ہماری ابھرتی‘ گرتی‘ بل کھاتی سیاست کی لغت کا ذخیرہ بہت وسیع اور عمیق تو تھا ہی‘ اس کے ساتھ حالات کے جبر نے اسلوبِ نگارش کی جو نت نئی راہیں کھولی ہیں‘ اس نے سیاسی زبان اور کلام میں چاشنی سی پیدا کردی ہے۔ اردو ادب کی کبھی کوئی تاریخ اس حوالے سے لکھی گئی تو سیاسی قلمکاری اور لکھاریوں کی رنگ بازیوں کو یاد رکھا جائے گا۔ انتخابات جب یہاں ہوا کرتے تھے‘ کانٹے دار مقابلوں کا ذکر ہوتا تھا۔ مجھے تو اس فقرے میں جدت نظر آتی ہے۔ مطلب تو وہی جو آپ سمجھ رہے ہیں کہ دو جماعتوں کے امیدواروں کے درمیان سخت مقابلے کا سماں ہے اور ان برابر کے مقابلوں میں کسی بھی فریق کا پلڑا بھاری ہو سکتا ہے۔ اور وہ جیت اپنے نام کرے گا۔ ایوانوں میں کشتیاں ہوں‘ کرکٹ کا میدان ہو یا سیاست کا‘ دیکھنے کا مزہ تو تب آتا ہے کہ جب مقابلہ ہو۔ عوام ہوں یا خواص‘ شہری ہوں یا غیرملکی‘ انتخابات میں رغبت‘ اشتیاق اور دلچسپی صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے جب میدان سب کے لیے کھلا ہو۔ اس لحاظ سے ہمارے قومی انتخابات پُر رونق ہوا کرتے تھے۔1971ء کے انتخابات میں یہ درویش ایک سال تک ایک انقلابی سیاسی جماعت کی انتخابی مہم مقامی سطح پر سائیکل پر چلاتا رہا۔ وہ پہلے اور آخری آزاد اور شفاف انتخابات تھے۔ ایک سال تک مہم چلی جو ضرورت سے کہیں زیادہ تھی اور اس کے جو سیاسی نتائج نکلے ان کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بعد کے انتخابات میں بھی بہت رونق میلہ ہوا کرتا تھا۔ جلسے جلسوس‘ خوش رنگ پوسٹر‘ دعوتیں‘ شعرو شاعری اور آخری دو انتخابات میں سیاسی ترانوں اور گانوں نے جو جدت پیدا کی اس کی رنگا رنگی کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ امریکہ کے تین‘ چار صدارتی انتخابات قریب سے دیکھے۔ ترقی‘ طاقت اور خوشحالی میں دنیا میں سب سے آگے مگر انتخابی رونق میلوں میں ہم سے کوسوں پیچھے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت جس کا نام لینا اب آسان نہیں‘ نے انتخابات اور سیاست کو ایک نیا عوامی رنگ دیا‘ جو نوجوانوں‘ خواتین اور شہروں کے متوسط طبقات کی جلسے‘ جلوسوں میں شرکت تھی۔ اعلیٰ طبقات سے تعلق رکھنے والے بھی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ شرکت کرتے تھے۔ ایک زمانے میں جب اسلام آباد کے ایک مشہور چوک میں کئی ماہ دھرنا رہا تو دو‘ چار دفعہ ہم بھی رونق میلہ دیکھنے گئے۔ ذہن میں مقابلہ اپنے زمانے کے سیاسی جلسوں سے کیا تو ایسا لگا ہم واقعی ایک نئے پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں۔ شام ہوتے ہی میلہ بھرنے لگتا‘ گانے اور ترانے بجا کر سیاسی جذبات ابھارے جاتے اور آخر میں ایک جیسی تقریر دہرائی جاتی۔ ہمیں کسی کی سیاست سے دلچسپی کبھی نہیں تھی اور نہ ہی اب ہے۔ ہم تو رونق میلے ڈھونڈتے ہیں۔ کہیں نظر آجائیں تو قدم رک جاتے ہیں۔
اس ابھرتی اور اب گرتی پڑتی جماعت کی دیکھا دیکھی دو بڑی جماعتوں نے بھی مشہور عوامی گلوکاروں کی خدمات حاصل کرنا شروع کردیں اور سننے والوں کے کان پھاڑنے کے لیے انہوں نے بھی اپنے جلسوں میں اپنے اپنے ڈی جے بٹوں کو معقول معاوضے پر رکھ لیا۔ سیاسی جماعتوں کے رنگ دار جھنڈے اور تقریروں کے دوران ان کے لہرانے کے مناظر بھی کمال کے ہوتے۔ ہرکاروں‘ امیدواروں اور پٹواریوں کی ذمہ داری تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جمع کیے جائیں۔ لوگ اگر لاکھوں میں نہ ہوں تو عوامی رہنما کو تقریر کرنے کا مزہ ہی نہیں آتا۔ ایسی ناکامیوں پر نہ صرف سرزنش ہوتی بلکہ سیاسی گھرانے کی نظروں سے بھی گرنے کا خدشہ لاحق رہتا تھا۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں روزانہ کسی نہ کسی پارٹی کا جلسہ ہو رہا ہوتا تھا۔ مفت خوروں کی بھی موج لگی ہوتی تھی۔ مقامی امیدوار کے جلسے میں دور سے لاریوں میں لاد کر جانے والوں کے لیے اشیائے خور و نوش کا پُرتکلف اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ مٹھائیاں‘ حلووں کی دیگیں‘ بریانی اور لاہور کے مشہور قیمے والے نانوں کی ضیافتیں ہمارے ہاں ووٹ خریدنے کے زمرے میں نہیں بلکہ ووٹ کو عزت دو اور امیدوار کی عزت افزائی اور قانونی طور پر جائز سرگرمی سمجھی جاتی ہے۔ جتنا مقابلہ سخت یعنی کانٹے دار ہوتا ہے‘ اتنا ہی دیگوں اور ضیافتوں کی تعداد میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ جلسوں میں آنے کے لیے غریب لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کھرے نوٹ ان کی جیبوں میں ڈالے جاتے ہیں۔ جہاں اعتبار ذرا کمزور ہوتا ہے‘ لوگ پیشگی طلب کرتے ہیں۔ ضمانتیں فراہم کی جاتی ہے کہ وہ جلسے کی رونق بنیں گے۔ لوگ بھی مصروف ہوتے ہیں‘ کام کاج چھوڑ کر آتے ہیں‘ انہیں کرایہ‘ خرچہ پانی اور دن کی مزدوری کم از کم دگنی فراہم کرنا ان کا حق بنتا ہے۔ ظاہر ہے ایسی مقابلے بازیاں امیر لوگ ہی کرتے ہیں اور انتخابی خرچے کو وہ سرمایہ کاری قرار دے کر جیتنے کے بعد ترقیاتی فنڈز‘ نوکریوں‘ تبادلوں اور دیگر کاموں کی آڑ میں مناسب منافع کے ساتھ وصول کرتے ہیں۔ ان کی بھی تو مجبوری ہوتی ہے کہ دوبارہ انتخابات میں حصہ لینا ہے۔ وہ میدان اپنے سیاسی حریفوں کے لیے کھلا نہیں چھوڑ سکتے۔ سیاست ہمارے سیاسی طبقے کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی ہمارے سانس لینے کے لیے آکسیجن۔ سیاسی زندگی کی موت کسی کو گوارا نہیں‘ باقی سب کچھ برداشت کر لیں گے۔
آج کل ہم مخمصے میں ہیں کہ انتخابات کب ہوں گے‘ وقت پر ہوں گے یا وقت کا دھارا تیزی سے اتنا آگے نکل چکا ہے کہ انتخابات کے وہ زمانے جو ہم دیکھ چکے ہیں‘ وہ ماضی بعید میں دفن ہو چکے۔ گہرا سانس لینے کے بعد آنکھیں کھول کر پندرہ‘ سولہ ماہ سے جاری منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں تو ذہن میں ابہام کی اٹھتی لہریں تیزی سے دم توڑ دیتی ہیں۔ صاف نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس بے ابر سیاسی موسم میں آپ دور تک دیکھ سکتے ہیں۔ نگرانوں کو زیادہ وقت دینے کے لیے اسمبلیاں وقت سے پہلے تحلیل ہوں گی اور ظاہر ہے کہ عوام سے کئی برس دور رہنے کے بعد ان سے دوبارہ رابطوں کے لیے بھی وقت درکار ہوگا۔ نگران وزیرا عظم کے لیے مشاورت کا مطلب تو واضح ہے کہ اپنا ہی بندہ ہو۔ ایک جماعت نے اپنے بندے کا اشتہار بھی ایک دو دن تک چلائے رکھا۔ زرداری صاحب کی بات ہے کہ فیصلہ تو وہیں ہو گا جہاں ہوتا آیا ہے۔ سکہ رائج الوقت ہی چلتا ہے۔ کھوٹے سکوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ نگران کی نگرانی کے دائرۂ اختیار پر جس برق رفتاری سے قانون سازی ہوئی‘ ہمارے شکوک و شبہات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ویسے بھی ہم شکی مزاج ہیں۔ اب یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ مدتِ ملازمت کا دورانیہ وہی ہوگا جو الماری میں بند کتاب میں لکھا ہوا ہے یا پھر ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے اور وسیع تر قومی مفاد میں بڑھا دیا جائے گا۔ ترقی‘ خوش حالی‘ انصاف اور قانون کی حکمرانی کے علاوہ اس ملک میں سب کچھ ہو سکتا ہے۔ ایک شوشہ تو وقت سے پہلے چھوڑا جا چکا ہے کہ انتخابات دس سال بھی نہ ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ویسے بھی آپ شہروں‘ قصبوں‘ بازاروں اور دیہات میں جا کر دیکھیں‘ کہیں بھی ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ انتخابات اگلے سو دنوں میں ہونے جارہے ہیں۔ نہ کوئی جلسہ‘ نہ کوئی درختوں سے لٹکا پوسٹر‘ نہ کسی رونق میلے کی تیاری تو پھر یہ انتخابات ہوئے بھی تو بہت پھیکے ہوں گے۔ بے رنگ اور بے ڈھنگ قسم کے۔ عوام ایسے انتخابات کو دل سے نہیں مانتے جہاں میدان مخصوص دھڑوں کے لیے تیار ہو رہا ہو کہ کوئی مقابل آہی نہ سکے۔ انگریزی کمزور ہے مگر سلیکٹڈ اور الیکٹڈ کا فرق واضح نظر آرہا ہے۔ اب بس اعلان ہوگا کہ وہ جیت چکے۔ مبارک بادیں دی جائیں گی اور ملک چین اور سکون کے ساتھ دوبارہ ترقی کی راہ پر ڈال دیا جائے گا۔