یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جس جماعت نے بھی پنجاب میں اپنا مقام کھو دیا‘یا حمایت گنوا دی‘ اقتدار اُس کے پاس نہیں رہ سکتا۔ گزشتہ انتخابات میں ایک مرتبہ پھر اس بات کی تصدیق ہوگئی ۔ ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کا یہ صوبہ دو سیاسی جماعتوں‘ (ن) لیگ اور تحریک ِ انصاف میں ہر سطح پر تقسیم ہوا۔ آزادامیدواروں کو چھوڑ کر ‘ عددی اکثریت میں (ن )لیگ کا پلڑا ذرا سا بھاری تھا۔ میری رائے کے مطابق اگر پارلیمانی روایت کی پاسداری کی جاتی تو گورنر صاحب پہلے (ن) لیگ کو حکومت سازی کی دعوت دیتے ‘لیکن سیاسی محرکات ‘ تحریک ِ انصاف کی وفاق میں برتری اور ہر سو تبدیلی کا غوغانئی قیادت کے حق میں تھا۔ تحریک ِ انصاف کی پنجاب میں خاطر خواہ کامیابی سے نون لیگ کو دھچکا تو ضرور لگا مگر عوامی سطح اور اشرافیہ کی حد تک اس کی حمایت میں بہت زیادہ کمی واقع نہ ہوئی ۔ دانشمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ تحریک ِ انصاف پنجاب میں نوکرشاہی‘ پولیس‘ صحت‘ تعلیم اور دیگر اہم شعبوںمیں اصلاحات لاتی ‘ جو اس نے خیبرپختونخوا میںلا کر دوسری مرتبہ واضح عوامی حمایت حاصل کی تھی ۔ پنجاب کی سیاسی اہمیت نہ کسی سیاسی قائد‘ مبصر یا جماعت سے پوشیدہ ہے ۔ یہ بات روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر پنجاب تحریک ِ انصاف کے ہاتھ سے ایک دفعہ نکل گیا تو دوبارہ شاید ہی کبھی ایسا ہو کہ عام لوگ یا سیاسی خاندان اس کے تبدیلی کے نعروں پر دھیان دیں۔
تمام تر توقعات اور امکانات کو ایک طرف رکھتے ہوئے پنجاب کی وزارت ِاعلیٰ کے حوالے سے کیا جانے والا فیصلہ سیاسی تدبر اور دروبینی سے خالی تھا۔ کچھ ہفتے عمران خان عوام کو سرپرائز دینے کی باتیں کرتے رہے ۔ اور یہ بھی کہا کہ آئندہ پنجاب کا وزیر ِاعلیٰ صوبے کے پسماندہ علاقے سے ہوگا۔ جب محترم عثمان بزدار کا اعلان ہوا تو پنجاب کی تاریخ‘ سیاست اور سماجی ساخت کا مطالعہ کرنے اور تجربہ رکھنے والے مبصرین ششدر رہ گئے۔ مخالفین ہنستے رہے۔ تحریک ِ انصاف کے نمائندے بھی بھونچکا تھے ۔ کسی کو بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ عقل حیران تھی کہ آخر عثمان بزدار میں عمران خان نے کونسی خوبی ڈھونڈ نکالی ہے جو تحریک سے دہائیوں سے وابستہ نظریاتی اور وفادار کارکنوں میں نہ تھی۔کئی سازشی مفروضوں نے جنم لینا شروع کردیا۔ان کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔
کس کی سفارش پر عثمان بزدار کو یہ اعلیٰ منصب سونپا گیا؟ فی الحال یہ بحث مفروضوں پر ہی مبنی ہے‘ حتمی طور پرکچھ نہیں کہا جاسکتا‘اور نہ ہی کہنے کی ضرورت ہے ۔ فیصلہ عمران خان کا ہے‘ وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ اور آج جو پنجاب کی حالت ہے ‘اس کی ذمہ داری بھی عمران خان پر عائد ہوتی ہے ۔ آزاد سیاسی مبصرین میں سے شاید ہی کوئی ہوجو یہ کہہ سکے کہ راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ واقعتاً پنجاب ڈوب رہا ہے۔ پانی کے سیلاب میں نہیں‘ کرپشن ‘ بدعنوانی‘ اقربا پروری اور نااہلی کے گندے پانی میں۔ جو کچھ پنجاب میں ہم گزشتہ ایک سال کے دوران دیکھ رہے ہیں‘ کیا اس سے بزدار صاحب کو دریافت کرنے والے وزیراعظم پاکستان بے خبر ہیں؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔ حکومت اور ریاست کے شعبے ضلع کی سطح پر روزانہ کی بنیاد پر اطلاعات جمع کرکے اسلام آباد ارسال کرتے ہیں۔ بدعنوانی کہاںہورہی ہے‘کون کیا کررہا ہے‘ سب کچھ ایک خبرنا مے کی صورت ہر صبح یا شام وزیر ِاعظم کی میز پر رکھا جاتا ہے ۔ پھر بھی اتنی خاموشی‘ اتنی بے اعتنائی؟ پنجاب سے بے رحمی کا سلوک کیوں ؟ کیا وہ اس کے امکانی سیاسی نتائج سے واقف نہیں؟
جو کچھ خاکسار کے مشاہدے میں ہے‘ میں اس کا ذکر اس دعوے کے ساتھ کرتا رہتا ہوں کہ شاید کوئی جھٹلا سکے ۔ اس کی سب کے سامنے تردید کرے ۔پنجاب کے ہر ضلع کی سطح پر سرکاری کالجوں میں تعلیمی نظام عرصہ دراز سے بگاڑ کا شکار ہے ۔ خرابی (ن) لیگ کے زمانے سے‘ اُن کے دس سالہ دور میں ‘ یا شاید ا س سے بھی پہلے ہوئی۔ میاں شہباز شریف اصلاحات کا علم بلند کرتے‘ نعرے لگاتے رہے ‘ جوشیلی تقریریں کیں‘ آخر کار روایتی مصلحتوں کا شکار ہوکر بیٹھ گئے۔ بھڑوں کے چھتے میں کون ہاتھ ڈالے! طالب علم کالج میں داخلہ تو لیتے ہیں‘ مگر وہاں پڑھتے نہیں۔ سرکاری خزانے سے بھاری تنخواہ لینے والے اساتذہ بھی ہیں‘ لیکن طلبہ کو ٹیوشن سنٹرز کی راہ دکھائی جاتی ہے ۔ ستم یہ ہے کہ یہ ٹیوشن سنٹرز سرکاری کالجوں کے کل وقتی اساتذہ چلا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ حاضری لگانے‘ چائے کا ایک کپ پینے‘ اور گپ شپ کے لیے ادارے میں آنے کی زحمت تو کرتے ہیں‘ لیکن پڑھاتے نہیں۔ اگر کلاس میں آنے کی زحمت کرلیں تو محض وقت گزارنے کے لیے ۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ دراصل کہاں پڑھائیں گے۔ یہ اکیڈمیاں کرائے کی عمارتوں‘ یا اُن کے اپنے گھروں کے چند کمروں میں کھولی گئی ہوتی ہیں۔ وہاں بھاری فیس لے کر پڑھاتے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ تحریک ِ انصاف کی حکومت اس اہم معاملے کو اپنی پہلی اصلاحاتی ترجیح میں شامل کرے گی۔ آج سولہ ماہ ہوچکے ‘ لیکن صورت ِحال جوں کی توںہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ غریب خاندانوں کو اپنے بچوں کو ان نام نہاد اکیڈمیوں میں پڑھانے کے لیے بہت جتن کرنے پڑتے ہیں۔ کہاں ہے‘ پنجاب کی حکومت؟کہا ں ہے تحریک ِ انصاف کی قیادت؟ کیا کوئی جواب ہے ؟ پنجاب کے کالجوں میں ہونے والی بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کچھ کیا جاسکا؟ افسوس صد افسوس‘ بدعنوان اساتذہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل تباہ کررہے ہیںاور خاں صاحب اقتدار کے نشے میں پتہ نہیں کس خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔ سرکاری جامعات میں ملا جلا رجحان ہے ۔ اصلاحات وہا ں بھی شروع نہیںہوئیں‘ لیکن جہاں قابل ‘ دیانتدار اور فرض شناس وائس چانسلر صاحب ہیں‘ وہاں حالات قدرے بہتر ہیں۔
پنجاب میں ضلع کی سطح پر نوکر شاہی زیادہ تر بدعنوان افسران پر مشتمل ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ تحریک ِ انصاف کو پنجاب سے نکالنے کی کوئی سوچی سمجھی سازش ہے ۔ لیکن یہ سازش نہیں‘ سمجھوتہ ہے۔ بدعنوان افسران کو کلیدی عہدوں پر ایک واضح مقصد کے لیے تعینات کیا جاتا ہے ۔ مال بنانے کا سلسلہ وہاں سے شروع ہوتا ہوا ڈویژن اور صوبے کی اعلیٰ قیادت تک جاتا ہے ۔ راجن پور میرا آبائی ضلع ہے ۔ خاکسار کا وہاں آنا جانا لگا رہتا ہے ۔آج آزادی کے 72 سال بعد بھی یہ ضلع بلوچستان کے غیر ترقی یافتہ اضلاع کی طرح ہے ۔ یہاں زیادہ تر بدعنوان افسران مقرر کیے جاتے ہیں‘ کیونکہ کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے ہمارے عوامی نمائندے اُن سے اپنا کام نکالتے ہیں۔ اس ضلع میں صرف جون کے مہینے میں ڈپٹی کمشنر اور پبلک ورکس کے ایک ایکس ای این نے مجموعی طور پر 64 کروڑ خزانے سے نکال کر ترقیاتی کاموں پر خرچ کرڈالے۔ دیگر اضلاع میں بھی لوٹ کھسوٹ جاری ہے ۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق (جس کی ابھی تک تردید نہیں ہوئی)‘ ڈپٹی کمشنر راجن پور نے جون میں 60 لاکھ کی لاگت سے سڑکوں کے درمیان کھجوروں کے بلند درخت لگوائے‘ جو کسی صورت جڑ نہیں پکڑ سکتے تھے ۔ یہ سب کاغذی کارروائی تھی ۔ کھجور کیا لگنی تھی‘ سب کو اپنی اپنی محنت کا ''پھل‘‘ مل گیا ۔ عوام خاموش اور بے بس۔
سرکاری دفاتر میں لاہور سے لے کر راجن پور تک رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ جائز اور معمول کے کاموں کے لیے پہلے تو رولز کا حوالہ دے کر کہ ''یہ نہیں ہوسکتا‘‘ کی تکرار‘ اور پھر دس منٹوں میں مک مکا۔ نقد زر کھلے عام وصول کیا جاتا ہے اور ستم یہ کہ رشوت کی وصولی اپنی کاپی میں روزانہ درج کی جاتی ہے کیوں کہ اوپر والوں نے حساب لینا ہے ۔ پنجاب کی نوکر شاہی کئی دہائیوں سے منظم بدعنوانی میں ملوث ہے ۔
کہاں ہے وہ تبدیلی جس کے خواب دکھائے گئے تھے ؟ خیر پلوں کے نیچے سے ابھی اتنا بھی پانی نہیں بہا کہ کچھ کیا نہ جاسکے ۔ پنجاب کو بہتر بنانا لازمی ہے تو سب سے پہلے وزیرِاعلیٰ کو جانا ہوگا۔ ہر ڈپٹی کمشنرکا احتساب کرنا ہوگا۔ تاخیر اور مصلحت کی صورت میں تحریک ِ انصاف کی قیادت پر پنجاب کا اعتماد کمزور سے کمزور تر ہوتا جائے گا۔