قوم غفلت کے نشے میں ہے اور حکمران جیبیں بھرنے کے نشے میں‘ ایسے میں نشے کی بڑھتی ہوئی لعنت کی کس کو فکر ہوگی۔ ایک معروف جامعہ کے بارے میں جو باتیں کی اور لکھی جارہی ہیں‘ ان کے بارے میں تو کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ منشیات کا ملک کے کونے کونے میں پھیلاؤ ہو چکا ہے۔ یہ بھی کوئی نئی بات ہے کہ یہ زہر ہر عمر کے لوگوں‘ خصوصاً نوجوانوں میں سرایت کر چکا ہے۔ اگر آپ دیہات میں رہتے ہیں یا شہروں میں‘ آنکھ کھول کر دیکھ سکتے ہیں کہ کس دھڑلے سے چرس‘ افیون اور ہیروئن کی خریدو فروخت ہوتی ہے۔ ہم پرانے وقتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ اس زمانے میں ہمارے علاقوں میں کسی کو چرس‘ یہاں تک کہ مغربی مشروبات کا بھی علم نہیں تھا۔ بس کہیں کہیں کوئی افیونی بطور ''دوا‘‘ استعمال کرنے کیلئے مشہور ہوتا۔ اب معاشرے کے سب رنگ ڈھنگ بدل چکے ہیں۔ اصلی مشروبات پر پابندیاں لگیں تو جعلی بنانے والی فیکٹریاں گھروں میں قائم ہونا شروع ہوگئیں‘ ان مشروبات کا استعمال اتنی تیزی سے پھیلتا دیکھا ہے کہ شاید ہی وطن عزیز کا کوئی علاقہ اور دیہات ان سے محفوظ ہو۔ چرس نے بھی منشیات کی پھیلتی ہوئی مارکیٹ میں اپنا خوب ''نام‘‘ بنایا ہے۔ کسی کو چرسی کہیں تو لوگ مذاق اڑائیں گے کہ اسے تو نشہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ باقی کسر سفید پاؤڈر نے نکال دی جو عام دستیاب ہے۔ افغان جنگ کے دور میں ایک دوست باہر کے کسی ملک سے آئے۔ مشہور مؤرخ تھے۔ اصرار کیا کہ انہیں طورخم تک لے جاؤں۔ واپسی پر باڑے رکے‘ کچھ ادھر اُدھر کا مال فروخت ہوتے دیکھا تو سفید پاؤڈر بھی سنجیدہ گاہکوں کیلئے دستیاب پایا۔ ہم نے سوچا کہ چلو یہ ''علاقہ غیر‘‘ ہے‘ یہاں سب چلتا ہے مگر بعد میں تقریباً پندرہ‘ سولہ سال پہلے کوئٹہ میں ایسے ایک ادارے کی تنظیم اور فعالیت کے بارے میں رپورٹ تیار کرنے کا موقع ملا جو منشیات کے عادی مریضوں کی بحالی کا کام کرتا تھا۔ اس مطالعہ کے سلسلے میں شہر کے وسط میں ایک برساتی نالے‘ جسے کسی وجہ سے حبیب نالہ کہتے ہیں‘ کے اندر کا منظر دیکھنے کی اجازت بھی ملی۔ تقریباً دو منزلیں سڑک سے نیچے اس گندے نالے کے کناروں پر ایک بازار ہے جہاں دونوں طرف منشیات فروشی کی آج بھی دکانیں ہیں۔ جو کچھ دیکھا‘ وہ جہنم سے کم نہ تھا۔ اور وہ تصویریں میرے ذہن کے علاوہ کیمرے کی آنکھ نے بھی محفوظ کر رکھی ہیں۔ کئی بار کوششوں کے باوجود‘ سنا ہے کہ اس کی رونقیں آج بھی قائم ہیں۔
اس ذاتی مشاہدے کے علاوہ افغانستان اور پاکستان میں منشیات کی معیشت اور سیاست پر اپنی ایک کتاب میں ایک باب بھی موجود ہے۔ پرانی بات ہے‘ تب اکثر عالمی ایجنسیوں کی رپورٹوں کے علاوہ اس مسئلہ کا تدارک کرنے والے اداروں کے افسروں سے بھی بات کی گئی۔ اس وقت سفید پاؤڈر کی تجارت کا تخمینہ تین ارب ڈالر تھا۔ اب اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے کی تازہ رپورٹ میں اعداد و شمار میں ڈرگز کی پولیٹکل اکانومی کے پیچھے بہت طاقتور مافیاز ہیں جو عالمی منڈی کے علاوہ خطے کے تین ممالک افغانستان‘ ایران اور پاکستان میں اپنے مضبوط اڈے بنائے ہوئے ہیں۔ ہمارا حال بقول میر تقی میرؔ ''جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ باغ تو سارا جانے ہے‘‘۔ میرا خیال تھا کہ یہ کاروبار صرف کوئٹہ اور دور دراز کے شہروں میں ہی ہوتا ہوگا‘ حالیہ دنوں اسلام آباد میں اپنے گھر کے قریب پارکوں میں سفید پاؤڈر کا اڈا تقریباً ہر صبح لگتے دیکھا ہے۔ بھکاریوں کے بھیس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں‘ ایک دو خاندان‘ رات کو ادھر پڑاؤ کرنے کے بعد سب کے سامنے پڑیاں بیچ بھی رہے ہوتے ہیں اور خود بھی سگریٹ بنا کر کش لگاتے نظر آتے ہیں۔ ہم دس بارہ بابے‘ کچھ خواتین یہ مناظر دیکھتے اپنے چکر پورے کرنے کے بعد گھر واپس چلے جاتے ہیں۔ صبح سویرے سیر کرنے والوں میں ایک دو نوجوان بھی ہیں۔ ایک وفاقی سیکرٹری بھی ہمارے ساتھ چلتے ہیں۔ کئی بار انہوں نے پولیس کو اطلاع دی‘ وہ آئے اور انہیں پارک سے ایسے باہر نکالا جیسے ہم مویشیوں کو کھیتوں سے نکال باہر کرتے ہیں۔ انہیں گرفتار نہیں کرتے کہ اس سے کئی اورمصیبتیں ان کے لیے پیدا ہو جاتی ہیں۔ شہر اقتدار کے ہر حصے میں یہ رونقیں لگی ہوئی ہیں۔
ہو سکتا ہے آپ کا مشاہدہ مختلف ہو مگر جب میں اپنے دیہات میں یا شہروں کے مختلف علاقوں میں اس مسئلے کو قریب سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں‘ معاشرے کی بھیانک تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ ہر جگہ منشیات کے طاقتور ٹھیکے دار ہیں۔ سنا ہے کہ سب کو معقول حصہ ملتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ملک کے تقریباً 70لاکھ افراد نشے کے عادی ہیں۔ یہ سروے آج سے دس سال پہلے کا ہے۔ اس میں 40ہزار افراد کا ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اور سروے آج کل جاری ہے‘ دیکھیں کیا اعداد و شمار نکلتے ہیں۔ اس وقت تو پاکستان کا شمار نشے کے عادی ممالک میں صفحۂ اول پر ہے۔ کس کو معلوم نہیں کہ یہ وبا روز بروز پھیل رہی ہے۔ تین سال پہلے ملک کی جامعات کے وائس چانسلروں کی میٹنگ بلائی اور زور دیا گیا کہ طالب علموں میں نشے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ ایک اور سروے کے مطابق بچوں اور یونیورسٹیوں میں دس فیصد طلبہ کسی نہ کسی قسم کا نشہ استعمال کرتے ہیں۔ کوئی اور ملک ہوتا تو اس سے نمٹنے کے لیے قومی ایمرجنسی کا نفاذ کیا جاتا۔ لیکن ہم کس کس بات پر ایمرجنسی لگائیں گے کہ اب ہماری قومی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں رہ گیا‘ جہاں ہم وثوق سے کہہ سکیں کہ کام تسلی بخش ہو رہا ہے۔
ہمارے حکمران طبقات ہوں یا دانشور‘ دونوں ہی یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ نوجوان اس ملک کا مستقبل ہیں‘ قومی اثاثہ ہیں مگر صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہی دس فیصد نوجوان نشے کی لت میں مبتلاہیں۔ سمجھیں کہ وہ اپنے خاندان اور معاشرے کے لیے ضائع ہو چکے۔ دیہات اور شہروں میں غریب طبقات کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ان کے بچوں کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع جو اگرچہ پہلے ہی کم تھے مگر منشیات فروشی اور ہر جگہ دستیابی نے ان کی مزید تباہی کا سامان پیدا کر دیا ہے۔ جو چلتی پھرتی نشے کی عادی زندہ لاشیں میں خود پارکوں اور بازاروں میں دیکھتا ہوں‘ یہ بیچارے مفلس گھرانوں کے بچے ہیں۔
میرے نزدیک نشے کے عادی لوگ مظلوم ہیں جو طاقتور طبقات کی ہوسِ زر کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ اور پھر افغانستان کے حالات کہ منشیات پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہماری سرحدوں پر ہے۔ چند سال پہلے وہاں ہیروئن اور چرس کی پیداوار کی قیمت‘ معتبر رپورٹوں کے مطابق‘ چار سے ساڑھے چھ ارب ڈالر کے قریب تھی۔ ہماری اینٹی نارکوٹکس فورس کے مطابق افغانستان کی منشیات کا 40فیصد ہمارے ملک کے راستے دنیا کے دیگر ممالک سمگل ہو رہا ہے۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنے لوگ اور کن کن عہدوں پر اور کہاں کہاں سے منشیات کے دھندے سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ چالیس‘ پچاس برسوں سے چل رہا ہے۔ منشیات کی معیشت سے ہمارے ملک اور افغانستان میں ایک انتہائی طاقتور حلقہ پیدا ہو چکا ہے جس کے تانے بانے دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ افغانستان کی قومی آمدنی کا 11فیصد منشیات سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ اربوں‘ کھربوں کی آمدنی ہمارے ملک میں بھی تجارت‘ پراپرٹی اور دیگر کاروبار میں لگائی جاتی ہے۔ کوئی آمدنی کے ذرائع کے بارے میں اب اس ملک میں سوال نہیں اٹھا سکتا۔ کاش کوئی ان خاندانوں کے پاس بیٹھتا‘ ان ماؤں بہنوں کی بات سنتا‘ ان باپوں کا دکھ بانٹتا جن کے بچے نشے کی لت میں پڑ گئے ہیں۔ بات پھر ریاست کی استعداد‘ قانون کی حکمرانی اور انصاف کی ہے۔ یہ تباہی ایسے ہی تو نہیں آتی۔