کم و بیش پونصدی ہم ضائع کر چکے۔ نہ کوئی سمت‘ نہ راہ‘ نہ منزل‘ فقط سیاسی طوفانوں کی زد میں زرد پتوں کی طرح ہوا کے تھپیڑوں میں ٹکراتے رہے۔ دو نسلیں اچھے مستقبل کی امید اور ملک سنوارنے کا خواب آنکھوں میں سجائے تہہ خاک جا چکیں۔ ہمارا ملک قدرتی نظاروں سے سجا ہے۔ شمال کے فلک بوس پہاڑوں کی خیرہ کن چوٹیوں سے لے کر سندھ اور بلوچستان کے وسیع سمندری پانیوں تک‘ کئی خوبصورت دریا‘ ندیاں‘ نالے‘ جھیلیں‘ مختلف نوع کی زمینی اور جغرافیائی ساخت‘ زرخیز کھیت‘ میدان‘ وادیاں‘باغات ہیں اور وسیع نہروں کا ایسا نظام کہ دنیا رشک کرے۔ سب شہر‘ جنہیں بچپن اور جوانی میں دیکھنے کا موقع میسر آیا صاف‘ ستھرے‘ اور پُر فضا باغوں اور پارکوں کا گہوارہ تھے۔ انگریزوں سے پہلے مغل شہنشاہ تو باغات سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ انہوں نے جہاں بھی قدم رکھا‘ جہاں پڑائو کیا‘ ایسا نقش چھوڑ گئے کہ کئی صدیوں بعد بھی‘ ان کی زینت و رعنائی میں فرق نہیں آیا۔ انگریزوں نے ہر شہر کی ازسرِ نومنصوبہ بندی کی۔ اگرچہ انہوں نے اپنی فوجی اور سرکاری بستیاں الگ سے بسائیں‘ لیکن آنے والی نسلوں کیلئے جدید طرز کی کشادہ سڑکیں‘ باغات‘ عمارتیں اور رہائشی کالونیوں میں ایسا نظم و ربط رکھا کہ شاید ہی کسی دیگر سامراجی قوت نے ایسا کیا ہو۔ ان کی دیکھا دیکھی‘ ہمارے روشن خیال شہریوں نے انگریزوں سے کہیں بہتر رہائشی علاقے‘ کاروباری مراکز اور عالی شان شفاخانے اور تعلیمی عمارات بنائیں۔ لاہور‘ پشاور‘ راولپنڈی‘ کراچی‘ ایبٹ آباد‘ کوئٹہ‘ اور دوسرے چھوٹے بڑے شہروں کو آج سے نصف صدی پہلے اگر آپ خوش قسمت تھے اور دیکھا تھا تو آج اپنے آپ کو ان شہروں میں اجنبی محسوس کریں گے۔ اب یہ ویسے نظر نہیں آئیں گے‘ جیسے آپ نے چند دہائیاں پہلے دیکھے تھے‘ حتیٰ کہ وہ شہر اور گائوں بھی ویسے نہیں رہے جن کی پُر رونق گلیوں اور بازاروں میں آپ نے زندگی کا بہتر حصہ گزارا۔
کئی سال بعد‘ کل صبح سویرے راولپنڈی کے پرانے محلوں اور گلیوں کو ایک نظر پھر سے دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوا کہ کیا پتہ سانس کب رک جائے۔ زندگی کی بے ثباتی کے بارے میں کون سا مفکر‘ فلسفی‘ مصلح شاعر ہے‘ جس نے کچھ لکھا نہ ہو‘ مگر جو مرزا اسداللہ خان غالب کہہ گئے اور جس خوبصورتی اور اختصار سے‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پہ ہے‘ نہ پا ہے رکاب میں
عمومی طور پر اندرون شہر کا سفر بھابھڑا بازار سے شروع کرتا ہوں۔ تھوڑا سا اندر جائیں تو دائیں طرف سوہن سنگھ کی عالیشان حویلی ہے۔ کئی دہائیوں تک ''بے گھر‘‘ لوگوں نے اس شاندار عمارت کو اپنا مسکن بنائے رکھا تھا۔ اندر سے دیکھا تو اس کی خستہ حالی پر یقین نہ آیا۔ سوچا‘ ایسی حویلی اگر استنبول‘ ٹوکیو یا بھارت میں ہوتی تو پانچ ستارہ ہوٹل کی صورت میں ڈھل جاتی۔ تارکین اقلیتوں کی جائیدادوں کی حفاظت کے ذمہ دار ادارے نے ایسی غفلت کی کہ بادامی باغ کے بسوں کے اڈے کا سا منظر نظر آ رہا تھا۔ کچھ حصے پر ہمسایوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ ایک دیوار کے اندر پیپل کا درخت اپنی جڑیں گہری کر چکا ہے۔ معلوم نہیں کتنے سرکاری اہلکار کتنے برسوں سے تنخواہیں بٹور رہے ہیں مگر ان سے یہ نہ ہو سکا کہ دیوار کو اس درخت سے ہی آزاد کرا دیتے۔ قبضہ گروں سے تو حویلی خالی کرائی جا چکی ہے مگر بحالی کا کام سست روی‘کا شکار ہے۔ وہاں تک جانے کا راستہ دھوئیں سے اٹا ہوا تھا۔ رکشوں‘ موٹر سائیکلوں کی اتنی بھیڑ تھی اور سانس لینا اس قدر دشوار تھا کہ مجھے الٹے پائوں واپس آنا پڑا۔ ماضی میں ایک دفعہ اس حویلی کی چھت پر جانے کا موقع ملا تھا۔ وہاں سے میں نے پرانے راولپنڈی کا نظارہ کیا تھا۔ مندروں کے مینار دور دور تک عام گھروں کی اونچائی سے ابھرے نظر آئے۔ اب بہت سی ایسی عبادت گاہوں کی زمینوں‘ یہاں تک کہ عمارتوں پر بھی حریص لوگ قابض ہو چکے ہیں۔ سید پور سڑک پر کئی مندر نمایاں تھے۔ اب شاید ہی کوئی قبضہ گروپوں کی دستبرد سے بچا ہو۔ کہاں ہے قانون؟ کہاں ہے انصاف؟ اور کہاں ہے دین اسلام کی اصل روح‘ جس کے مطابق دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کا احترام اور حفاظت لازم ہے۔
کوہاٹی بازار سے دوبارہ اندرون شہر کا سفر شروع کیا۔ پیدل ہی چلتا ہوں۔ یہاں بھی فضا آلودگی سے بوجھل تھی۔ آنکھوں میں جلن اور سانس میں کثافت بھی نئی بات نہیں تھی۔ دماغ میں وہی سوال گردش کرنے لگا کہ ہم آبادی کے پھیلائو کو روکنے میں ناکام رہے اور شہری منصوبہ بندی کی طرف کوئی توجہ نہ دی جا سکی۔ کوہاٹی بازار کا تو نقشہ ہی تبدیل ہو چکا ہے۔ سب پُررونق دکانیں ختم ہو چکی ہیں۔ ان کی جگہ زیادہ تر موٹر سائیکلوں کی مرمت گاہوں نے لے لی ہے یا کچھ عمارتی سامان کے مراکز ہیں۔ اندرون لاہور ہو‘ ملتان یا راولپنڈی‘ بدبو اور گندگی سب میں مشترک ہے۔ دھوپ سینکتے دکاندار ہوں یا عام چلتے ہوئے شہری‘ کوئی بھی بدبو‘ گندگی سے متکلف دکھائی نہ دیا۔ یہ روزانہ کا معمول ہے۔ سب یہی دھوئیں‘ گندگی کے ڈھیروں اور بدبودار فضا والی زندگی خاموشی سے بسر کر رہے ہیں۔ یہ غریب‘ متوسط یا نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے روایتی آبادیاں ہیں۔ حکمران اور متمول لوگ یہاں نہیں رہتے۔ ان کے ٹھکانے اب بلندوبالا پہاڑیوں یا جدید‘ کشادہ اور منظم آبادیوں میں ہیں۔ شیخ رشید احمد صاحب‘ المعروف ''فرزندِ راولپنڈی‘‘ کی لال حویلی ابھی لال ہی ہے۔ معلوم نہیں وہ بھی یہاں رہتے ہیں یا نہیں۔ اردگرد کے ماحول کو دیکھنے اور کچھ وقت بوہڑ بازار میں گزارنے کا موقع میسر آیا۔ بدبو اور دھوئیں کے بادل یہاں بھی تھے۔ اگر کسی کو شک ہی تو کسی بھی وقت وہاں جا کر دیکھ لے۔ یہ عجیب بات ہے‘ مگر اب عجیب اس لئے نہیں معلوم ہوتی کہ پاکستان کے کسی بھی شہر کے پرانے تجارتی مراکز میں جائیں تو ایک ہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے کہ آدھی سڑک سے زیادہ پر سیٹھوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ رہی سہی کسر ہزاروں کی تعداد میں کھڑی موٹر سائیکلوں نے نکال دی ہے۔ سوچا‘ دکاندار سے اس بارے میں مکالمہ کیا جائے۔ ایک دکان کے آگے‘ سڑک کی طرف تقریباً بارہ فٹ تک سامان فروخت کیلئے بکھرا ہوا تھا۔ چلنے کیلئے بہت تنگ راستہ‘ جو ہر ایک دو منٹ بعد موٹر سائیکلوں کی ہر طرف یلغار کی وجہ سے بند ہو جاتا۔ قدم دھرنا مشکل تھا۔ پوچھا‘ یہ کوئی انصاف ہے‘ انسانیت ہے؟ کیا یہاں کسی قانون کا احترام نہیں؟ آپ نے اپنی حد سے تجاوز کرکے سڑک‘ جو عام لوگوں کی آمدورفت کیلئے ہے‘ قبضہ کر رکھا ہے؟ ممکن ہے آپ نے بھی کبھی‘ کہیں یہی سوال اٹھائے ہوں‘ یقین جانیے‘ ہر جگہ اور کئی سالوں سے جواب ایک ہی ملتا ہے۔ تجربہ کرکے دیکھ لیں۔ کہتے ہیں: کون سا قانون؟ کون سا انصاف؟ دیکھیں سب لوگ کر رہے ہیں‘ کیا قانون ہم پر ہی نافذ کرنا ہے؟ ویسے آپ کون ہیں ہم سے پوچھنے والے؟ بحث مقصود نہ تھی‘ اس لیے چپ سادھ لی اور کچھ دیر ٹھہر کر‘ زندگی کو رواں دواں دیکھتا رہا۔ یہ سب کچھ لال حویلی کے سامنے اور اڑوس پڑوس میں ہو رہا ہے۔ انتخابی سیاست کی اپنی مصلحتیں ہیں۔ شیخ رشید صاحب دکانداروں کو کیوں مجبور کریں گے کہ وہ کاروبار کو اپنی دکان کی حدود تک محدود رکھیں۔ ووٹ خطرے میں ڈالنے کا خدشہ کوئی مول لینے کو تیار نہیں۔
ساتھ ہی موتی بازار ہے۔ یہ اتنا تنگ ہے کہ گاہک آمنے سامنے صرف دو قطاروں میں چل سکتے ہیں۔ یہاں تنگی کے باوجود دکانداروں نے چبوترے بڑھا رکھے ہیں اور کچھ بلندی پر بیٹھ کر باجی‘ باجی کی صدائیں لگاتے رہتے ہیں۔ یہ تنگ بازار خواتین سے بھرا ہوا تھا۔ کسی کونے کھدرے میں کوئی خالی جگہ نظر آئی تو اس پر بھی کسی ٹھیلے والے یا اشیائے خورونوش بیچنے والے نے قبضہ جما رکھا تھا۔
مزید پیدل چلنے کی ہمت نے جلد ہی جواب دے دیا؛ چنانچہ واپس لوٹ کر پھر بوہڑ بازار کی طرف آ نکلا۔ ارادہ تو کچھ مزید علاقے پھرنے کا تھا‘ مگر اب پھیپھڑے کالے دھوئیں سے بھر چکے تھے۔ جسم کے الارم کی گھنٹی کافی دیر سے زور سے بج رہی تھی۔ راولپنڈی کے اس حصے میں مزید ٹھہرنا ناممکن ہو گیا تھا۔
رکشا لے کر فیض آباد کی طرف آ گیا۔ یہاں ایک مدرسہ ہے‘ جس کے سامنے اب کاروبار کے مراکز ہیں۔ صرف یاددہانی اور تاریخ کی گواہی کیلئے یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اب جس جگہ دکانیں ہیں یہاں ایک عوامی پارک تھا۔ یہ فیض آباد انٹرچینج بننے سے قبل تک قائم تھا۔ ہماری مملکت خداداد میں سرکاری جائیداد‘ جو عوامی ملکیت ہوتی ہے‘ جس میں آپ کا میرا اور ہماری آنے والی نسلوں تک کا حصہ ہے‘ ہتھیانے کا انوکھا طریقہ ہے۔ راتوں رات کوئی ایسی عمارت تعمیر لی جاتی ہے جس سے قبضے کو مقدس بنایا جا سکے۔ سرکاری اہلکاروں پر مولویوں کا خوف غالب آ جاتا ہے۔ اگر خوف خدا ہو تو عوامی ملکیت اور خصوصاً پارکوں کی حفاظت‘ مقدس تر عبادت اور ذمہ داری ٹھہرتی ہے۔ یہاں پر پارک کے سب نقش مٹ چکے ہیں۔
افسوس صد افسوس‘ یہ کیسی سیاست بازی ہے کہ اقتدار کی ہوس نے ہمارے حکمرانوں کو غاصبوں‘ لٹیروں اور قبضہ مافیوں کا روپ دے دیا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ اب سیاست سماجی اقتدار‘ اعلیٰ اخلاقی معیار اور عوامی خدمت کا جذبہ رکھنے والے لوگوں کے ہاتھ کم ہی رہ گئی ہے۔ سڑکوں‘ گلیوں اور پارکوں پر قبضے کے ساتھ ساتھ اس پر بھی قبضہ ہو چکا ہے۔ ورنہ کچھ تو بہتری آتی۔ تازہ ہوا کہیں خواب و خیال ہو گئی ہے۔ سانس لینا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ صاف پانی اور خوراک قصۂ پارینہ ہو چکے۔ حکمران ووٹ کو عزت دیتے تو ہماری قدرتی آب و ہوا کا یہ حال نہ ہوتا۔ صاف ہوا اور ماحول کو بھی کچھ عزت مل جاتی!