے لیے نہیں بلکہ اپنی کمائی ہوئی دولت کو عوامی مفاد کے لیے خرچ کرنے کے لیے۔ Wake Forest Universityکی مثال دیتا ہوں۔ نارتھ کیرولینا تمباکو کی پیداوار کے لیے دنیا میں مشہور ہے۔ یہاں ایک مشہور ارب پتی تجارتی خاندان ریلنڈز ہے۔ اس خاندان نے 1838ء اس چلتی ہوئی یونیورسٹی کو اپنی جاگیر دی۔ نئی عمارت کے لیے اربوں ڈالر دیے اور ساتھ ہی اربوں ڈالر کا ٹرسٹ بنا دیا۔ یہ یہاں کی خوبصورت ترین جامعات میں شمار ہوتی ہے۔ یہ خاندان اپنا گھر‘ جو اَب عجائب گھر ہے‘ اصطبل اور میخانے جہاں اب اعلیٰ معیار کے گیسٹ ہاؤس قائم ہیں‘ اسے دے کر رخصت ہوگیا۔ ہاورڈ یونیورسٹی کا رقبہ پانچ ہزار ایکڑ ہے۔ پورا ایک شہر آباد ہے۔ اگر آپ نے بوسٹن اور ہاورڈ نہیں دیکھا تو دنیا میں آپ نے کیا دیکھا۔ اسی طرح آپ نے آکسفورڈ‘ کیمبرج اور برکلے نہیں دیکھے تو آپ شاید دبئی شاپنگ کے لیے جانا پسند کرتے ہوں گے۔ ان جامعات نے صرف اپنے ملک کے نوجوانوں کی نہیں بلکہ دنیا کے لاکھوں کروڑوں ہم جیسے لوگوں کی زندگی بدل دی ہے۔
دنیا کی اکثر جامعات‘ زیادہ تر مغرب کی بات کر رہا ہوں‘ عوام کے عطیات سے چلتی ہیں۔ انہوں نے فنڈز بھی قائم کر رکھے ہیں۔ ان کے فارغ التحصیل طلبہ زندگی میں کوئی مقام بنانے کے بعد اپنی بچت کا ایک حصہ اپنی مادرِ علمی کو دیتے ہیں۔ میری اپنی جامعہ بھی اربوں روپے کے عطیات سے چلتی ہے۔ اجازت ملی تو کبھی تفصیل سے ہر ایک خاندان کی فراخ دلی کے بارے میں لکھوں گا۔ تین تو میرے سامنے ہیں۔ ہر ایک نے اربوں روپے دیے ہیں اور دیے جارہے ہیں۔ اور پھر دنیا بھر میں پھر کر اپنے دوست صنعت کاروں کو بھی عمارات بنانے کے لیے راغب کیا۔ کوئی ایک پیسہ بھی اپنی جیب میں نہیں ڈالتا۔ ہمارے ملک میں کم از کم تین ایسی جامعات ہیں جن کے بارے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ فلاحی اور بلامنافع ہیں۔ آغاخان یونیورسٹی‘ لمز اور بیکن ہائوس نیشنل یونیورسٹی۔ کچھ شاید اور بھی ہوں مگر جب تک تحقیق نہ کروں‘ کچھ کہنا مناسب نہیں۔
ایک ایسا زمانہ آیا جب جمہوریت نے اس ملک سے انتقام لینا شروع کر دیا۔ ویسے تو بہتر تھا کہ معاف کر دیتے لیکن اگر انتقام لینا ہی تھا تو ان سے لیتے جن سے بنتا تھا‘ نہ کہ قوم سے۔ جہاں اور زر و دولت بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد ہوئے‘ وہاں اعلیٰ تعلیم عام کرنے کے بہانے نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے بھی کھلی چھٹی دے دی گئی۔ بالکل بنائیں‘ مگر مقصد فلاح عام اور بلامنافع ہو۔ اب ان نجی اداروں کی تعداد سرکاری جامعات سے بھی بڑھ چکی ہے۔ ان کے کیمپسز کی گنتی کی جائے تو دو تین گنا زیادہ ہیں۔ یہاں پہلا سوال یہ ہے کہ سرکاری جامعات ایسے میں کہاں کھڑی ہیں؟ کیاوہ مقابلے کی فضا میں بہتر ہوئی ہیں یا ان کا معیار مزید پیچھے گیا ہے؟ دوسرا یہ بھی کہ معیار پر کیا چیک اینڈ بیلنس ہے؟ایک سند یافتہ نوجوان مجھے کہیں ملا تو اس نے بتایا کہ اس نے ایم اے اردو کیا ہوا ہے اور اب کسی کالج میں ملازمت تلاش کر رہا ہے۔ اس کی ادب سے دلچسپی ملحوظ رکھتے ہوئے درخواست کی کہ وہ غالب کا کوئی شعر سنائے۔ کہا کہ امتحان دیے ہوئے ایک‘ دو سال گزر گئے ہیں‘ اب تو کچھ بھی یاد نہیں۔
ویسے تو اس ملک میں گزشتہ پندرہ‘ سولہ مہینوں سے جو مذاق کا سلسلہ جاری ہے‘ اس کی مثال دنیا کی تارخ میں نہیں ملتی‘ مگر قانون سازی اور جامعات کے چارٹر منظور کرنے کا جو ریکارڈ ہمارے جاتے جاتے اراکینِ اسمبلی نے قائم کیا ہے‘ شاید وہ کوئی بھی اس ملک میں نہ توڑ سکے۔ گزشتہ ہفتے ایک ہی دن میں 26 جامعات کے چارٹر چند منٹوں میں منظور کرا دیے گئے۔ وزیر تعلیم موجود ہی نہیں تھے اور یہ سب پرائیویٹ ممبر بل تھے۔ یہ کام منصوبہ بندی اور کامیابی سے کرکے تالیاں بجاتے‘ مبارکبادیں وصول کرتے سب لوگ رخصت ہوگئے۔ دو دن بعد ان میں سے کچھ مزید 14جامعات کے بل لے کر آگئے۔ پاس کرنے کی کوشش کی تو وزیرِ تعلیم رانا تنویر حسین صاحب نے رکاوٹ ڈال دی کہ کچھ خدا کا خوف کرو‘ ایک ایک کمرے کی جامعات بن رہی ہیں۔ ہنگامہ کھڑا ہو گیا‘ رانا صاحب پر تعصب رکھنے کے الزامات لگے اور اجلاس اگلے دن کے لیے ملتوی ہو گیا۔ ایوان میں کھڑے ایک رکن نے کہا کہ صرف ٹوکیو شہر میں ایک ہزار جامعات ہیں تو ہمیں پاکستان میں قائم کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے جاپان میں صرف 607جامعات ہیں۔ رانا صاحب کون سی دیوارِ چین ان بلوں کے سامنے کھڑی کر سکتے تھے۔ 14مزید جامعات کے بل منظور ہو گئے۔ کون اس ملک میں اعلیٰ تعلیم کا معیار قائم رکھنے کے لیے اب کچھ کر سکتا ہے۔ جامعات کی بھرمار سے پہلے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پر کاٹ دیے گئے تھے۔ ادھر ادھر سے معلوم کیا کہ ان 40میں سے کتنی جامعات ہیں جن کی چھان بین کرکے کمیشن نے این او سی دیا‘ فقط آٹھ۔ کل داخلے کے اشتہارات آئیں گے۔ خصوصاً ان شعبوں میں جن کی منڈی میں کھپت کی گنجائش ہے۔ مشکوک ڈگریوں والے اساتذہ کی بھی کمی نہیں۔ سندیں بھی مل جائیں گی اور تعلیم برائے فروخت کا کاروبار بھی بڑھے گا مگر ہمارے نوجوانوں کا مستقبل شاید روشن نہ ہو سکے۔