اعلانِ آزادی دنیا کی سیاسی اور فکری تاریخ کی سنہری دستاویز سمجھی جاتی ہے۔ امریکہ کا اعلان ِآزادی 245 سال گزرنے کے بعد آج بھی آزادی اور مساوات کا ایک عالم گیر حوالہ ہے۔ اس پر تنقید بھی کی جاتی رہی ہے‘ مگر اس زمانے کی سیاسی روش کے اعتبار سے ترقی پسند‘ آزاد رو فکر کی ترجمانی اختصار اور اجمال کے ساتھ شاید ہی انگریزی زبان کی کسی دوسری تصنیف میں ہو۔ ہم جب مغربی تہذیب اور اس کے فیصلوں کا ذکر کرتے ہیں تو اکثر احباب ہمیں مغرب زدگی کا طعنہ دے کر اپنی تہذیب سے حوالے لانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کا اعتراض بالکل درست ہے‘ مگر ہماری اپنی تہذیب میں علم و دانش کی عالم گیر حیثیت مسلمہ ہے۔ یہ وہ گوہر ہے جہاں سے ملے اچک کر اپنے پلے باندھ لیا جائے۔ ایک اور اعلانِ آزادی کی بات کرتا ہوں جو ہمارا تاریخی ورثہ تو ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے‘ جن سے مراد میں طاقتور بدعنوان ٹولے لیتا ہوں‘ جو ایک منظم طریقے سے اس ملک کو لوٹ رہے ہیں‘ آئین کی طرح اُسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔ یقین سے نہیں کہہ سکتا مگر تاثر ہے کہ ہماری اکثریت نے قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست کی تقریر نہیں پڑھی۔ اخباروں‘ کالموں اور سیاسی تقریروں میں بھی صرف چند جملوں کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ تقریر بھی نہایت جامع اور مختصر ہے‘ اور اس کاایک ایک لفظ جچا تلا‘ فکر انگیز اور روشن خیالی کا عکس ہے۔ بہت عرصہ پہلے تو یہ تقریباً تین صفحے پڑھے‘ مگر گزشتہ ہفتے عین اُس روز جب جڑانوالہ میں مسیحیوں کے گھروں‘ گرجا گھروں اور آبادی پر حملے ہورہے تھے‘ یہ درویش نیشنل آرکائیو میں دستور ساز اور مقننہ کی آزادی کے بعد سے اب تک کی کارروائی کا ریکارڈ دیکھ رہا تھا۔ پہلی کتاب‘آزادی کے پہلے سال کی ہے‘ گیارہ اگست 1947ء کی تقریر پہلی صفحے پر ہے۔ تلاش تو یہ کررہا تھا کہ کبھی اگر ایوان میں خارجہ پالیسی پر کوئی گفتگو ہوئی ہے تو اُسے دیکھا جائے‘مگر پھر اتنے اہم موضوع پر ہم کبھی نہیں ٹکتے۔ لیاقت علی خان نے قائدِ اعظم کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرنے کی دعوت دی اور انہوں نے اپنی تقریر‘ سب کا شکریہ ادا کرنے کے بعد شروع کردی۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اسے آئین میں جو جگہ ابتدائیہ میں ملنی چاہئے تھی وہ کیوں نہیں ملی۔قائد کے افکار سے انحرف کی ابتدا تواُن کے جہاںِ فانی سے رخصت ہوتے ہی ہو چکاتھا۔ دو سال بعد جو ایک مشہور قرارداد لکھی اور منظور کرائی گئی اور جو ہمارے آئین کا ابتدائیہ ہے وہ جوہری اعتبار سے گیارہ اگست کی تقریر سے میل نہیں کھاتی۔سچ پوچھیں تو اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ قیام ِ پاکستان یا یوم آزادی جو ہم مناتے ہیں‘ اس سے تین دن پہلے کا خطاب ہے۔عظیم ملک بنانے کا ذکر کرنے کے بعد ہندوستان کی برائیوں کی بات کی‘جن میں ظاہر ہے ہندوستان کے وہ خطے بھی شامل تھے جو تین دن بعد پاکستان میں تبدیل ہوگئے۔ وہ برائیاں اُن کے نزدیک رشوت ستانی‘ذخیرہ اندوزی‘ بلیک مارکیٹنگ‘ اقربا پروری اور عہدوں کی تلاش ہے۔ ان کے نزدیک جب تک یہ برائیاں کسی معاشرے میں موجود ہیں‘ وہ عظیم ملک نہیں بن سکتا۔ آج کل کے پاکستان پر نظر دوڑائیں‘ قائد اعظم اپنے ہی ملک میں خود کو اجنبی محسوس کریں گے۔
دوسری بات وہ یہ کرتے ہیں کہ معاشرہ مختلف مذاہب‘ ذات پات‘ فرقوں اور برادریوں میں بٹا ہوا ہے جیسے ہندو اور مسلمان۔ مغرب کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہاں مسیحیت کے دو مسالک ایک دوسرے سے بر سر پیکار رہے‘ لیکن اب وہ برطانیہ کے شہری ہیں‘ اور اُنہیں مساوی حقوق حاصل ہیں۔ ان کی شناخت ایک ہی ریاست کے شہریوں کی سی ہے۔ یہاں عام طور پر جب ہم شہری کی بات کرتے ہیں تو اس کے پیچھے تاریخ اور فلسفے کو نہیں سمجھتے۔ اکثرنسبت کسی شہر سے جوڑ بیٹھتے ہیں۔ بنیادی اور برابری کے حقوق کے بغیر شہری کا تصور ہی نہیں بنتا۔ اگر آپ کسی ریاست کے شہری ہیں تو آپ کے حقوق پر کوئی ڈاکا نہیں ڈال سکتا۔ اس تقریر میں قائد اعظم شہریت‘ برابری اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ قائد اعظم نے تواپنی اس تقریر میں فرمایا تھا کہ تم آزاد ہو‘ اور ایک آزاد ریاست کے شہری ہو‘ مسجد میں جائو‘ گرجا گھروں میں یا مندروں میں۔ تمہارے حقوق برابر ہیں اور تم سب ایک ریاست کے شہری ہو۔ ایک اور بات جو قائد اعظم نے کہی‘ ہم اس پر سیاسی طور پر یقین رکھتے ہیں کہ مذہب کے معاملے میں ریاست غیر جانبدار ہوگی کہ یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو خود ہی یہ تقریر پڑھ سکتا ہے۔ میں نے قرار داد مقاصد کا ذکر کیا‘ جو دو سال بعد ایوان میں لیاقت علی خان نے پیش کی‘ تو دستور ساز اسمبلی کے ہندواراکین نے‘ جن میں پروفیسر چکراوتی کا نام یاد آرہا ہے‘ نے جو نکات اٹھائے اور جو فلسفیانہ بحث چھیڑی‘ وہ کمال کی ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین‘ مولانا ظفر احمد انصاری‘ جو قرار داد مقاصد کے مصنف خیال کیے جاتے ہیں اور جنہوں نے مولانا مودودی صاحب کے علاوہ دیگر جید علما سے بھی مشاورت کی تھی‘نے پروفیسر چکراوتی اور دوسروں کے اعتراضات پر جو جواب دیے‘ میں ذاتی طور پر ان سے مطمئن نہیں ہوں۔ مذہبی اقلیتوں کے ذہنوں میں پاکستان کا جو نقشہ بنتا نظر آیا‘ اس کی بابت خدشات کا کھل کر اظہار دستور ساز اسمبلی کے فلور پر کیا گیا۔ ایک اقلیتی رکن نے تو لیاقت علی خاں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر قائد اعظم اس ایوان میں ہوتے تو وہ اسے رد کرنے والے پہلے رہنما ہوتے۔ ایسی ہی باتیں کچھ دنوں تک ہوتی رہیں۔ ہمارے اکثریتی اراکین نے پھر یہ کہاکہ جہاں تک دینی معاملات کا تعلق ہے‘ ریاست غیر جانبدار نہیں رہ سکتی۔ میں اب یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ قائد اعظم نے ریاست کے کردار کے بارے میں درست کہا تھا یا مسلم لیگی اراکین کے فرمودات درست تھے ؟
بعد کے برسوں میں ایسے واقعات جو آپ نے گزشتہ ہفتے جڑانوالہ میں دیکھے‘ تواتر کے ساتھ رونما ہونے لگے۔ کتنے ہی بے گناہوں کا خون بہایا گیا‘ املاک پر حملے ہوئے اور اب تک ہو رہے ہیں۔ یہ فساد نہیں تو کیا ہے ؟منظم ٹولے کم آبادی والے ایک دبے ہوئے اور خوفزدہ طبقے کو کس بربریت کے ساتھ نشانہ بنا تے ہیں اور ریاست بے بس نظر آتی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جب بلوائی ان مسکینوں کے گھروں پر حملے کررہے تھے تو انتظامیہ اُن کے ساتھ مذاکرات کررہی تھی۔ ملک‘ ریاستیں اور معاشرے اسی طرح نہیں چلتے۔ا ور اب ہمارے پاس رہ ہی کیا گیا ہے۔ ایک ٹولہ آتا ہے‘ وہ لوٹ کر چلا جاتا ہے تو ایک نیا ٹولہ ہمارے اُوپر بٹھا دیا جاتا ہے۔ یہ ملک صرف ایوانوں میں بیٹھے ہوئے طاقتور افراد کی کھیتی بن کر رہ گیا ہے۔خود سوچیں کہ اقلیتوں کے ساتھ اس سلوک کے بعد دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے؟ حقوق کی بات کرنا اب خطرہ مول لینے کے مترادف ہے۔