مغربی معاشروں میں سیاسی، فکری، ادبی اور ثقافتی میدانوں کے چیدہ افراد بھی عوام میں گھل مل کر رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ دولت مند لوگ بھی کوئی علیحدہ بستی آباد نہیں کرتے، بلکہ کسی خاص علاقے کا انتخاب کر کے گھر تعمیر کر لیتے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین ارب پتی افراد میں سے ایک، امریکی سرمایہ دار وارن بوفٹ ایک عام سے گھر میں رہتا ہے۔ یہ گھر اُس نے 1950ء میں خریدا تھا۔ تب وہ اتنا دولت مند نہیں تھا۔ اب اُس کے پاس چوراسی ارب ڈالر کا سرمایہ ہے، لیکن گاڑی آج بھی کئی عشرے پرانی ہے جسے بڑھاپے میں بھی وہ خود چلاتا ہے۔ اُس کی جہازوں کی کمپنی ہے لیکن عام مسافروں کی طرح سفر کرتا ہے۔ کوئی جہاز اُس کے ذاتی تصرف میں نہیں۔ وہ مشرق و مغرب کے اُن دولت مند افراد میں شامل ہے جو اپنی نیک اور حلال کمائی اپنی ذات یا اپنے خاندان کے افراد کے لیے وقف نہیں کرتے۔ اُن کا نظریہ یہ ہے کہ دولت معاشرے اور انسانوںکے تعاون سے پیدا کی ہے تو یہ اُن کے خدمت کے لیے صرف ہونی چاہیے۔ جاگیردارانہ معاشروں میں دولت کا تصور اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں زمین، زر اور شہری جائیدادیں صرف نرینہ اولاد کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ بچیوں کو حصہ کم، اور کہیں کہیں ملتا ہے۔
یورپ اور امریکہ کے سیاسی رہنما عام لوگوںکی طرح زندگی گزارتے ہیں‘ عام جگہوں پر کھانا کھاتے اور کافی حاصل کرتے ہیں‘ کھیلوں کے میدانوں میں گھومتے نظر آتے ہیں۔ نہ کوئی ہماری طرح کا پرٹوکول، نہ گاڑیوں یا مسلح محافظوں کا دستہ۔ ہمارے دیہی معاشروں میں آج سے نصف صدی پہلے بھی یہی راج تھا۔ زمیندار لوگ زیادہ تر امیر تو تھے، مگر اپنی بستیوں، دیہات اور علاقوں سے فطری طور پر جڑے ہوئے تھے۔ اُن کے پاس جیپ وغیرہ کی سواری کا انتظام تو ہوتا تھا مگر آج کے زمیندار سیاست دانوں کے مقابلے میں طرزِ زندگی سادہ تھا، اور عوام سے ملنے جلنے کی روایت سیاسی وفاداریوں کے تابع نہ تھی۔ آج یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ ہمارا ووٹر ہے یا مخالف گروہ کا۔ سیاسی تقسیم صرف قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ مقامی اور دیہی سطح پر بھی سرایت کر چکی ہے۔ زیادہ تر رہنما زمیندار، جاگیردار سیاست دان اپنے آبائی علاقوں سے بڑے شہروں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ اُن کے سیاسی چکر لگتے رہتے ہیں۔ انتخابات سے ایک سال قبل اپنے حلقۂ انتخاب میں کچھ وقت گزارتے ہیں۔ خاندان کے کچھ افراد وہاں تھانے اور کچہری کے معاملات نمٹانے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
جب سے سیاست تجارت بنی ہے، سیاست سے وابستہ خاندان امیر کبیر ہو چکے ہیں۔ اُسی درجے مکانی سطح پر اُن کے اور عام آدمی کے طرز بود و باش میں فرق نمایاں ہو چکا ہے۔ گاڑیاں، محلات، نوکروں کی فوج اور اسلحہ بردار محافظ آگے پیچھے، یا گھروں اور ڈیروں کے باہر مورچہ زن رہتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ اسلحہ برداری کسی نادیدہ خوف کی وجہ سے ہے یا اپنے سیاسی مخالفین کو مرعوب کرنے کے لیے۔ ایسے لائو لشکر آپ کو روایتی دیہی سیاست میں عام ملیں گے۔ انتخابات کے دنوں اور انتخابی مہم کے دوران تو میدان کار زار کا گمان ہوتا ہے‘ جہاں ریاست نام کی ہر شے خاموشی سے ایک طرف کھڑی ہو کر طاقت کے ننگے مظاہرے کا تماشا دیکھ رہی ہوتی ہے۔ ہر سیاسی خاندان کے پاس اسلحہ خانہ، لشکری، محافظ بلکہ کچھ جرائم پیشہ افراد بھی ملازمین کے طور پر موجود رہتے ہیں۔ سب کچھ پردے میں ہے۔ دیوار کے پار۔ سیاسی ضرورت کے تحت لشکریوں کو متحرک کیا جاتا ہے۔ جس طرح مختلف خطوں کی کئی ریاستیں مسلح ہو کر بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتیں، اسی طرح کچھ افراد اور سیاسی خاندان بھی اسلحہ رکھنے اور لشکر پالنے کے باوجود اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔
کاش ہمارے سیاسی خاندانوں نے کچھ پڑھا ہوتا، کچھ سیکھا ہوتا، دنیا کا کچھ مشاہدہ کیا ہوتا۔ اگر اُن میں سے کچھ نے ایسا کیا ہے تو بھی وہ تبدیلی کے لیے تیار نہیں، کیونکہ جاگیرداری رنگ غالب ہے۔ مشاہدہ اور تاریخ یہ کہتے ہیں کہ دوسرے کو عدم تحفظ کا شکار کر کے کوئی فرد یا سیاسی خاندان خود خوف سے نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے برعکس خوف بڑھ جاتا ہے۔
خوف صرف سیاسی مخالفین سے ہی نہیں، اُس معاشرے سے بھی ہے جس کی نمائندگی کرنے کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ خوف اب پاکستانی معاشرے میں پھیل چکا ہے۔ نا جائز ذرائع سے کمائی گئی دولت اور سیاسی اثر و رسوخ سے حاصل ہونے والی طاقت اس خوف میں اضافہ کرتی ہے۔ بد قسمتی سے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ہمارے حکمران طبقات سے ہے۔ سماجی تفریق ذات پات کے حوالے سے تو ہمارے خطے کی پرانی روایت رہی ہے، مگر اب یہ تفریق معاشی طور پر زیادہ گہری ہو چکی ہے۔ آبادی کا وہ حصہ جس کا تعلق سیاست یا نوکر شاہی سے ہے، وہ کرپشن کے زور پر اپنے دست و بازو مضبوط کر چکا ہے۔ میں عمومی بات کر رہا ہوں، یقینا سب افراد ایک جیسے نہیں۔ استثنیٰ ہر شعبے میں ہوتا ہے۔ ایمانداری اور محنت سے دولت کمانے والوں کی بھی کمی نہیں۔ کاروباری خاندان، صنعت کار، ہائوسنگ کا سیکٹر چلانے والے اور دیگر بزنس مین آج روایتی زمینداروں سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے سیاست میں بھی سرمایہ کاری کی ہے۔ ہر سیاسی جماعت میں وہ بڑے رہنما ہیں، اُن میں سے کئی ایک حکومتی سیٹ اپ میں اہم عہدے بھی رکھتے ہیں۔پاکستانی معاشرے میں معاشی نا ہمواری کے باعث امیر، غریب اور متوسط طبقے کے درمیان تفریق بے حد وسیع اور گہری ہو چکی ہے۔ متوسط طبقہ حجم میں بڑھا، مگر اُس کے اندر بھی یکسانیت دکھائی نہیں دیتی۔ امیر تو بہت امیر ہو چکا ہے، اور غریبوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔ لیکن اُن کے پاس نہ تعلیم، نہ ہنر، نہ ملازمت اور نہ روزی کمانے کا کوئی ذریعہ ہے۔ صرف جسمانی محنت پر گزارہ ہے۔ دیہاڑی کی تلاش میں چوراہوں پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ انہیں غربت کا خوف دامن گیر ہے۔
خوف کہیں بھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ امیر کو غریب کا خوف ہے ۔ ڈاکے اور چوری کا خوف ہے۔ جب بگاڑ بڑھتا ہے تو لوٹنے والا یہ نہیں دیکھتا کہ اُس کا ہدف خوش حال ہے یا بد حال۔ زیادہ تر مسلم ممالک میں ہمارے جیسے معاشرے پائے جاتے ہیں۔ امیر اور حکمران طبقات سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی نئی بستیاں بنائی ہیں۔ بند بستیوں کے اشتہار شائع ہوتے ہیں‘جن میں ہر طرف محافظ موجود ہوتے ہیں۔ یقینا بد عنوان اداروں، اور اُن کی وجہ سے کمزور ریاست کے ہوتے ہوئے شہری مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ عدم تحفظ کا گہرا ہوتا ہوا احساس ہر جگہ دامن گیر رہتا ہے۔ ہم سب خوفزدہ ہیں۔ دہشت گردی کی ایک وجہ یہی بد عنوانی بھی تھی۔ بر وقت انصاف فراہم نہ کر سکنا بھی معاشرے میں انارکی، انتشار اور مایوسی پیدا کرتا ہے۔ یہ فضا ہر جگہ ہے، لیکن دیہی علاقوں میں زیادہ ہے۔
اس سارے مسئلے کا حل یہ نہیں کہ ہم نئی بستیاں بنا کر اس کی دیواریں اونچی کرتے چلے جائیں، زیادہ محافظ تعینات کر دیں، زیادہ اسلحہ جمع کر لیں۔ نہیں‘ بالکل نہیں، ایسا کرنے سے خوف کم نہیں ہو گا، صرف عدم تحفظ کا احساس بڑھے گا۔ جن لوگوں نے بر صغیر کی تاریخ کا مطالعہ کر رکھا ہے‘ انہیں یہ معلوم ہو گا کہ نوآبادیاتی نظام میں انگریز اور فرانسیسی اپنی الگ بستیاں بسا کر رہتے تھے۔ اُنہیں ہر دم خوف رہتا تھا کہ مقامی مزاحمت کار اُنہیں نقصان نہ پہنچا دیں۔ اسی نوعیت کا خوف ہمارے آج کے حکمرانوں پر بھی طاری ہے۔ وہ عام لوگوں سے خود کو الگ خیال کرتے ہیں۔ متوسط گھرانوں میں بھی یہی سوچ غالب دکھائی دیتی ہے۔ کسی کی دولت یا سماجی حیثیت کا اندازہ لگانے کے لیے لوگ پہلا سوال یہ کرتے ہیں کہ آپ کی رہائش کہاں ہے۔ آپ کس سیکٹر میں، کس کالونی میں، کس سوسائٹی میں رہتے ہیں؟
ہمیں اس سماجی نا ہمواری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست کو اتنا توانا کرنا ہو گا کہ نہ تو سیاست دان خوف میں مبتلا ہوں اور نہ ہی عام آدمی۔